فلسفہ وسائنس اور امام غزالی کا موقف

امام غزالی نے اپنے دور میں خود کو ’’مسلم‘‘ کہنے والے بعض فلسفیوں کی کئی آراء پر شدید علمی تنقید کی اور اسے اپنی کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں بیان کیا۔ کئی دہائیوں کے بعد ایک فلسفی ابنِ رشد نے ’’تہافت التہافت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں تہافت الفلاسفۃ کے بعض جزوی مندرجات پر تنقید کی گئی۔ یار لوگوں نے شور مچا دیا کہ فلسفیوں کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ ‘‘ کا جواب آگیا ہے۔ جن لوگوں نے براہِ راست ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ اور تہافت التہافت‘‘ کو پڑھا ہے،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابنِ رشد اپنی تمام تر تنقید کے باوصف غزالی کی کتاب کا قد کاٹھ نہیں گھٹاسکے۔ غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ ہمارے بہت سے ’’سینئر‘‘ کالم نگاروں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کسی ایک تحقیقی مجلہ میں اس موضوع پر دو ، ایک مقالے پڑھ کر وہ اس موضوع کے ماہر بن جاتے ہیں اور نہ صرف یہ، بلکہ اس قضیہ میں ثالثی کرنے بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ غزالی اور ابنِ رشد کو پڑھے بغیر وہ ابنِ رشد کی حمایت کرتے ہیں اور اپنی روشن خیالی کو مصدقہ کروانے کے لئے غزالی کی طرف ایک خود ساختہ موقف منسوب کرکے اس پر تنقید کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان ’’بھولے‘‘ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ امام غزالی شاید سائنس کے خلاف تھے اور سائنس کی پوری بنیادوں کو اکھاڑ دینا چاہتے تھے۔ امام غزالی کے موقف کو اس طرح سمجھنا ان لوگوں کی ’’سادہ لوحی‘‘ اور موضوع سے ’’واقفیت‘‘ کا ثبوت ہے۔ زیرِ نظر سطور میں ان بھولے لوگوں سے التماس ہے کہ وہ امام غزالی کے موقف کی صحیح علمی توضیح کو سمجھنے کی کوشش کریں اور خواہ مخواہ اس موضوع پر مغالطوں کی دھول اڑانے کی کوشش نہ کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ غزالی نے فلسفیوں پر کوئی ایسا جبر نہیں کیا کہ وہ فلسفہ نہ پڑھیں یا سائنسی تحقیقات کرنا چھوڑ دیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ کہا کہ اسلام اور سائنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی کے پیروکاروں نے ایسے فلسفیوں اور سائنس دانوں پر کبھی تنقید نہیں کی جنہوں نے خود کو سائنسی تجربات اور ریاضی وطب جیسے مفید، کارآمد اور اوریجنل سائنسی علوم تک محدود رکھا۔ چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ الخوارزمی (الجبرا کے بانی)، ابن الہیثم (ماہرِ طب)، حکیم یحیی بن ابی منصور، ابو ریحان البیرونی (ماہرینِ جیومٹری)، مسلم بن فراس (پہلا ہوا باز)، عباس بن سعید جوہری اور سند بن علی (آلاتِ رصد بنانے کے ماہر)، بنو موسی بن شاکر (گھڑی جیسے متحرک آلات بنانے کے ماہر)، محمد بن زکریا رازی (ماہرِ کیمیا)، حکیم ابو محمد العدلی القائنی، ابو سہل ویجن بن رستم کوہی اور حکیم ابو الوفاء بوزجانی (ماہرینِ ریاضی) جیسے لوگوں کو کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم سائنس دانوں میں اکثر لوگ ایسے ہی تھے جو خالصتاریاضی جیسے حقیقی یا تجرباتی علوم سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کی زیادہ شہرت نہیں۔ (حکمائے اسلام۔ مولانا عبدالسلام ندوی۔ جلد۱، صفحہ۱۰۵)

