سدا ناؤ کاغذ کی چلتی نہیں۔۔۔۔!

مہنگائی پر بہت لکھاریوں کی قلم خشک ہوچکی ہے مگر پھر بھی اس وائرس کا علاج کہیں نہیں ہوسکا،صاحب ثروت بھی مہنگائی کے طوفان میں لڑکھڑاتے دکھائی دے رہے ہیں،ماضی قریب میں ایک سو روپے کا نوٹ دن بھر ختم نہیں ہوتا تھا مگر آج ایک ہزار کی وقت و حیثیت نہیں رہی،ایک محتاط جائیزہ کے مطابق ایک گھرانے کا اوسطاً بجٹ پچیس ہزار روپے ماہانہ سے عبور کر چکا ہے،بلاشبہ مہنگائی کے پس پردہ زمینی حقائق دہشتگردی سے منسوب کئے جاتے ہیں مگر اس کے ذمہ دار ہمارے منصوبہ ساز ہیں جن کی معمولی لغزش سے ’’ مصنوعی ‘‘مہنگائی نے پورے سماج کو جھنجٹ میں ڈال دیا ہے۔جس رفتار سے مہنگائی نے جھکولے دینا شروع کئے ہیں اس سے اندازہ ہو رہاہے کہ اگلے چھ ماہ تک زندگی کا پہیہ جام ہوجانے سے ’’نہ درد رہے گا نہ بیماری‘‘۔مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری نے طاقت آزمائی شروع کر رکھی ہے جس سے معاشرتی عدم توازن بڑھنا خطرے سے خالی نہیں،یہ اگر صورتحال برقرار رہتی ہے تو پھر طبابت ممکن نہیں ہو سکے گی۔

نیپرا نے حسب روایت بجلی کے نرخوں میں اضافے کی منظوری دیتے ہوئے ’’جلتی پر تیل‘‘کی ماند عذر پیش کیا کہ ماہ اکتوبر میں بجلی کی پیداواری لاگت بڑھنے سے اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔یکم دسمبر تک اوگرا کا میدان میں اترنا متوقع ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ’’رن‘‘کاپنے کی توقع ہے۔ہماری سحر طراز افسر شاہی بھی ’’باکمال لوگ اور بے مثال سروس‘‘کی مثل عوام کو جلد منزل مراد تک پہنچانے میں سبک رفتار ہے۔انہیں خبر نہیں کہ ’’سدا ناؤ کاغذ کی چلتی نہیں‘‘پھر بھی سر دربار اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی کا ایسے حالات کی مناسبت سے ان کا قول درست ثابت ہوتا ہے کہ’’جب کسی قوم کے کمانے والے طبقوں کی کمائی پر نہ کمانے والے طبقے قبضہ کرلیں تو یہ حالت انقلاب کی پیش خیمہ ہوتی ہے‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ تیس ارب روپے کی ’’معمولی ‘‘رقم لگانے کے بعد تھرکول بجلی منصوبہ روک دیا گیا ہے۔تیس ارب روپے کہاں،کیوں اور کس لئے لگائے گے ،اس سوال و جواب کی طاقت شاقہ نہیں ،ہم کون ہیں کہ یہ جرات جرح کریں یہ نصیب کمال چیف جسٹس کو حاصل ہے وہی پوچھ سکتے ہیں۔

عوام ایسی مخلوق بن چکے ہیں کہ’’تُو بھی رانی میں بھی رانی،کون بھرے پن گھٹ پر پانی‘‘کی مثل انہیں نان شبینہ کی تلاش میں یاد ہی نہیں پڑتا کہ ان پر جو افتاد آن پڑی ہے اس کے سزاوار کون ہیں۔۔؟؟ْ جان کی امان۔۔!!عیاش پرستی،تن پرستی،جاہ پرستی پر حسد نہیں مگر یہ جو ایک ایک کی چار چار لگا رہے ہیں اس پر’’ تنگ آمد بجنگ آمد‘‘جیسی فضاء کہاں تک قابل قبول ہو سکتی ہے۔عوام ایک طرف دہشتگردوں کی لپیٹ میں ہیں تو دوسری جانب ’’اتنگ وادی‘‘گلے پڑے ہیں۔

