25 نومبرکوعورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

25 نومبرکوعورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے جس کا اختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہوتا ہے۔یہ مہم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورتوں پر تشدد انسانی حقوق کی عام خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔ ا س سال کا موضوع ’’عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون کا استعمال‘‘ ہے۔حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے ایوانوں نے عورتوں اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے قانون سازی کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن یعنی 25 نومبر کو اس مسئلے کی اہمیت کو اْجاگر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ 25 نومبر 1960ء کو ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کی صورتحال تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ عموماًہر جگہ ایک جیسی ہی ہے قانون سازی کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف اس افسوسناک جرم میں کسی واضح کمی یا خاتمے کا رجحان دیکھنے میں نہیں آیا۔یہ صورتحال ایک جمودکی عکاسی کرتی ہے۔ نہ تو ریاست عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کچھ کر رہی ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اس غیر مہذب رویے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد خواتین پر جنسی حملوں میں لگ بھگ پچاس فیصد، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں تقریباً اڑتیس فیصد، غیرت کے نام پر قتل میں ستائیس فیصد اور گھریلو تشدد کے واقعات میں ساڑھے پچیس فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل، تیزاب سے حملوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے حالیہ برسوں میں نئی قانون سازی بھی ہوئی ہے۔ خواتین پر تشدد اور ان سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے نومبر دو ہزار گیارہ سے فروری دو ہزار بارہ کے دوران پانچ قوانین پاس ہوئے ہیں اور ان کے لاگو ہونے کے بعد ان کے اثر کا پتہ چل سکے گا۔ پاکستان کے پرتشدد حالات کا اثر بھی اس کے عوام پر پڑ رہا ہے اور ایسے حالات میں مظلوم طبقات تشدد کا شکار ہوتے ہی ہیں اور خواتین بھی ان میں شامل ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموں کے اعدادو شمار اور رپورٹس کے مطابق حالات میں بہتری کے لیے ریاست کو زیادہ پرعزم ہونے کی ضرورت ہے اور جب تک گورننس کا کمزور نظام بہتر نہیں ہوتا ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہر ملک میں عورتیں اور بچیاں مختلف طرح کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میں، لڑائیوں میں اور زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو اور جنسی تشدد ہے۔ اس کے علاوہ لڑکوں کو ترجیح دینے کی وجہ سے لڑکی ہونے کی صورت میں اسقاطِ حمل، نوعمری کی شادیاں، کاروکاری اور عورتوں کو قتل کرنے کے دوسرے طریقے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس تشدد کی وجہ سے عورتیں اور بچیاں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتیں۔ تشدد عورتوں کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹے دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں جب کہ بنگلہ دیش بھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے،جبکہ ہندوستان میں جہیز نہ لانے والی خواتین کو جلا دینا کو ئی قابلِ توجہ معاملہ نہیں سمجھا جاتا اور والدین بھی ایسی لڑکی جس کو جہیز نہ دیا گیا ہو اس کے قتل کی رپورٹ تک نہیں کرواتے کہ جہیز جو نہیں دیا تھا یہ تو ہونا ہی تھا۔ ا یک نجی تنظیم کے 2013ء کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان عورتوں کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ ہر سال ایک ہزار سے زیادہ عورتیں اور لڑکیاں کاروکاری کا نشانہ بنتی ہیں اور 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔جبکہ گزشتہ سال ملالہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے لڑکیوں کی تعلیم کو بین الاقوامی مہم میں تبدیل کردیا ہے۔ ایک عام خیال کیا جاتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کے ذریعے عورتوں پر تشدد کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ عورتوں کے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر سلامتی کا حق اور تشدد سے پاک زندگی گزارنے کا حق، کے احترام کے لیے مضبوط قوانین بنانا، ان پر عمل درآمد کرانا اور عورتوں کی حفاظت اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے خدمات فراہم کرنا بھی قانون ساز اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ کو موجودہ قوانین کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کرنا چاہیے۔کسی بھی جمہوری ملک میں کوئی قانون اسی وقت کامیاب قرار پائے گا جب اسے صحیح طور پر نافذ بھی کیا جائے۔ اسمبلیوں کے ارکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پولیس، پراسیکیوٹرز، ججز، صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والوں، سوشل ورکرز اور مذہبی رہنماؤں وغیرہ کو بھی اس عمل میں شامل کرسکتے ہیں، کسی بھی قانون کے کامیاب نفاذ کے لیے معاشرے میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں قانون بنایا گیا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اگر سول سوسائٹی اور میڈیا بھی اس مسئلے کے بارے میں ہمدردانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257236 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More