حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

زرومال وجواہرامیرِشام رکھتاہے توکیا
علم وحکمت کاخزانہ قبضہ حیدرؓمیں ہے
جگرگوشہ حیدروبتولؓ۔۔۔۔۔۔نواسہ رسولﷺ
شباب اہل جنت حضرت امام حسین ؓ
نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؓ کی ولادت باسعادت5 شعبان سن ۴ہجری میں ہوئی ۔حضرت ام الفضل بنت الحارث ؓبارگاہ نبوتﷺمیں حاضرہوتی ہیں اورعرض کرتی ہیں ۔یارسول اﷲﷺ!میں نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھاہے سرکارمدینہ راحت قلب وسینہ ﷺنے فرمایااپناخواب بیان کرو۔آپؓ نے عرض کی یارسول اﷲﷺ!میں نے دیکھاہے کہ آپﷺ کے جسم اقدس کاایک ٹکڑاکاٹ کرمیری آغوش میں رکھاگیاہے توآپﷺنے ارشاد فرمایا(تونے اچھاخواب دیکھاہے انشاء اﷲ تعالیٰ میری بیٹی فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاکے ہاں ایک بیٹاتولدہوگا جوآپؓ کی آغوش میں آئے گا)۔چنانچہ اس واقعہ کے بعدجب ۴ھجری میں حضرت سیدناامام حسین ؓ تولدہوئے تواس وقت آپؓ کے بڑے بھائی حضرت سیدناامام حسنؓ جوکہ والدہ ماجدہ کادودھ پیتے توحضورنبی کریمﷺنے حضرت سیدناامام حسین ؓ کوحضرت ام ا لفضل ؓ کی گودمیں ڈال دیااوریوں حضرت ام الفضل ؓ نے آپؓ کودودھ پلایا۔حضرت ام ا لفضل ؓ کوحضرت سیدناامام حسین ؓ سے والہانہ محبت تھی اورآپؓ نے حضرت سیدناامام حسینؓ کی پرورش حقیقی ماں کی طرح کی اوراپناآرام وسکون آپؓ پرقربان کردیا۔ جب سرکارمدینہ ﷺکوآپؓ کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ تشریف لائے ۔ اورآپؓ کوگودمیں اٹھاکرپیارکیاپھرآپﷺنے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں تکبیر کہی پھراپنالعاب دہن منہ میں ڈالااوردعائے خیرفرمائی اورآپؓکانام مبارک ’’حسین ‘‘ رکھا ۔پھرساتویں روزآپؓ کاعقیقہ کیااوربال اترواکر ان کے وزن کے برابرچاندی خیرات کی ۔آپؓ کے نام رکھنے کی روایت یوں ہے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ جب امام حسنؓ پیداہوئے توان کانام حمزہ رکھااورجب امام حسینؓ پیداہوئے توان کانام ان کے چچاکے نام پرجعفر رکھا۔ (حضرت علی المرتضیؓ فرماتے ہیں )مجھے نبی کریمﷺنے بلاکرفرمایامجھے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کاحکم دیاگیاہے (حضرت علی ؓ فرماتے ہیں )میں نے عرض کیا ـ"اﷲ اوراس کا رسولﷺ بہترجانتے ہیں پس آپﷺنے ان کے نام حسنؓ وحسینؓ رکھے۔( مسنداحمدبن حنبل) حدیث مبارکہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضورﷺنے فرمایا"کہ مجھے حکم آیاہے کہ میں دونوں نام بدل دوں اس کامطلب یہ ہواکہ ولادت کے ساتھ ہی حضرت امام حسن ؓ وحضرت امام حسین ؓ کا معاملہ زمینی نہ رہانام تک بھی زمینی رکھنے کی اجازت نہ ہوئی بلکہ نام بھی آسمان سے بھیجے گئے حضرت امام حسینؓ کودنیاکے پیمانوں پرتولنے والوامام حسینؓ کانام بھی دنیاسے نہیں آیابلکہ آسمانوں سے بھیجاگیا۔