غزالی کی تنقید کا رخ جیساکہ انہوں نے خود لکھا ہے، فارابی اور بوعلی سینا جیسے ان ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنے متنازعہ ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان میں سے بعض نے اپنی الہیات اور مابعد الطبیعیات (Metaphysics)کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی۔ انہوں نے خدا تعالی کے بارہ میں یہ توہین آمیز دعوی کیا کہ وہ ایک بے دست وپا قسم کی قوت ہے (جسے وہ ’’عقل ‘‘ کہتے ہیں) اس سے ایک اور قوت نے جنم لیا، اس سے پھر ایک اور قوت نے ، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں قوت اور ’’عقل‘‘ تک پہنچا۔ اس دسویں عقل اور قوت سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔ (ہدایۃ الحکمۃ) اس طرح کی اور بھی کئی باتیں ان کی طرف منسوب ہیں۔ یہ باتیں دلیل کی رو سے کتنی بے سروپا اور احمقانہ ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر فی الحال صرف یہ دیکھئے کہ ایک آدمی یہ سب باتیں اسلام ہی کے نام پر کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا حق پہنچتا ہے اور اگر کوئی غزالی اس پہ تنقید کرے تو کیا یہ بلاجواز ہے؟ بات بڑی واضح ہے کہ ان ہفوات کو فلسفی بے شک اپنے ’’علم الہیات‘‘ کا جزو بنائیں کیونکہ دین میں جبر نہیں، مگر انہیں اس بات کاکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سب باتیں اسلام کی طرف بھی منسوب بھی کریں۔

ابنِ رشد کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ غزالی نے ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں فلسفہ کے جن الہیاتی مسائل کو ’’مسلم ‘‘ فلسفیوں کی طرح یونانی فلاسفہ کی طرف بھی منسوب کیا تھا، ابن رشد نے ’’تہافت التہافت‘‘ کے اندرا ن میں سے بہت سے مسائل کے بارہ میں دعوی کیا کہ یہ مسائل بوعلی سینا وغیرہ کی اپنی اختراع ہیں، یونانی فلاسفہ کی طرف ان کی نسبت درست نہیں۔ (دیکھئے: تہافت التہافت) سبحان اﷲ! اب خود بتائیے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یونانی فلسفیوں کی جان تو چھوٹ گئی، لیکن کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ‘‘ زیادہ مضبوط نہیں ہوگئی؟ کیونکہ ابنِ رشد ہی کے دعوی کے مطابق ان مسائل میں ’’مسلم فلسفی‘‘ ناقل نہیں، بلکہ خود ان کے موجد ہیں۔جبکہ غزالی کا مقدمہ ان کی اپنی تصریح کے مطابق یونانی فلسفیوں کے خلاف نہیں، بوعلی سینا اور اس کے پیروکاروں کے ہی خلاف تھا۔ ابنِ رشد نے کسی ’’مسلم‘‘ فلسفی سے اس نسبت کو قطع تو کیا کرنا تھا، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خود اسی طرزِ فکر کا حامل رہا۔ ابنِ رشد اگر وہی ہے جو تاریخی روایات میں نظر آتا ہے اور اسی کو راہ نما بنانا مقصود ہے تو پھر سنئے، لطفی جمعہ کے مطابق وہ قومِ عاد کے وجود کا منکر تھا جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ صفحہ۱۴۸)

غزالی تو خواہ مخواہ ’’بدنام‘‘ ہوگئے۔ ورنہ خود ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں ایک بڑا نام ’’ابوالبرکات بغدادی‘‘ کا آتا ہے جو مذہبا یہودی تھا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔ اس کی کتاب کا نام ’’المعتبر‘‘ ہے، جس میں اس نے فلاسفہ کی الہیات پر بھرپور تنقید کی۔ یہ تنقید اتنی بھر پور تھی کہ بعض حضرات کے بقول، بعد میں رازی اور ابنِ تیمیہ کی فلسفہ پر تنقید اکثرو بیشتر اسی ’’المعتبر‘‘ سے ماخوذ ہوتی ہے۔(حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۴۵۰، ۴۵۱)

