محب وطن

سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آ یا اور فرمان جاری ہوا کہ عمران خان کا رویہ وقار کے منافی نہیں تھا ،توہین عدالت کے ہر کیس میں غیر مشروط معافی نامہ ضروری نہیں ۔شرمناک کا لفظ انتخابی افسروں کی ذمہ داریوں سے متعلق ادا کیا ۔غیر مشروط اور باقاعدہ معافی کے بغیر توہین عدالت کے حوالے سے اظہار وجوہ کا نوٹس خارج کیا جاتا ہے۔

پھر فرمایا سیاستدان اور عوامیہ شخصیات اچھی زبان اور بہتر ذخیرہ الفاظ کا انتخاب کریں ،وہ قوم کیلئے نمونہ ہیں ۔

عمران خان کی وضاحتوں اور ان کے مجموعی رویے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ محب وطن ہیں اور ان کے بیان پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔اسلئے غیر مشروط اور باقاعدہ معافی کے بغیر توہین عدالت کے حوالے سے اظہار وجوہ کا نوٹس خارج کیا جاتا ہے۔

اخبار میں عالی المرتبت جناب انور ظہیر جمالی کے 18صفحات اور 16نکات پر مشتمل فیصلے کی تفصیل پڑھنے کے بعد میں نے تقریباََدو سو اٹھارہ مردوں اور ایک سو سولہ خواتین سے سوال کیا تو سبھی نے جواب میں کہا کہ عمران خان نے بڑی جر أت اور دلیری سے شرمناک کہا تھا ،اور پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس عدلیہ کیلئے قربانیاں دیں اور جیلوں میں گئے۔

ظاہر ہے لوگ جیلوں میں سپریم کورٹ کے جج صا حبان کیلئے گئے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی تھی جبکہ ماریں کھانے والوں میں بھی وکلاء ،صحافی اور عام لوگ شامل تھے ۔سیاستدانوں نے وکیلوں اور صحافیوں اور عام لوگوں نے سڑک پر بکھرے خون کا ٹیکہ ماتھے پر لگایا اور شہید بن گئے۔عمران خان کو کیا پتہ کہ جیلیں کیا ہوتی ہیں او ر قید کس بلا کا نام ہے۔اگر عمران خان کے پاس وقت ہو تو وہ میرپور کے راجہ اکبر کی داستان حیات پڑھے جس نے کشمیر میں آزادی کی تحریک کو نہ صرف اپنی جوانی بلکہ اپنی جان بھی دے دی اور کبھی کسی سے شکوہ شکایت نہیں کی۔راجہ صاحب نے دبے کچلے انسانوں کی آزادی اور عزت کی خاطر اپنی ساری عمر جیلوں میں گزار دی۔اور قید بامشقت کے دوران گندم چکی پر پیسنے کا تشدد برداشت کیا ۔عمران خان نے جو چند روز وی آئی پی جیل میں گزارے اسے جبری آرام کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔اور اب ایسا ہی آرام عمران خان کے آئیڈیل پرویز مشرف بھی اپنے فارم ہاؤس میں فرما رہے تھے۔عمران خان نے عدالت میں پہلی پیشی کے بعد پھر کہا کہ آج پتہ چلا کہ شرمناک گالی ہے اور پھر بار بار کہا کہ معافی کس بات کی میں نے تو کوئی توہین عدالت کی ہی نہیں ۔معزز جج صاحبان نے جو لکھ دیا اس پر اگر عدالتیں سیاستدانوں اور امیر لوگوں کوسزا دینے کی بجائے ہدایت نامہ جاری کریں گی تو یہ لوگ پہلے سے زیادہ دلیر ہو جائیں گے اور عدلیہ کا احترام چھوڑ دیں گے۔

میرے خاندان کا کوئی بھی شخص نہ جج ہے اور نہ ہی سیاستدان مگر جب بھی کوئی سیاستدان ،صحافی یا معاشرے کا بظاہر عزت دار شخص عدالتوں اور ججوں کے خلاف لکھتا ہے یا بولتا ہے تو نہ صرف مجھے دکھ ہوتا ہے بلکہ خوف بھی آتاہے۔دکھ اس بات کا کہ جو سیاستدان ،صحافی یا بااثر شخص عدلیہ پر بیجاتنقید کرتا ہے وہ اپنے قلم یا اسمبلی میں بیٹھ کرعوام کو تلقین کرتا ہے،آئین کا پاسبان بنا پھرتا ہے اور معاشرتی تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لگاتا ہے۔

ایسا شخص کوئی امیر کبیر ،وزیر مشیر یا خود ساختہ لیڈر تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت میں وہ ایک دھوکے باز ،فریب کار اور سیاسی بازیگر ہوتا ہے ۔ جو شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ چھینے ،اپنے اثر ورسوخ سے اور دھونس سے وزیر و مشیر بن جائے اور ایسی ہی برادری میں معزز کہلائے ،عوام کو دھوکہ دے ،ان کی پریشانیوں میں اضافہ کرے اور ان ہی کے ووٹ سے منتخب ہو کر ان کو دھتکارے ،اور ان کی رگ رگ سے مہنگائی اور کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے ان کا خون نچوڑے وہ ہرگز محب وطن نہیں ہو سکتا،خوف اس بات کا ہے کہ اگر عدالتوں نے عمران خان کو چھوڑ دیا ۔گیلانی ، راجہ رینٹل اور کرپشن میں ملوث جرنیلوں اور ان کے حامیوں اور مفاد پرستوں کے معاملات سے آنکھیں بند کر لیں تو یہ ملک نہ صرف طالبان کے حملوں سے بلکہ کرپٹ سیاستدانوں ،جرنیلوں اور ان کے حامیوں کے حربوں سے تباہ وبرباد ہو گا ۔اعلی ٰ عدلیہ کے جج صاحبان سے درخواست ہے کہ الفاظ کے چناؤ کا ہدایت نامہ انصاف نہیں ۔اگر جناب عمران خان کیلئے کوئی شخص یہی استعمال کرے تو موصوف اسے مارنے دوڑیں گے۔جس طرح وہ اپنی کرکٹ کی زندگی میں غریب صحافیوں اور اپنے چاہنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اور گالی مکے اور تھپڑ بھی چلاتے تھے۔انہیں صرف غیر ملکی صحافی،فین اور سیاح اچھے لگتے تھے، عدلیہ نے اگر عمران خان کو غیر مشروط اور بغیر معافی کے توہین عدالت کے حوالے سے معاف کر دیا ہے تو ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کا بھی خیال کرے جو معمولی جرائم جو مجبوریوں کے باعث سرزد ہوئے کے تحت جیلوں میں بند ہیں یا پھر عدالتوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں ،یقیناََ یہ لوگ عمران خان ،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اور کرپشن میں ملوث این ایل سی کیس والے جرنیلوں سے زیادہ محب وطن ہے ۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 91089 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.