انتخابات یا آلہ واردات

جمہوری طرزِ حکومت کی سب سے اہم خوبی عام انتخابات ہیں ۔ عوام ووٹ کے ذریعے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو اسمبلیوں میں عوام کی فلاح وبہود کے لیے قوانین بناتے ہیں، ریاست کا نظم و نسق قائم کرتے ہیں اور دیگر امورِسلطنت کو سرانجام دیتے ہیں۔ـ پاکستان کی موجودہ جمہوریت میں عوام ووٹ ڈال کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے منتخب نمائندے سپیکر، وزیرِ اعظم اور صدر مملکت کو انتخاب کرتے ہیں ۔ وزیرِاعظم اپنی کابینہ بناتا ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب نمائندے اپنے سپیکروں ، وزراء اعلیٰ کا انتخاب کرتے ہیں اور وزراء اعلیٰ اپنی اپنی کابینہ تشکیل دیتے ہیں۔ ملک میں قومی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو تی ہیں جو ریاست کا مکمل نظم ونسق قائم رہتی ہیں اور کاروبار حکومت چلاتی ہیں۔

میں نے ملکی حالات کے طویل مشاہدے ، سنجیدہ غورو خوض اور غیر جانبدارنہ تجزیہ کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر انتخابات افادیت کے لحاظ سے " عَصَائے مسیحائی" ہیں اور " آلہء واردات" بھی۔ اگرانتخابات کے نتیجے میں ایسے امیدوار منتخب ہوکراسمبلیوں اور ریاست کی طاقت کے ایوانوں میں پہنچ جائیں جو قابل،فرض شناس، ایماندار،قوم پرست، حبّ الوطن ہوں توانتخابات قوم کے " عَصَائے مسیحائی" ہیں۔کیونکہ ایسے نمائندے ملک کو سماجی طور پر مہذب، اقتصادی لحاظ سے خوش حال، سیاسی معاملات میں مستحکم اور بین الاقوامی طور پر خود مختار بنا دیتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس اگرانتخابات میں ایسے امیدوارجیت کر اسمبلیوں میں آ جائیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں جو نااہل، بد دیانت، ذات وکنبہ پرست، عوام دشمن، فرض نا شناس اور وطن فروش ہوں تو قوم کے لیے انتخابات " آلہء واردات" ہیں۔کیونکہ وُہ ملک کو ایک مہذب، فلاحی ،خوش حال، مستحکم اور خود مختار ملک بنانے کے قابل اور اہل نہیں ہوتے ۔ وُہ ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو عوام اور ملک کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں؛ عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کرنے والے محققین اور مبصرین کے مطابق پاکستان کے 90 فی صد سیاسی میدان پر کم وبیش 500 خاندانوں کا قبضہ ہے۔ یہ خاندان بااثر جاگیر دار وں ، سرمایہ داروں،وڈیروں ، مذہبی پیشواؤں، سرداروں، نوابوں وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ان خاندانوں کے تقریباََ3000 افراد نے 50 سالوں سے نہایت غورو خوض، مشاورت اور تجربات کی روشنی میں نہایت کامیاب منصوبہ بندی اختیار کر رکھی ہے اور آئین اور الیکشن کمیشن کو مفلوج کر کے انتخابات کا ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے جس میں اُن کے علاوہ کوئی شخص چاہے وُہ کتنا ہی اہل، قابل ، تعلیم یافتہ، قوم پرست اورحب الوطن ہو،الیکشن میں کامیاب ہونا تو دُور کی بات ہے، انتخابات میں کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ چنانچہ ان خاندانوں کے افرادانتخابات میں منتخب ہو کرصوبائی اسمبلیوں اورقومی اسمبلی کے ممبران بن جاتے ہیں؛ ریاست کی طاقت کے ایوانوں پر قبضہ جماتے ہیں؛ صوبے یا وفاق کے مشیر، وزیر،وزیرِ اعلیٰ،وزیرِ اعظم و غیرہ منتخب ہوتے ہیں۔ اپنے عزیزو اقارب کو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات کرتے ہیں،اہم ترین سرکاری اداروں کے چیئر مین مقرر کرتے ہیں اور پسندیدہ بیورو کریٹس کو ہمنوا بنا لیتے ہے۔اور پھر اکثر ممبران اقتدار اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم عزائم پورا کرنے کے لیے کرپشن اور عوام دشمن حکمرانی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ وعدوں کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں، فرائضِ منصبی کوبھول جاتے ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ملک کے وسائل ، قومی خزانے ،غیر ملکی امداد اور قرضوں کو مال مفت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹے ہیں، وطن کے مفادات اور خود مختاری کوگروی رکھ دیتے ہیں،کچھ رقوم ملکی بینکوں میں اور باقی غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا دیتے ہیں۔ان ممبران کی عاقبت نا اندیش اور خود غرضانہ کاروائیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے آج ملک میں غربت، جہالت،ناخواندگی،بے روزگاری، مہنگائی ،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشتت گردی، قتل وغارت،اغوا برائے تا وان، سیاسی عدم استحکام، قرضوں کا بوجھ ، بین الاقوامی غلامی جیسے مسائل پیدا ہو چکے ہیں اورملک کی اخلاقیات ، اقتصادیات و سیاست اور مختاری کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