حضرت عمران بن سلیمانؓ سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دونام ہیں جو کہ زمانہ جاہلیت میں کسی کے نام نہیں رکھے گئے تھے اﷲ تعالیٰ نے حسن اورحسین کے نام چھپارکھے تھے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے نواسوں کے نام حسنؓ اورحسین ؓ رکھے تھے۔پانچ سوسال کے پورے عرصہ میں کسی بچے کانام حسن وحسین نہیں رکھاگیا۔نبی کریمﷺکی محبت کی خاطراﷲ پاک کویہ گوارانہیں ہواجومصطفیﷺ کے محبوب ہونے والے ہیں ان کانام بھی کسی اورکارکھاگیاہو۔ آپؓ سب سے زیادہ نبی کریمﷺکے مشابہ تھے ۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن ؓ سینہ سے سرتک حضورﷺکی کامل شبیہہ ہیں اورامام عالی مقام حضرت امام حسینؓسینہ سے نیچے پاؤں تک حضورﷺکی کامل شبیہہ ہیں"۔ّ(جامع ترمذی)آپؓ کانام مبارک’’حسینؓ ‘‘کنیت ابوعبداﷲ اورالقابات سبط الرسول ،ریحانۃ الرسول ہیں ۔آپؓ کاسلسلہ نسب والدکی جانب سے حسب ذیل ہے ۔حضرت سیدناامام حسین ؓ ،بن امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ بن حضرت ابوطالب بن حضرت عبدالمطلب ہے ۔حضرت عبدالمطب پرآپؓ کاسلسلہ نسب حضورنبی کریم ﷺسے جاملتاہے جوکہ حضورنبی کریمﷺکے داداتھے ۔حضرت سیدناامام حسین ؓ ،شہزادی رسول ﷺخاتونِ جنت،طیبہ ،طاہرہ،عابدہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاکے صاحبزادے تھے اورعادات واطوارمیں حضورنبی کریمﷺکی سیرت کابہترین نمونہ تھے ۔

حلیہ مبارک
سیرت نگاروں نے آپ ؓکاحلیہ مبارک یوں تحریرفرمایاہے " میانہ قدنہ بہت لمبے نہ بہت چھوٹے ،گھنی داڑھی،چوڑی پیشانی ،شانے بڑے بڑے ہڈیاں موٹی ،ہاتھ مضبوط قدم وسیع ،بال گھنگریالے ،بدن چست وتوانارنگ بہت سفیدسرخی مائل،اورآوازبلندوبارعب جب آپؓ گفتگوفرماتے توآوازمترنم ہوجاتی"۔

بچپن مبارک وتعلیم وتربیت ؓ
سیدناحضرت امام حسین ؓ کواﷲ رب العزت نے بہت زیادہ حسن دیاتھاجس کی دنیامیں مثال نہیں ملتی۔آپؓ کابچپن رسالت مآبﷺ،سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ کی عظیم اورپاکیزہ گودمیں گزرا۔آپؓ سات سال،سات ماہ اورسات دن تک حضورﷺکے سایہ شفقت میں رہے اس تربیت نے آپؓ کے علم وفضل شجاعت وسخاوت تقویٰ وطہارت اورزہدوورع کی مکمل تصویربنادیاآپؓ نے آنکھیں کھولیں تورسول خداﷺکی نمازیں علی المرتضیٰ شیرخداؓ کے سجدے اورسیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاکی قرآن پاک کی تلاوتیں سامنے تھیں۔آپؓ نے ساری زندگی اسی ذوق میں گذاری اسی وجہ سے آپؓ نے ظالم کے سامنے سرنہ جھکایابلکہ خالق کائنات کی بارگاہ میں اپنے سرکانذرانہ پیش کیا۔آپ ؓ کی تربیت کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ زکوٰۃ کی کھجوروں کاٹوکرآقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرکیاگیاتھاحضرت امام حسینؓ کابچپن تھاایک کھجور منہ میں رکھ لی آقاﷺنے فوراََانگلی ڈال کرکھجورنکال دی اورفرمایاکَخْ کَخْ چھی چھی( یعنی نہ کھا)کیونکہ زکوٰۃ کامال سادات کرام پرحرام ہے۔