تعلیم و ’’طربیت‘‘

چینی قیادت نے تو ہر معاملے میں قیامت ڈھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ دُنیا کی کون سی منڈی ہے جہاں چین نے اپنا مال ڈمپ کرکے اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی؟ امریکا پریشان ہے کہ اِس معاشی عفریت کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ اور دوسری طرف چینی قیادت کا یہ حال ہے کہ دُنیا بھر کی منڈیوں کو تاراج کرنے کے بعد اب پورس کے ہاتھی کی طرح اپنے ہی لوگوں کو دبوچنے، بلکہ دبوچے رکھنے پر کمر بستہ ہے!

چین سے ایک دلچسپ خبر یہ آئی ہے کہ حکومت ہائی اسکولز میں طلبا اور طالبات کی ایک دوسرے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی سے پریشان ہے۔ غور فرمائیے، طلبا و طالبات کے والدین کو پریشانی لاحق نہیں مگر حکومت تشویش میں مبتلا ہوئی جاتی ہے! اﷲ ایسی حکومت سے بچائے۔ اگر حکومتیں یہ طور اپنالیں تو نئی نسل کے سارے مزے مِٹّی چاٹنے لگیں!

چینی حکومت کی پریشانی خاصی حیران کن ہے۔ نئی نسل سے تعلق رکھنے والے مخالف صنف میں دلچسپی لیتے ہی ہیں۔ لڑکے اگر لڑکیوں میں دلچسپی لیتے ہیں تو فطری امر ہے۔ کیا چینی حکومت اِس کے برعکس کوئی رجحان فروغ دینا چاہتی ہے! فطری میلان کو غیر فطری طریقے سے روکنا یا تہس نہس کرنا ممکن نہیں۔
نئی نسل کے بارے میں چینی حکومت نے محض پریشان ہونے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ’’پبلک کے بے حد اِصرار پر‘‘ تھوڑی بہت کامیڈی کا بھی اہتمام کیا ہے! ہائی اسکولز میں طلبا و طالبات کو ایک دوسرے سے بچانے (!) کے لیے چینی حکومت نے چند ’’رہنما اُصول‘‘ وضع کئے ہیں اور اُنہیں نئی نسل تک پہنچا بھی دیا ہے۔ ویب سائٹس پر اِن اُصولوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اسکولز کے انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ طلبا اور طالبات کو ہدایت کریں کہ وہ بات چیت اور کھیل کود کے دوران آپس میں فاصلہ رکھا کریں!

طلبا و طالبات کو آپس میں فاصلہ رکھنے کی ہدایت کرنا ویسے زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ چینی قیادت بھی باقی دُنیا سے خاصا فاصلہ برقرار رکھتی آئی ہے! مگر یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ فاصلہ کتنا ہونا چاہیے۔ فاصلے کا تعین نئی نسل اور اسکولز کے منتظمین کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال، زور اِس بات پر ہے کہ فاصلہ رکھا جائے یعنی ’’ثوابِ دید‘‘ پر گزارا کیا جائے! اب سوال یہ یہ ہے کہ اگر فاصلے کا تعین اسکول کی انتظامیہ اور لڑکوں لڑکیوں کو کرنا ہے تو ’’اصلاحِ احوال‘‘ کیونکر ممکن ہوگی؟ پرنالہ تو وہیں گرتا رہے گا! جب معاملہ ذاتی صوابدید ہی پر چھوڑنا تھا تو خواہ مخواہ معترض ہوکر نئی نسل کو بے مزا کرنے کی کیا ضرورت تھی!

فاصلہ رکھنے کے ذکر پر ہمیں جنرل ضیاء الحق مرحوم کا زمانہ یاد آگیا۔ اُنہوں نے معاشرے کو خرابی سے بچانے کے لیے حکم دیا تھا کہ فلموں میں ہیرو اور ہیروئن فاصلہ رکھیں! ایسا ظلم تو فلموں میں پائے جانے والے بدنامِ زمانہ ’’ظالم سماج‘‘ نے بھی کبھی نہیں ڈھایا تھا! فلموں کو اخلاق سوز مناظر سے پاک رکھنے کے حکم کا نتیجہ یہ برآمد ہوا تھا کہ سِلور اسکرین پر ہیرو اور ہیروئن کو گانوں میں محبت کا اظہار بھی چار فٹ کے فاصلے سے کرنا پڑتا تھا! گویا دونوں کسی متعدی مرض میں مبتلا ہوں! یہ منظر اچھی خاصی سنجیدہ اور رومانی فلم میں کامیڈی پیدا کرتا تھا اور فلم کا genre تبدیل ہو جاتا تھا! یہ سبب ہے کہ مارشل لا کے پورے دور میں الگ سے مزاحیہ فلمیں بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی!

پاکستانی فلموں کو ’’محبت کے اخلاقی اُصولوں‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ فلمی دنیا کے لوگ ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں! فلم میکرز نے جب یہ دیکھا کہ ہیرو اور ہیروئن کو قریب لانے پر پابندی ہے تو اُنہوں نے ہیرو کے ساتھ اُس کی جوان بہن یا ہیروئن کے ساتھ اُس کے جوان بھائی کو نچوانا شروع کردیا! اُس دور کی ایک فلم ’’روبی‘‘ کے گانے ’’سَچّی سَچّی بول بہنا بول، سَچّی سَچّی بول بَھیّا بول‘‘ میں اظہار قاضی مرحوم اور سلمیٰ آغا کے درمیان ایک مُقدّس رشتے کو تِھرکتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے!