میری رائے میں ان خاندانوں کے افرادطاقت کے ایوانوں /اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہونے،اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہو نے، اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے،اربوں روپوں کی کرپشن ورشوت میں ملوث ہونے اور دوسرے عوام اور ملک دشمن جرائم کے ارتکاب کے قابل انتخابات کے ذریعے ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وُہ انتخابات کوبطور آلہ استعمال کر تے ہیں اور مذکورہ مقاصد پورے کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ جو انتخابات میں حصہ نہ لیں یا کامیاب نہیں ہو ں تو وُہ مذکورہ بالا اعمال و جرائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے ۔

الغرض !پچاس سالوں کے زمینی حقائق کے مشاہدے اور غیرجانبدارانہ تجزیے کی بناء پر میں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان میں انتخابات" عَصَائے مسیحائی" نہیں بلکہ ـ"آلہ ء واردات " ہیں جس کے ذریعے جھوٹی جمہوریت کے نام پرعوام سے سب بڑی دھندلی ، دھوکا دہی اور زیادتی کی جاتی ہے اور اُنہیں اسمبلیوں ،ریاست کی طاقت کے ایوانوں سے باہر رکھا جاتا ہے اور کلیدی عہدوں کے قریب نہیں آنے دیا جاتا۔ علاوہ ازیں میرے یقین کے مطابق وُہ تمام تکلیف دہ ،غربت اور بے بسی میں مبتلا کرنے والے مسائل جن کا ذکر کیا گیا ہے، کی شاخیں موجودہ غیر منصفانہ اور طاقت اور دھونس و دھاندلی پر مبنی طرزِ انتخاباب سے نکلتی ہیں۔

انتخاباب میں کامیابی کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے،ہتھکنڈے اور حربے
تعمیرِ عقل فاؤنڈیشن کی رائے میں سیاست کے میدان پر قابض500 خاندانوں کے افراد کے لیے اسمبلیوں میں جلوہ افروز ہونے،اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہو نے، اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے،اربوں روپوں کی کرپشن ورشوت میں ملوث ہونے اور دوسرے عوام دشمن عزائم پورے کرنے کا واحد راستہ انتخابات میں لینا اور کامیاب ہونا ہے ۔ اگر یہ لوگ جو انتخابات میں حصہ نہ لیں یا کامیاب نہیں ہوں تو وُہ مذکورہ بالا اعمال و جرائم کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔لہٰذا ان خاندانوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینا اور کامیاب ہونا ناصرف سیاسی طور سے بلکہ سماجی، اقتصادی دیگر لحاظ سے بھی سب سے زیادہ مفید کا م ہے، اولین ترجیح ہے اورذریعہ تکمیلِ آرزوہے۔چنانچہ ان خاندانوں کے افراد انتخابات میں کامیابی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے؛ ہر موقع اور محفل میں انتخابات کو اپنا موضوع بناتے ہیں، اپنے تجربات بیان کرتے ہیں،مشاورت سے نئی نئی تجاویز مرتب کرتے ہیں اوراُن پر عمل درآمد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ مشہورکہاوت ہے ’’ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ جب کہ ان خاندانوں کے لیے الیکشن ایک ایسا موقع ہے جس میں سب کچھ جائز ہے۔یوں یہ خاندان الیکشن جیتنے کے لیے اپنی تمام جسمانی قوتیں،عقلی صلاحیتیں،مالی وسائل اور ظاہری اور مخفی ذرائع سیاست کے میدان میں جھونک دیتے ہیں۔