ایک دفعہ آپؓ کے ہاں چندمعززمہمانوں کی دعوت تھی ایک غلام نے کھانے کاقیمتی برتن لاپرواہی میں توڑڈالا آپؓنے اس کی طرف غصہ سے دیکھاوہ غلام قرآن کریم کاعالم تھااس نے آپؓ کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی ،وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ مومن غصہ کوپی جانے والے ہیں یہ سن کرآپؓ نے فرمایاکَظَمْتُ غَیْظِیْ میں نے غصہ کوپی لیاپھراس غلام نے آیت کریمہ کااگلاحصہ تلاوت کیا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ اورلوگوں کومعاف کرنے والے آپؓ نے فرمایاعَفَوْتُ عَنْکَ میں نے تجھے معاف کردیاغلام نے اس سے آگے آیت کریمہ کااگلاحصہ تلاوت کیاوَاللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اوراﷲ پاک احسان کرنے والوں کوپسندکرتاہے آپؓ نے فرمایا میں نے تجھے اﷲ پاک کے لئے آزادکیا۔حضرت زیدبن ابی زیادؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسینؓ کے رونے کی آوازسنی توآپﷺنے فرمایا!بیٹی اسکورونے نہ دیاکروکیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔(نورالابصار)

سخاوت
سخاوت جوصفات انبیاء علیہم السلام میں سے ہے آپؓ کوبارگاہ نبوتﷺسے خصوصی طورپرعطاہوئی تھی حضرت زینب بن ابی رافع سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺکے مرض وفات میں سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراؓ اپنے دونوں بیٹوں کولے کربارگاہ نبویﷺمیں حاضرہوئیں اورعرض کی یہ آپ کے دونوں بیٹے ہیں انہیں کوئی چیزعنایت فرمائیں آپﷺنے فرمایاحضرت امام حسنؓ کے حصہ میں میری ہیبت اورسرداری ہے ۔ حضرت امام حسین ؓ کے لئے میری جراء ت اورسخاوت ہے یہی وجہ تھی کہ آپؓ نے کائنات میں سخاوت کی وہ عظیم الشان مثال پیش کی جس نے سب کوحیرت میں ڈال دیا۔جب حضرت اسامہؓ کی رحلت کاوقت آیاتووہ بڑے پریشان تھے آپؓ تشریف لے گئے اورپریشانی کاسبب پوچھاانہوں نے عرض کی میں ساٹھ ہزارکامقروض ہوں اورموت کاوقت قریب ہے آپؓ نے فرمایاآپ ؓ کاقرض میں اداکروں گاانہوں نے عرض کی میں چاہتاہوں کہ موت سے پہلے میراقرض اداہوجائے آپؓ نے اسی وقت حضرت اسامہؓ کاقرض ادا کردیا۔حضرت انس بن مالکؓکہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت امام حسینؓکی خدمت اقدس میں حاضرتھااتنے میں ایک کنیزآئی اوراس نے تبسم کے ساتھ ایک پھول حضرت امام حسینؓ کی خدمت اقدس میں پیش کیاآپ ؓ نے وہ پھول لیااسے سونگھااورارشادفرمایاجامیں نے تجھے اﷲ پاک کے نام پرآزادکیاہے ۔حضرت انسؓ نے عرض کیاآپ ؓ نے ایک معمولی پھول کے عوض اس کنیزکوآزادکردیاآپؓ نے فرمایااے انسؓ اﷲ پاک کاقانون یہی ہے کہ اگرکوئی تمہیں تحفہ دے توتم اسے بہترتحفہ دواوراس کنیزکے لئے آزادی سے بڑھ کرکوئی تحفہ نہیں تھامیں نے اس لئے اسے آزادکردیا۔