کراچی کیوں آتش فشاں ہے

بجلی کی قیمت میں غیر معمولی اضافے٬ مسلسل لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت نے، عوام میں شدید بے چینی اور ایسے احتجاجی رویہ کو جنم دیا ہے۔ جو ملک کو انارکی اور بدترین تشدد کی جانب لے جارہا ہے۔ بد ترین اقتصادی بحران میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ عوام بے روزگاری کا شکار ہیں۔ بجلی کے بلوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر کوئی وزیر یہ کہے بجلی کے بحران کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں کوئی بھی بجلی کا بل ادا نہیں کرتا۔ تو یہ ایک ایسا پیٹرول بم ہے۔ جو آئندہ ایسے دھماکے کرے گا کہ لوگ خود کش حملوں کو بھول جائیں گے۔ وزیر موصوف نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ملک کو سردیوں میں گیس کی کمی کا بھی سامنا ہوگا اور گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ کی جائے گی، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سندھ میں 42 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ عوام کے غیض وغضب کا ایک ہلکا سا مظاہرہ تو گزشتہ روز نظر آگیا۔ جب پنجاب کے دارالحکومت لاہور سمیت صوبے کے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف تاجر تنظیموں کی کال پر شٹر ڈاﺅن ہڑتال، پرتشدد مظاہرے، واپڈا، لیسکو، فیسکو کے دفاتر سمیت کئی سرکاری دفاتر اور پولیس موبائلوں پر حملے، اور مشتعل افراد کی جانب سے ساندل ایکسپریس کی 4 بوگیوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ پنجاب کے متعدد شہروں میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔

جھنگ شہر میں روزانہ 18 گھنٹے سے 20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے پریشان عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے سرگودھا سے ملتان جانے والی ٹرینوں کو روک کر مسافروں کو اتار لیا اورساندل ایکسپریس کی 3 بوگیوں کو نذر آتش کر دیا۔ شہری ٹرین کی چھتوں پر چڑھ گئے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ اس سے قبل صبح سویرے واپڈا ہاﺅس کو بھی آگ لگا دی گئی مظاہرین نے پولیس کی بھی 2 گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ لاہور روڈ پر واپڈا فیسکو آفس پر دھاوا بول دیا۔ وہاں موجود اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ریکارڈ پھاڑ کر اسے آگ لگا دی۔ یہ حالات ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ہیں۔ جہاںروٹی دو روپے کی ملتی ہے، آٹا کراچی کے مقابلے میں آدھی قیمت پر دستیاب ہے۔ پانی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کراچی کی نسبتاً کم ہیں۔ صوبائی حکومت عوام کی امنگوں کی ترجمان کہی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد پریس کلب میں دعوت چائے کے موقع پر چیف ایگزیکٹیو آفیسر حیسکو حبیب اللہ خلجی نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ بجلی پر سبسڈی ختم کی گئی تو نرخ فی یونٹ12 روپے تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت مجموعی طورپر بجلی کی قیمت 5 روپے 71 پیسے فی یونٹ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت دیہی علاقوں میں 8 اور شہری علاقوں میں 6 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ جبکہ دیہاتوں میں میٹر ریڈنگ بھی نہیں ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت حیسکو کے مختلف اداروں پر 15ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔

بجلی بحران کے پیش نظر اور بقایا جات کی وصولی کے لیے پاکستان الیکٹرک سپلائی کمپنی نے حال ہی میں ملک بھر میں ایک ہی جگہ پر بجلی کے دو یا اس سے زائد کنکشن لگانے پر فوری طور پر پابندی عائد کردی ہے۔ واپڈا کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بجلی کے 2 کنکشنز کے موجودگی کے سبب بجلی چوری میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ایسے کنکشن کے حامل صارفین سے واجب الادا رقم کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔ پچھلے دنوں کے سخت موسم میں پانی و بجلی کے وفاقی وزیر راجا پرویز اشرف نے کراچی میں کئی خوبصورت باتیں کی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ (۱) کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نے معاملات درست نہ کیے تو حکومت کو انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے انتظامی امور واپس لینے پڑیں گے۔(۲) آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق جولائی سے بجلی پر ایک روپے کی بھی سبسڈی نہیں دی جا سکتی جس کے باعث بجلی کے نرخوں میں 35 فیصد تک اضافہ کرنا ہوگا جس میں سے فوری طور پر 15 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔۔(۳) بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 4 ارب ڈالر کی ضرورت ہے (۴) پیپکو کے واجبات میں اضافے کی بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے ، (۵) قائمہ کمیٹی اور سیاسی قیادت کنڈا سسٹم کے خاتمے کیلئے ہماری مدد کریں (۶) کراچی کے دوستوں کو بجلی کی قیمت میں اضافے کی خبر دی تو انہوں نے کہا کہ آپ قیمت بڑھا دیں ہم کنڈوں کی تعداد بڑھا دیں گے۔ اس موقع پر ایم ڈی پیپکو طاہر بشارت چیمہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ کچے کے علاقے میں ایک ہزار غیر قانونی ٹیوب ویلز چل رہے تھے جن کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے 30 ٹرانسفامرز اتار کر ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کرا دی گئی ہیں۔