انتخابات میں کامیابی کے لیے جو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقے،ہتھکنڈے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں اُن سب کو جاننا اور بیان کرنا کسی فرد یا جماعت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ مگر اُن میں سے چند ایک کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ووٹر ز صاحبان اُن کو پڑھ کر سمجھ سکیں اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر سکیں۔

حلقے میں’’ ووٹ بینک‘‘ کا قیام
چونکہ الیکشن میں کامیابی کا انحصار عوام کے ووٹوں پر ہوتاہے چنانچہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہر خاندان نے 50 سالوں سے اپنے حلقے میں اپنا اپنا ’’ووٹ بینک ‘‘قائم کر رکھا ہے۔ وُہ اس ووٹ بینک کی ہر قیمت پر اور ہر طریقے سے حفاظت کرتے ہیں۔ قارئین کی اطلاع کے لیے چند طریقے پیشِ خدمت ہیں:
-1 برسرِ اقتدار خاندانوں کی غالب اکثریت اپنے حلقے کے عوام کو ناخواندہ ،جاہل اور ملکی حالات سے بے خبر رکھنا پسند کرتی ہے تاکہ ووٹروں میں بغاوت ، نافرمانی یا خود پسندی کے عناصر پیدا نہ ہوں اور ووٹ بینک بھی محفوظ رہے؛ وُہ جب اور جہاں چاہیں ووٹروں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جائیں، جلسوں کی رونق دوبالا کریں، جلسوں میں استعمال کریں یا ووٹ ڈلوا کر صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبر بن جائیں۔ ان مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے وُہ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے صوبائی اور وفاقی بجٹوں میں تعلیم کی لیے بہت کم رقوم مختص کرتے ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق تعلیم پر سالانہ اتنا خرچ ہوتا جو فوج ایک ہفتہ میں کرتی ہے۔ وُہ اپنے حلقوں میں ا سکو لز کے قیام کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؛اگر کوئی سکول بن جائے تو اُس کو اصطبل بنا کر وہاں مویشی باندھ دیتے ہیں۔
-2اپنے حلقے کے عوام کی اقتصادی حالت کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اُنہیں اتنی خوشحالی برداشت نہیں جس سے عوام بے قابو ہوکر اُن کے ووٹ بینک سے نکل جائیں یا الیکشن میں اُن کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں۔ وُہ اپنے حلقوں میں ایسے بے روزگار افراد پیدا کرتے ہیں جو اُن کے چنانچہ وُہ ملک میں پھیلی غربت،بے روز گاری ، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی وغیرہ پر زیادہ فکر مند نہیں ہوتے ۔ جب ملک میں حکومت کے خلاف شوربرپا ہوتاہے، ریلیاں نکالی جاتی ہیں یا گراؤ جلاؤ ہوتا ہے تو وُہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے مسائل کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے وعدے کرتے ہیں مگر عملی طورپر برائے نام کام کرتے ہیں۔