ایک مرتبہ آپؓ کاگزرایک ایسے مقام سے ہواجہاں پرکچھ غریب لوگ کھاناکھارہے تھے ان لوگوں کی نظرآپؓ پرپڑھی تواٹھ کرسلام کیااورانہوں نے آپ ؓ کوکھاناکھانے کی دعوت دی آپؓ ان کے درمیان بیٹھ گئے اورارشاد فرمایا اگریہ صدقہ نہ ہوتاتومیں ضرورتمہارے ساتھ کھاتاچنانچہ آپؓ نے ان تما م کواپنے ساتھ اپنے گھرلائے خوب کھلایاپلایالباس عطاکیااور انہیں درہم دینے کاحکم دیا۔حضرت امام زین العابدینؓ سے منقول ہے کہ میرے والدبزرگوارحضرت سیدناامام حسینؓ بزرگوں، بیواؤں ،یتیموں اورمساکین مدینہ کے گھروں میں کھانے پینے کاسامان خودلے جایاکرتے اوران کے کام کاج کی مشقت برداشت کرتے تھے یہاں تک کہ آپؓ کی پیٹھ پرنشانات پڑجاتے تھے ۔حقیقت میں اگرزاہدواتقاء و پرہیزگاری ،عبادت وریاضت صبروشکرتسلیم ورضاوخشیت الٰہی جیسی اعلیٰ صفات مجسم کی جائیں توحضرت امام حسین ؓ کی ذات پاک کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں-

عبادت
آپ ؓ بہت متقی پرہیزگاراورذوق عبادت کے مالک تھے کیوں نہ ہوجس کی والدہ سیدۃ النساء سیدہ کائنات اورخاتون جنت ہوں اوروالد گرامی علی المرتضیٰ شیرخداؓ ہوں ۔ ناناخاتم النبین رحمت العالمین حضرت محمدمصطفیﷺ ہوں مستندروایات اورکتب میں درج ہے علامہ جزری لکھتے ہیں ـ"کہ سیدنا حضرت امام حسین ؓ بکثرت نمازیں پڑھنے والے روزے رکھنے والے حج کرنے والے،صدقہ دینے والے اورنیکی کے کاموں میں بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے ۔آپؓ نے تقریباََ25حج پیدل کئے اسکے علاوہ ساری رات قیام اورسال کے اکثرایام میں روزہ رکھناآپؓ کی مبارک زندگی کامعمول رہانبی کریم ﷺحضرت امام حسین ؓ سے بہت پیارکرتے تھے۔آپؓ ہرروزایک ہزاررکعت نمازنفل اداکرتے آپؓ کی زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیرتھی ۔آپؓ قرآن پاک کی تلاوت دن رات کرتے تھے ایک دفعہ سیدنا حضرت امام حسنؓ اورسیدناحضرت امام حسین ؓ پیدل حج کے لئے جارہے تھے آپؓ کے ساتھ حاجیوں کی ایک اورجماعت شامل ہوگئی لوگوں نے جب آپؓ کوپیدل چلتے ہوئے دیکھاتواحتراماََوہ لوگ بھی اپنی سواریوں سے اترکرآپؓ کے ساتھ پیدل چلنے لگے ۔کچھ دورتک تووہ لوگ پیدل چلے مگرکچھ دورتک چل کرتھکن سے نڈھال ہوگئے اورپیدل چلنے میں مشکلات پیش آنے لگیں ان میں سے چندلوگ اس قافلے میں شامل بزرگ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کے پاس گئے اورعرض کرنے لگے اب ہمارے لئے پیدل چلنادشوراہورہاہے لہذا!آپ حسنین کریمینؓ سے درخواست کریں کہ وہ سواری پرسوارہوجائیں ۔یہ سن کرحضرت امام حسینؓ نے ارشادفرمایا۔یہ توممکن نہیں کہ ہم سوارہوجائیں کیونکہ ہم نے اپنے اوپریہی فرض قراردیاہے لیکن لوگوں کوتکلیف دینابھی گوارہ نہیں لہذاہم یہ راستہ چھوڑدیتے ہیں اوردوسراراستہ اختیارکرلیتے ہیں ۔ روایات میں آتاہے کہ آپؓ کوبہت زیادہ لوگوں نے دیکھاتھاکہ جب آپؓ نمازاداکرتے توآپؓ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے آپ ؓکی عبادت میں بڑاخشوع خضوع تھا۔