ایم ڈی پیپکو نے مزید بتایا تھا کہ 31 مارچ 2009ء تک پیپکو کی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی سے قابل وصول رقم 80.1 ارب، فاٹا 81.8 ارب، حکومت سندھ 14.7 ارب، آزاد کشمیر 1.8 ارب، بلوچستان میں ٹیوب ویلز کیلئے مرکزی حکومت اور بلوچستان حکومت سے 4.7 ارب جبکہ نجی شعبہ سے 73.4 ارب روپے ہے۔ دوسری جانب پیپکو کے ذمہ آئی پی پیز کی 70.5 ارب روپی، گیس سپلائرز 14.1 ارب، آئل کمپنیوں کے 7.3 ارب، واپڈا 39.2ارب اور دیگر کی 5.8 ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ بجلی کی کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے حکومت نے بنکوں سے 5.8 ارب روپے کے قرضے حاصل کیے اور 2009-10ء کیلئے 92.2 ارب روپے کے ٹرم فنانس سرٹیفکیٹس کا اجراء کیا گیا۔ بجلی چوری میں غریب لوگوں کے مقابلے میں امیر اور بااثر لوگوں کا کتنا حصہ ہے۔ اس کا اندازہ معاصر اخبار کی اس خبر سے ہوجاتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں میں بااثر لوگوں کے گھروں میں کیسے دھڑلے سے بجلی چوری ہورہی ہے۔ اور کوئی مائی کا لال ان کے کنکشن کاٹنے کی جرات نہیں کرتا۔ ان علاقوں میں کے ای ایس سی کو صرف بجلی کی فراہمی کی مد میں 72 کروڑ روپے ماہانہ نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ کے ای ایس سی ذرائع کے مطابق ان علاقوں میں بجلی چوری میں کے ای ایس سی کے 16سینٹرز کے منیجرز اور دیگر افسران براہ راست ملوث ہیں جو اپنے سینٹرز کی حدود میں ماہانہ 20 سے 25 لاکھ روپے رشوت وصول کر رہے ہیں۔ کے ای ایس سی کے اعداد و شمار کے مطابق ڈیفنس اور کلفٹن میں ایک ہزار مربع گز کے بنگلہ میں 3 ہزار سے10 ہزار کلو واٹ بجلی فراہم کی جاتی ہے جبکہ ماہانہ اوسط بل 4 ہزار ہونا چاہیے تاہم کے ای ایس سی کو ماہانہ اوسط 4 ہزار روپے فی گھر کے حساب سے 80 کروڑ روپے وصول ہونے کے بجائے 4 سو روپے فی گھر کے حساب سے صرف 8 کروڑ روپے مل رہے ہیں۔ ان دونوں علاقوں میں بجلی چوری ہونے کی وجہ سے کے ای ایس سی کو سالانہ8 ارب 64 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹر نے ان صارفین کے میٹر نمبر بھی دئے ہیں جو ان سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور دیگر لاکھوں صارفین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کے ای ایس سی کی سابق اور موجودہ انتظامیہ ڈیفنس، کلفٹن اور شہر کے دیگر علاقوں میں ماہانہ کروڑوں روپے کی بجلی چوری کے بارے میں آگاہی کے باوجود ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کررہی ہے اور اس اہم مسئلے پر پر اسرار خاموشی اختیار کرلی۔ کے ای ایس سی کی شیئرز ہولڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری چوہدری مظہر نے بتایا کہ انتظامیہ بجلی چوری کی روک تھام میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس اہم معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ ہے بجلی کی چوری کی صورتحال، اس معاملے میں نہ حکومت سنجیدہ ہے نہ کے ای ایس سی، نواز شریف کے زمانے میں جن لوگوں کو لا کر واجبات وصول کرنے کے لئے بٹھایا گیا تھا۔ اس وقت لائن لاسسز ۴۲ فیصد تھے۔ ان کے جانے کے وقت یہ لائن لاسسز ۰۴ فیصد ہوگئے۔ انہوں نے واجبات کی وصولی پر کمیشن بھی حاصل کئے۔ کے ای ایس سی کس کی ملکیت ہے یہ بھی ایک سوال ہے۔ کون ہے جو پردے میں چھپا بیٹھا ہے۔ کون ہے جو صرف ریکوری پر نظر گاڑھے بیٹھا ہے۔ کے ای ایس سی کی زمینوں، عمارتوں، پر دانت گاڑھے ہوئے۔ ۸۱ ماہ سے کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔ بجلی کی صورتحال بہتر کیسے ہوگی۔ اب بھی وقت ہے کراچی کے عوام کو سہولت دی جائے۔ نئے منصوبے جنگی بنیادوں پر شروع کیئے جائیں۔ سستی بجلی دی جائے۔ آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلا جائے۔ ورنہ کراچی یونہی آتش فشاں بنا رہے گا
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389253 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More