-3 اکثر خاندانوں نے اپنے حلقے میں اپنی طاقت، نمود و نمائش اور خوف کی فضاء قائم کررکھی ہے ۔اس فضاء کو قائم رکھنے کے لیے اُنہوں نے اپنے حلقے میں ڈیرے قائم کررکھے ہیں ۔ جب الیکشن کا وقت قریب آتاہے تو ان ڈیروں کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ حلقے کے نام نہا د چوہدریوں، وڈیروں، سرکاری افسران،بااثراشخاص اور الیکشن میں کام آنے وا لے لوگوں کی پُرتکلف دعوتیں کی جاتی ہیں۔حلقے کے بدنام جرائم پیشہ اور مفرور مجرموں سے ملاقاتیں کی جا تی ہیں ، بعض مجرموں کوپناہ دی جاتی ہے۔ عام لوگوں کے لیے بھی ڈیرے کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔ ان کے لیے ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتاہے جو سارا دن چلتی ہیں۔ اس ضیافتوں میں مونگ پھلی ، چائے لسی سے لے کر مرغن کھانے اور کباب اور۔۔۔ سب کچھ وافر مقدار میں مہیا کیا جاتا ہے ۔ ایسی پُر کشش ضیافتوں کے ماحول کو دیکھ کر حلقے کے بے روزگار، بھوکے، آوارہ، منشیات کے عادی اور جرائم پیشہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ڈیرے پر پہنچ جاتے ہیں۔ان سب کو پارٹی کے جیالے اور کارکن قرار دیا جاتا ہے۔ چند دن اُن پر نوازشات کی بارش کی جاتی ہے۔ روپیہ پانی کی طر ح بہایا جاتا ہے۔ کئی ہفتے مفت خوری کے بعد جیالے اور کارکن اپنے آقا کا نمک حلال کرنے کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ پھر کیا ہے! گلی گلی، کوچے کوچے ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،جلسے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں آوے آوے؛ جیتے گا بھئی جیتے گا؛ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ؛ کل بھی وُہ زندہ تھا آج بھی وُہ زندہ ہے کے نعرے لگائے جاتے ہیں ،بعض اوقات ہوائی فائرنگ بھی کی جاتی ہے۔ ایسا سماع پیدا کیا جاتا ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک عظیم مسیحا حلقے کی لوگوں کے مدد کے لیے زمین پر اتر آیا ہے۔
-4 ووٹ بینک قائم رکھنے اور بڑھانے میں اگر مذکورہ بالا طاقت، نمود ونمائش اور خوف کے حربے کار گر نہ ہوں تو منت، سماجت اور لالچ سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاََ فرض کریں کہ ایک بااثر شخص کو ووٹ بینک میں شامل کرنا مقصود ہے اور اُس پرروائتی حربے کار گر ثابت نہیں ہورہے تو جاگیردار غرور، تکبر اور شان وشوکت کو ایک طرف رکھ کر علاقے کے مدد گار چوہدریوں، سرکاری افسران اور ہم خیال ساتھیوں کو ساتھ لیکر بااثر شخص کے گھر پہنچ جاتا ہے اور ووٹ کی بھیک مانگتا ہے،مختلف اقسام کے لالچ دیتا ہے اور مشکل وقت میں ہر قسم کی مدد کی پیشکش کرتا ہے ۔ اور اُس وقت تک دروازے سے نہیں ہلتا جب تک گھر والا ووٹ اُسے دینے کا وعدہ نہیں کرتا۔

یاد رہے کہ مصنّف نے’’ ووٹ بینک ‘‘ کو بڑھانے اور قائم رکھنے کے لیے مذکورہ بالا جوچارطریقے بیان کیے ہیں وُہ حتمی نہیں ہیں بلکہ برسرِ اقتدار خاندان ان کے علاوہ بھی بہت سے طریقے استعمال کرتے ہیں ۔بعض طریقے ایسے بھی ہیں جن کامصنّف کو بھی علم نہیں ہے۔ مگر تمام طریقے آزمانے کے باوجود اُنہیں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ ایسے ووٹرز جو تعلیم یافتہ، باشعور ہیں، ملک کے سیاسی معاملات کو سمجھتے ہیں اور ان ذات پرست خاندانوں کی کرپشن اور نااہلی سے واقف ہیں وُہ اُن کے جال میں نہیں پھنستے ۔ ایسے ووٹر الیکشن کے دن اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن نہیں جاتے بلکہ گھر پرآرام کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے اکثر الیکشنوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فی صد سے بھی کم رہی ہے۔ مثلاََ حالیہ قومی اسمبلی کے حلقہ151 کے ضمنی الیکشن میں 41.5 فیصد ی ووٹ ڈالے گیے ہیں۔