جنت کی زینت سیدناامام حسن ؓ وامام حسین رضی اﷲ تعالی عنہما
مصطفیﷺخداکی چاہت اورحسینؓ مصطفیٰ ﷺکی چاہت جوحسین ؓ کوتکلیف دے وہ مسلمان کیسے رہ سکتاہے حسن وحسین جنت کے دوستون ہیں حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمﷺنے فرمایاحسن اورحسین عرش کے دوستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیں اورآپ ﷺ نے ارشادفرمایاجب اہل جنت جنت میں مقیم ہوجائیں گے توجنت عرض کرے گی اے پروردگارتونے مجھے اپنے ستونوں میں سے دوستونوں سے مزین کرنے کاوعدہ فرمایاتھااﷲ تعالیٰ فرمائے گاکیامیں نے تجھے حسن اورحسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کردیا(یہی تومیرے دوستون ہیں) (طبرانی ،المعجم الاوسط) ایک اورحدیث پاک میں آتاہے حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایاایک مرتبہ جنت نے دوزخ پرفخرکیا اورکہامیں تم سے بہترہوں دوزخ نے کہامیں تم سے بہترہوں جنت نے دوزخ سے پوچھا کس وجہ سے ؟دوزخ نے کہا اس لیے کہ میرے اندر بڑے بڑے جابرحکمران فرعون اورنمرودہیں اس پرجنت خاموش ہوگئی اﷲ پاک نے جنت کی طرف وحی کی اورفرمایاتوعاجز ولاجواب نہ ہومیں تیرے دو ستونوں کوحسن اورحسین کے ذریعے مزین کروں گاپس جنت خوشی اورسرورسے ایسے شرماگئی جیسے دلہن شرماتی ہے۔ (طبرانی المعجم الاوسط)جنت حسن اورحسین کے نام پرفخرکرتی ہے اوردوزخ کومخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے دوزخ حسن اورحسین میرے پا س ہیں اس لئے میں بہترہوں۔

آقاﷺکی بارگاہ میں حسنین کریمین کامقام محبوبیت
حضرت یعلیٰ بن مرُّہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا" حسینؓ مجھ سے ہے اورمیں حسینؓ سے ہوں جوحسینؓ کومحبوب رکھتاہے وہ اﷲ کومحبوب رکھتاہے حسینؓ فرزندوں میں سے ایک فرزندہے۔(ترمذی،مشکوٰۃ)حضرت جابربن عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی کریمﷺکوفرماتے ہوئے سناہے کہ جوجنتیوں کے سردارکودیکھناچاہے وہ حسین ابن علیؓ کودیکھ لے ۔حضرت سعدبن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں آقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوااس وقت سیدناحضرت امام حسنؓ سیدناحضرت وامام حسینؓ آپﷺکی پشت مبارک پرکھیل رہے تھے "میں نے عرض کیایارسول اﷲﷺکیاآپ ان دونوں سے بہت محبت ر کھتے ہیں فرمایاکیوں نہ محبت رکھوں جبکہ یہ دونوں دنیامیں میرے پھول ہیں۔(کنزالعمال)حضرت زیدبن ابی زیادؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسینؓ کے رونے کی آوازسنی توآپﷺنے فرمایا!