میاں نواز شریف صورت مسیحا نظر آئے مگر ابھی تک انہوں نے’’ دارو ‘‘نہیں پلا سکا۔لیکن ابھی بھی وقت ہاتھ سے گیا نہیں اگر انہیں احساس ہو جائے کہ ان کی رعایا پر کون نا دیدہ تنتر منتر کرکے انہیں مشکلات میں ڈال رہے ہیں تو امید ہے کہ کوئی’’محفوظ‘‘راستہ نکل آئے۔عوام کو کوئی غرض نہیں کہ جنرل(ر)پرویز مشرف کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے نہ ہی نیٹو سپلائی چلنا بند ہونا مسئلہ ہے بلکہ عوام اپنی زندگی کی خیر چاہتے ہیں۔طبقاتی نظام تعلیم نے جو تفریق پیدا کی ہے اس کے نتیجہ میں جہالت نے ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔چائڈ لیبر میں خوفناک اضافہ ،نوجوانوں میں مایوسی سے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو کمک ملنا پریشان کن صورتحال ظاہر کر رہی ہے۔عدم تحفظ کی اس فضاء کا توڑ کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔۔؟؟؟
ایسی صورتحال میں جب عدلیہ کے سربراہ یہ کہتے ہیں کہ ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے تو پھر کیوں خاموشی طاری ہے۔اقتدار سے پہلے کیا وعدے کئے گے اور اب کیا ہونے جا رہا ہے۔اصلاح احوال کون کرئے گا۔۔۔؟؟؟

بیماری کا علاج ترجیج ہونا چاہئے نہ کہ بیمار کا خاتمہ، اداروں کی نجکاری مسئلے کا حل نہیں،گدھے کا تھڑا بدلنے سے گدھا نہیں بدلتا،اداروں میں کام چور،حرام خور،آدم خور عناصرسے جب تک نجات نہیں ملتی تب تک نظام ہرگز نہیں بدلے گا۔ایسے عناصر کی نشاندھی بھی مشکل نہیں،اگر ’’بُرا‘‘ نہ سمجھیں تو اس وقت دو ایسے ادارے ہمارے ملک میں قدرے درست سمت پر چل رہے ہیں جن کا عوام کو براہ راست استفادہ حاصل ہے جن میں موٹر وے،کیپیٹل،سٹی ٹریفک پولیس اور ۱۱۲۲ریسکیومثالی ادارے ہیں۔ ان کا نظام قابل تقلید کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔اسی طرح دیگر اداروں کی تنظیم نو کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حالات سے نکلنے میں کامیابی ہمارا مقدر بن جائے۔ خرابی کی جڑ کو اکھیڑنا ہو گا۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ’’مفت خوروں‘‘ سے نجات کا راستہ تلاش کرکے عوام کو سکھی کیا جائے۔اگر عوام کو یونہی دلدل میں رکھا گیا تو پھرمسائل قابو سے باہر نکل جائیں گے۔سانحہ راولپنڈی کو دیکھ لیں،پولیس کہاں کھڑی رہی۔۔۔؟؟ْبلکہ پولیس آفیسر نے جس بے باکی سے سانحہ میں پولیس کی نااہلی کا ذکر کیا اس سے ہمارے اداروں کے مزاج کی آگاہی کافی ہے۔یہ حال صرف پولیس کا نہیں بلکہ جو ادارے منافع بخش ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں ان کی حالت بھی قابل افسوس اور باعث تشویش و عبرت ہے۔ہمارے وطن عزیز میں با صلاحیت اور دیانت دار افراد کی کمی نہیں مگر مسلط شدہ طبقہ کب اہل افراد کو آگے لانے کے حق میں ہے۔اس شجرہ ممنوعہ کو جانچنے کے لئے تیز آنکھ ،زندہ دماغ اور سبک رفتار جراتمند قیادت کی ضرورت ہے جسے میاں نواز شریف کی شکل میں دیکھا جارہاہے ۔اب اس عوام کی سادہ دلی پر کیسے رحم کھایا جاتا ہے اس کا اندازہ جلد سامنے آ جائے گا۔اختتام شاعر کی زبانی ملاحظہ ہو۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.