چینی حکومت تقوٰی یقینی بنانے کے جُنون میں زاہدِ خُشک ہوئی جارہی ہے۔ زمانہ اسکول کا ہو یا کالج کا، رنگینیوں ہی سے عبارت ہوتا ہے۔ کچھ دن ہیں جو ہنسنے مسکرانے اور گنگنانے کے ہیں۔ اِس ’’عہدِ زَرّیں‘‘ کے گزرتے ہی اِنسان کے نصیب میں صرف تاریکیاں رہ جاتی ہیں! چار دن کی چاندنی کے بعد صرف وہی اندھیری رات سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ اور چینی حکومت ہے کہ چار دن کی چاندنی کو بھی میلی کرنے پر تُل گئی ہے!

مرزا تنقید بیگ کا موقف بھی یہ ہے کہ نئی نسل کے لیے صنفِ مخالف سے تعلق یکسر حرام قرار دینے کا انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔ اِس معاملے کو آمرانہ طور طریقوں کے بجائے جمہوری انداز سے یعنی ڈنڈے کے بجائے پیار سے نمٹانا چاہیے۔ مرزا کے خیال میں مخلوط تعلیم میں بُرائیاں بھی پائی جاتی ہیں مگر اِس طریقِ تعلیم کو بھونڈے طریقے سے ختم کرنے کے نتیجے میں اِس سے بھی زیادہ بھونڈی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے!

مرزا کہتے ہیں۔ ’’ایک چینی معاشرے کو کیا روئیے، ہر معاشرے کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ کِسی بھی مسئلے کو حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھنے سے زیادہ اہمیت اِس بات کو دی جاتی ہے کہ سائڈ اِشوز پر ہر وقت نظر رہے۔ ہر معاشرہ نئی نسل کے لیے یوں ہی ظالم سماج بن جایا کرتا ہے۔ کوئی بزرگوں کو لاکھ سمجھائے کہ آپ بھی تو جوانی کی منزل سے گزرے تھے۔ کچھ یاد ہے کہ آپ نے کیا گل کھلائے تھے۔ ایسی باتوں کا بزرگ بُرا مان جایا کرتے ہیں۔ احترام کا تقاضا ہے کہ بزرگوں کو آزار دینے والے سوالوں سے گریز کیا جائے!‘‘

بہت پہلے کی بات ہے۔ یہی کوئی پچیس تیس سال پہلے جب آتشؔ جوان تھا یعنی ہم پر جوانی تھی تب ہمارے سوال سے ایک خاندانی (یعنی ہمارے اپنے خاندان کے) بزرگ ناراض ہوگئے تھے۔ موصوف ہمیں نصیحت فرما رہے تھے کہ دِل لگاکر پڑھا کرو۔ ہم نے استفسار کیا حضور! دِل لگانے کے بعد کبھی کوئی پڑھ سکا ہے؟
یہ تو خیر ماضی کے دُھندلکوں میں لپٹا ہوا جُملۂ معترضہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہوں تو پڑھنے میں من زیادہ لگتا ہے۔ اور کیوں نہ لگے؟ ایک دوسرے کو متاثر بھی کرنا ہوتا ہے، بہت حد تک ’’گڈ وِل‘‘ بھی تو قائم کرنا ہوتی ہے! مرزا تنقید بیگ نے اسکول اور کالج کے زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا۔ ’’مخلوط تعلیم کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ جو کام گھر، بلکہ خاندان کے بڑے مل کر نہیں کر پاتے وہ ایک معمولی سی لڑکی کر دِکھاتی ہے۔ لڑکا علم کی لگن میں نہ سہیں، کسی لڑکی کی لگن ہی میں کتابیں چاٹتا رہتا ہے تاکہ کلاس میں سب کے سامنے اور بالخصوص اُن محترمہ کے سامنے ’بیزتی‘ خراب نہ ہو! مخلوط تعلیم کا اِس سے بڑا فائدہ کیا ہوسکتا ہے کہ اِس کے ذریعے لڑکوں میں اپنی ’عزت‘ احساس پیدا ہوتا ہے! اگر اِس طریقے سے قوم کے بَچّے تھوڑا بہت پڑھ لیں تو اِس میں ہرج کیا ہے؟ بڑے فائدے کے آگے چھوٹے نقصان کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔‘‘

مرزا کی اِس بات سے ہم متفق ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مگر خیر، تھوڑی سی اُداسی بھی طاری ہوئی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ہمیں کبھی مخلوط طریقِ تعلیم سے بہرہ مند ہونے کا موقع نہیں ملا۔ اگر ملتا تو ہم بھی دِل لگاکر پڑھتے، ’’بیزتی‘‘ خراب ہونے کے ڈر سے خوب تیاری کے ساتھ امتحان دیا کرتے۔ کلاس کی کوئی سی دو آنکھوں میں اپنی ’’گڈ وِل‘‘ قائم کرنے کی خاطر شاید کچھ پڑھ ہی جاتے۔ ڈھنگ سے پڑھ نہ پانے کا نتیجہ آپ کو بھگتنا پڑ رہا ہے یعنی ہم اب کالم نویسی فرما رہے ہیں!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483405 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More