بیٹی اسکورونے نہ دیاکروکیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسکے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔(نورالابصار)حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺسے سناکہ آپﷺ فرماتے تھے کہ سیدناحضرت امام حسنؓ و سیدناحضرت امام حسینؓ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں کومحبوب رکھااس نے مجھ کومحبوب رکھا اورجس نے مجھ کومحبوب رکھااس نے اﷲ پاک کومحبوب رکھا اورجس نے اﷲ پاک کومحبوب رکھااﷲ پاک نے اس کوجنت میں داخل کیااور جس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھااور جس نے مجھ سے بغض رکھااس نے اﷲ پاک سے بغض رکھااورجس نے اﷲ پاک سے بغض رکھااﷲ پاک نے اسکودوزخ میں داخل کیا۔حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں آقاﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپ نے حضرت امام حسنؓ وحضرت امام حسینؓ کواپنی پشت پربٹھایاہوا تھااورآپ دونوں ہاتھوں دونوں گھٹنوں پرچل رہے تھے تومیں نے کہا(اے شہزادو) تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟توآپﷺنے فرمایاسوار بھی بہت اچھے ہیں۔(کنزالعمال،البدایہ والنہایہ)حضرت حذیفہ الیمان ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک دن حضورﷺکوبہت مسرور دیکھاتوعرض کیا۔یارسول اﷲﷺ!آج ہم آپ کوبہت مسرور و خوش دیکھتے ہیں رحمت دو عالم نورِمجسم شفیع معظم ﷺنے فرمایا"میں کیوں نہ خوش ہوں جبکہ جبریل امینؑ میرے پاس آئے ہیں اورانہوں نے مجھے بشارت دی ہے کہ بلاشبہ حضرت امام حسنؓامام حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اوران کاباپ ان سے بھی افضل ہے ۔(کنزالعمال)حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسے پوچھاگیا"آپ کے اہل بیت میں سے کون آپ کوزیادہ محبوب ہے؟آپﷺنے فرمایاسیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسینؓ اورآپ ﷺحضرت فاطمۃ الزہراسے فرماتے میرے دونوں بیٹوں کوبلاؤتوآپ ﷺدونوں کوسونگھتے اوراپنے سینہ مبارک سے چمٹالیتے ۔حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے کہاکہ میں مغرب کی نمازآقاﷺکے ساتھ پڑھوں گااپنے اورتمہارے لئے بخشش کاسوال کرونگا۔آپؓ فرماتے ہیں کہ پس میں نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوااورآپﷺکے ساتھ مغرب کی نمازپڑھی۔ یہاں تک کہ عشاء کی نمازبھی پڑھی پھرآپﷺمسجدسے نکلے میں بھی آپﷺکے پیچھے چل پڑاآپﷺنے میرے چلنے کی آوازسنی توآپﷺنے فرمایاکیاتوحذیفہ ؓ ہے؟میں نے عرض کیاجی ہاں یارسول اﷲﷺآپﷺ نے فرمایاتجھے کیاحاجت ہے ؟اﷲ پاک تجھ کواورتیری والدہ کوبخشے (پھر)فرمایایہ ایک فرشتہ ہے جواس رات سے پہلے کبھی زمین پرنازل نہیں ہوااس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اورمجھے یہ بشارت دینے کے لئے اجازت مانگی ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاجنت کی عورتوں کی سردارہے اورسیدناحضرت امام حسنؓ وسیدناحضرت امام حسین ؓ جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔(ترمذی )