٭ا لیکشن پروسس کو مفلوج کرنا
برسرِ اقتدار خاندان الیکشن میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن پروسس کو مفلوج کردیتے ہیں۔ اس مقصدکے لیے وُہ کوئی دقیقہ فرگزاشت نہیں کرتے۔ مثلاََ
-1ووٹر لسٹوں میں جعلی اور بوگس ووٹوں کا اندراج کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ایک کیس میں انکشاف ہوا کہ فروری ، 2008 ء کے الیکشن جن ووٹر لسٹوں پر ہوئے تھے ان میں تقریبََا40 فیصدووٹ (34,000,000 )جعلی یا بوگس تھے۔
-2 برسرِ اقتدار لوگ الیکشن کمیشن اور اُس کی مشینری کو مفلوج کرنے کے لیے کئی دیگر حربے استعمال کرتے ہیں ۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل218 (3) کے مطابق الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وُہ الیکشن منعقد کرانے کا اہتمام کرے اور ایسے تمام ا نتظامات کو یقینی بنائے جوایمانداری؛، انصاف ، شفاف اور قانون کے مطابق الیکشن منعقد کرو انے کے لیے ضروری ہیں۔ آئین کے آرٹیکل (a) 219 کے مطابق الیکشن کمیشن کافرض ہے کہ وُہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹر لسٹیں تیار کرے اور اُن کو درست رکھنے کے لیے ہرسال نظرثانی کرے۔علاوہ ازیں ا لیکشن کمیشن کے فرائض میں یہ امور بھی شامل ہیں کہ وُہ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی روشنی میں امیدوارں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کرے ، ہر امیدوار کی طرف سے الیکشن پر کیے جانے والے اخراجات کے جانچ پڑتال کرے ،کامیاب امید واروں کی جائیداد وں کے داخل کے گیے گوشواروں کی پرتال کرے ۔ ا لیکشن کمیشن کا یہ بھی فرض ہے الیکشن کے دوران یا الیکشن کے بعد اگر کوئی ایسی واردات نظر آئے جس سے ایمانداری، انصاف اور قانون کے تقاضوں پر حر ف آتا ہوا معلوم ہو تو فوری ضروری ایکشن لے اور اصلاح کے لیے اقدامات اٹھائے۔ مگر مصنّف کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ ماضی کے کئی الیکشنوں میں الیکشن کمیشن اپنے مذکورہ بالا اور دوسرے فرائضِ منصبی کماحقہٰ ادا نہیں کرسکا۔ اُس کی ناک کے نیچے بہت ایسے کام ہوئے جو غیر آئینی اور خلافِ قانون تھے۔ مگرالیکشن کمیشن اور اُس کا عملہ منہ دیکھتا رہا ۔مثلاََفروری 2008 ء میں جو الیکشن ہوئے اُن کی ووٹر لسٹوں میں لگ بھگ چالیس فیصد ی ووٹز جعلی یا بوگس تھے، کئی امیدواروں کی تعلیمی ڈگریاں جعلی تھیں، کئی امیدواروں کی دوہری نیشنلٹی تھی اور آئین کے مطابق وُہ الیکشن میں حصہ لینے کے مجازنہیں تھے، تقریباََ سب امیدواروں نے آئینی طور پر منظور شدہ اخراجات سے کئی گنا زیادہ اخراجات الیکشن پر خرچ کیے۔ مگر الیکشن کمیشن نے اُس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لیا جب تک معاملہ میڈیا پر نشر نہیں ہوا یا سپریم کورٹ نے نوٹس نہیں لیا۔ الیکشن کمیشن اور اُس کا عملے نے کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا ؟ اس سوال کا صحیح جواب تو صرف الیکشن کمیشن کے چیئر مین اور دیگر اہلِ اختیار کے پاس ہے مگر مصنّف یہ سمجھتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مفلوج کر دیا گیا تھا۔

٭ ایک دوسرے سے تعاون
500 خاندانوں نے الیکشن میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایک دوسرے سے تعا ون کرتے ہیں ، غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔بعض خاندانوں نے تو آپس میں رشہ داریاں کررکھی ہیں۔ مزید برآں ان خاندانوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے اور عزائم پورا کرنے کے لیے متعدد سیا سی جماعتیں بنا رکھی ہیں ۔ اس پر طرّ ہ یہ ہے کہ کچھ بڑے اور بااثر جاگیر دار وں ،وڈیروں ، مذہبی پیشوا ؤں اورسرداروں نے ا پنی اپنی علیحدہ سیاسی جماعتیں بنا رکھی ہیں ۔ یوں ملک میں دوسوسے زائد سیاسی جماعتوں کی فصل اُگی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ہر ممکن کوشش کرتی ہیں ۔

500 خاندانوں کے ممبران مذکورہ بالا اور دوسرے طریقے اختیار کرکے الیکشن میں کامیاب ہو کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے، ملک سے وفادار رہنے اور آئین کی پاسداری کرنے وغیرہ کا حلف اٹھاتے ہیں، لیڈر آف ہاؤس یعنی وزیراعظم اور لیڈر آف اپوزیشن کو منتخب کیا جاتا ہے، صدراسلامی جمہوریہ پاکستان کا انتخاب کیا جاتا ہے اور وزیراعظم اپنی کابینہ کا اعلان کرتا ہے۔ یوں 500 خاندانوں کا ریاست کی طاقت کے تما م ایوانوں پر بلا شرکتِ 99.9 فیصدعوام جن میں غریب ، متوسط اور دانشور ،ادیب وغیرہ سب شامل ہیں، قبضہ کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتا ہے۔قانون اُن کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے، قانون نافذکرنے والے ادارے اور اُن کے عملے کے ارکان حکم کے غلام ہو جاتے ہیں، ملک کا خزانہ اور وسائل اُن کے دسترس میں آجاتے ہیں اور غیر ملکی قرضے اور امداد اُن کی جیب میں ہوتے ہیں۔یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔جب اتنی ریاستی طاقت اور وسائل پر قبضہ حاصل ہوجاتا ہے تو ممبران کی ایک غالب اکثریت پر جو عمل کے میدان میں نااہل ہوتی ہے، ذات اور کنبہ پرستی کا دورہ پڑتا ہے ؛وُہ عوام سے کیے ہوئے وعدے اوراٹھائے ہوئے حلف کو بھول کر، قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کرریاست کی خودمختاری کو گروی رکھ کرکرپشن اور لوٹ مار شروع کردیتے ہیں۔

پاکستانی تاریخ کے منعقدہ انتخابات : دسمبر 1971ء 1977-ء -فروری1985ء - نومبر1988ء- اکتوبر1990 ء - اکتوبر1993ء - فروری1997ء- اکتوبر 2002ء اور فروری 2008 ء