فرمان رسول ﷺمیرے ماں باپ حسنین پرقربان
حضرت زربن حیش ؓ روایت کرتے ہیں کہ"ہم نے ایک روزدیکھاسجدے میں شہزادے آپﷺکے کندھوں پرچڑھ جاتے ہیں۔۔پھرآپ ﷺکی پشت مبارک سے اترآتے ہیں ۔۔۔۔ساری نمازمیں یہی کیفیت رہی ۔۔۔۔کچھ لوگ جنہیں معلوم نہ تھاکہ شہزادے حضورﷺکے کندھوں پر روزانہ چڑھتے ہیں انہوں نے اشاروں سے شہزادوں کوروکناچاہاحضورﷺنے فرمایامیری نمازکے دوران میرے سجدوں میں حسن ؓوحسینؓ کندھوں پرچڑھیں یامیری گودمیں بیٹھیں انہیں کوئی منع نہ کرے دعوھمابابی وامیانہیں چھوڑدو (یعنی سوارہونے دو)میرے ماں باپ ان پرقربان ہوں (بیہقی ،السنن الکبریٰ )حضرت عبداﷲ بن عمرؓ ،حضرت عمرفاروق ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ خداکی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے ہم نے اپنے کانوں سے سناکہ حضورﷺسیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاسے مخاطب تھے وہ نبی جسے ہرکوئی حضورﷺمیرے ماں باپ آپﷺ پرقربان ہوں کہہ کرپکارتاہے خداکی قسم ہم نے سناحضورﷺنے سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاسے بات کی توفرمایا"میری فاطمہ میرے ماں باپ تجھ پرقربان ـ"۔اورآج فرمارہے ہیں حسن وحسین میرے ماں باپ تجھ پرقربان ۔آقاﷺاﷲ پاک کے پیغمبرہیں نمازمیں آئیں توشہزادوں کوکندھوں پربٹھالیں خداجانے اس محبت کاعالم کیاہے جن کے قد م چومنے کوعرش ترستاہے ،جن کااستقبال اﷲ پاک قاب قوسین پروہ مصطفےٰﷺ باہرسے نکلتے ہیں توحسن وحسینؓ حضورﷺکے کندھوں پرسوارہوتے ہیں ۔حضرت عمربن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن وحضرت امام حسین علیہ السلام کوحضورﷺکے کندھوں پرسواردیکھا توحسرت بھرے لہجے میں کہاکہ آپ کے نیچے کتنی اچھی سواری ہے آپﷺنے ارشادفرمایاذرایہ بھی تودیکھوکہ سوارکتنے اچھے ہیں ۔اﷲ پاک اپنی رحمت کے صدقے ،نبی رحمتﷺورنواسۂ رسولﷺکے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین

فرمودات
بے شک اﷲ پاک تکبرکرنے والوں کوہرگزپسندنہیں کرتا۔
تمہارے لئے سب سے زیادہ رفیق ومہربان تمہارادین ہے ۔
اپنے گریبانوں میں جھانکواوراپنامحاسبہ خودکرو۔
جب تمہیں کوئی تحفہ پیش کیاجائے توتم اس سے بہترتحفہ جواباًدیاکرو۔
بندے کی نجات دین کی پیروی میں ہے اورہلاکت دین کی مخالفت میں ہے ۔
عام لوگ دنیادارہوتے ہیں اوروہ دین میں ظاہری طورپراس وقت تک رہتے ہیں جب تک ان کی مالی حالت بہتررہتی ہے اورجب ان پرکسی قسم کی آزمائش آتی ہے توپھردیندارلوگ کم ہی ہوتے ہیں ۔
مال کاسب سے بڑامصرف یہی ہے کہ اس سے کسی کی عزت آبرومحفوظ ہوجائے ۔
صاحب عقل وخردوہی شخص ہے جومہربان کے حکم کی پیروی کرے اوراسکی شفقت کوملحوظ خاطررکھے ۔
اگرتم اﷲ پاک سے ڈرواورحقدارکے حق کوپہچانوتوتمہیں یقینا اﷲ عزوجل کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 274675 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.