اگرالیکشن میں ایسے نمائندے منتخب کیے جائیں جو قابل،فرض شناس، ایماندار،قوم پرست،حبّ الوطن ہوں تو وُہ قوم کو سماجی طور پر مہذب، اقتصادی لحاظ سے خوش حال، انتظامی نسبت سے محفوظ بنا دیتے ہیں اور ملک کو سیاسی معاملات میں مستحکم اور بین الاقوامی نقطہء نگاہ سے خود مختار اور ممتاز کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر الیکشن میں ایسے نمائندے جیت کراقتدار میں آ جائیں جو نااہل،نافرض شناس، ذات اور کنبہ پرست اوربددیانت ہوں تو وُہ ریاست کو ایک مہذب، فلاحی ،خوش حال، مستحکم اور خود مختار ملک بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ وُہ ذاتی اور پارٹی کے مفادات کو عوام اور ملک کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔ملک میں غربت، جہالت،ناخواندگی،بے روزگاری، مہنگائی ،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ،دہشت گردی، قتل،اغوا برائے تعاوان، سیاسی عدم استحکام، قرضوں کا بوجھ ، بین الاقوامی غلامی جیسے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور ملک کی اخلاقیات ، اقتصادیات اور سیاست اور مختاری کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔یوں جمہوری طرز ِ کی حامل ریاستوں میں لیکشن اہمیت ترین واقعہ ہوتا ہے میں جتنے عام انتخابات منعقد ہوئے ہیں اُن میں قابل،فرض شناس، ایماندار،قوم پرست، حبّ الوطن ممبران کی بہت کم تعدا د منتخب ہوئی جبکہ نااہل،نافرض شناس، ذات اور کنبہ پرست اوربددیانت ممبران کی بہت بڑی تعداد اسمبلیوں میں پہنچی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے میدان پر مگر بد قسمتی سے ان خاندانوں کے افراد اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد جب اقتدار اور اختیارات ان خاندانوں کے افراد کے ہاتھوں آ جاتا ہے توخود وزراء اور سیکرٹریوں کی کرسیوں پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں یااسمبلیوں کی کمیٹیوں کے سربراہ اور ممبر بن جاتے ہیں، اپنے عزیزو اقارب کو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات کرتے ہیں،زیادہ قریبی رشتہ داروں کواہم ترین سرکاری اداروں کے چیئر مین مقرر کرتے ہیں اور پسندیدہ بیورو کریٹس کو ہمنوا بنا لیتے ہے۔

اور پھر اکثر ممبران کے لیے اقتدار اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم عزائم پورا کے لیے کرپشن اور عوام دشمن حکمرانی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ وعدوں کو سمندر میں پھینک دیتے ہیں، فرائضِ منصبی کوبھول جاتے ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کر د یتے ہیں اور وطن کے مفادات اور خود مختاری کوگروی رکھ دیتے ہیں۔ ملک کے وسائل ، قومی خزانے ،غیر ملکی امداد اور قرضوں کو مال مفت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹے ہیں۔کچھ رقوم ملک بینکوں میں اور باقی غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا دیتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ جو انتخابات ہوئے ہیں اُن میں بہت کم تعداد میں قابل،فرض شناس، ایماندار،قوم پرست،حبّ الوطن افراد منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے جبکہ نااہل،نافرض شناس، ذات اور کنبہ پرست اوربددیانت لوگ بہت زیادہ تعداد میں منتخب ہو کر اسمبلیوں کے ممبران بنے اور ملک کو موجودہ ناگفتہ بہ مسائل سے دو چار کیا۔

اس صورت حال میں مصنّف اس سوچ میں مبتلا ہے کہ پاکستان میں ــ انتخابات

" انتخابات ہیں یا آلہء وردات "
آئین کو پامال کرکے، قانون کی دھجیاں اڑ کر، الیکشن کمیشن کو خرید کر ، خلاف صابطہ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا کر، عوام کو انپڑھ و جاہل رکھ کر، دھونس و دھندلی اور دوسرے غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے اورحربے استعمال کرکے
٭ عوام کا خون چوس کر اُنہیں غربت اور بے بسی کی غار میں دھکیلا گیا،ملکی اور کھربوں روپوں کے غیر ملکی قرضوں کی زنجیر میں جگڑا گیا۔
٭ عوام کو بنیادی سہولتوں روٹی ،کپڑا اور مکان کے خواب دکھائے گیے لیکن پورے نہیں کیے گیے۔عوام کو بجلی،گیس اور پٹرول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رہا گیا۔
Rana Saeed Ahmad
About the Author: Rana Saeed Ahmad Read More Articles by Rana Saeed Ahmad: 14 Articles with 23065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.