فلسفیوں کا علمِ الہیات حماقتوں کا ایک پلندہ تھا۔ ابنِ خلدون کے بقول، سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ اس سے چمٹے رہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سمجھ آجائے تو انسان کو ایک خاص قسم کی غیبی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔(مقدمہ ابنِ خلدون۔ صفحہ۵۶۱)چنانچہ عام لوگ تو رہے ایک طرف، ارسطو کے بعد فلسفہ کے تیسرے بڑے استاد بو علی سینا کے بارہ میں منقول ہے کہ اس نے ’’الہیات‘‘ کے موضوع پر فلسفہ کے دوسرے استاد الفارابی کی ’’مابعد الطبیعہ‘‘ نامی ایک کتاب پڑھی مگر کچھ پلے نہ پڑا، جذبہ ایسا قوی تھا کہ یکے بعد دیگرے اسے چالیس دفعہ پڑھ ڈالا، کتاب لفظ بہ لفظ یاد ہوگئی مگر پلے پھر بھی کچھ نہ پڑا۔یہاں تک کہ اس علم سے مایوس ہوگیااور جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ لیکن دل میں خلش تھی، ایک دفعہ پھر کسی موقع پر اسے پڑھا تو محسوس ہوا کہ اب مجھے سمجھ آنے لگی ہے۔ (حکمائے اسلام۔ جلد۱۔ صفحہ۲۹۵) ایسے بے سروپا علم کے مسائل کو اگر کوئی آدمی اسلام کے کھاتے میں ڈالے تو کیا وہ اب بھی قابل تنقید نہیں، قابلِ تعریف ہے؟؟؟غزالی کا قصور یہی ہے کہ انہوں اس رویہ پر تنقید کی ہے۔

غزالی محض یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فلسفہ اور سائنس کے صرف کارآمد علوم کو اختیار کریں اور مذہب کے دائرہ سے ان کو الگ رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر اسلام پہ تنقید کی کوئی کوشش نہ کریں۔ اب خود بتائیے کہ دونوں میں ہم آہنگی کون چاہتا ہے؟ ابنِ رشد یا غزالی؟ اسلام کی حقانیت دو اور دو ، چار کی طرح واضح ہے، کیونکہ اﷲ کا وجود اس کائنات کا سب سے بدیہی سچ ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت وراست گوئی کو آج کے غیر متعصب ’’نان مسلم‘‘ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام کے اثبات کے لئے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی فلسفیانہ دلیل کی بناء پر ایسے بدیہی سچ پہ تنقید روا ہے۔ کجا یہ کہ اسلام پہ یہ تنقید اسلام ہی کے نام پر کی جائے۔

اس دنیا کی خوشحالی کے لئے سائنس وٹیکنالوجی کو اختیار کرنا منع نہیں، بلکہ کسی درجہ میں مفید بھی ہے۔ مگر یہ اس قیمت پر نہیں کہ ہم اسلام سے ہی دست بردار ہوجائیں۔قرآن کی نگاہ سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا رہنے کا اصل گھر نہیں، غیر مسلم کی کسی نیکی اور رفاہی کام پر اﷲ پاک اسے اس دنیا میں ہی اس کا بدلہ دے دیتے ہیں کیونکہ آخرت کا ابدی گھر اس کے لئے نہیں۔ جبکہ مسلمان کی کسی بدعملی پر اسے دنیا میں ہی سزا دے دی جاتی ہے کہ یہ آخرت کی بڑی سزا سے بچ جائے۔ ایسی صورت میں غیر مسلم دنیا پاکر بھی ناکام اور مسلمان دنیا سے محروم ہوکر بھی اس سے بہتر ہوتے ہیں۔ مغرب کی ’’عزت‘‘ اور مسلمانوں کی ’’ذلت‘‘ اس لئے نہیں کہ اﷲ ان سے راضی اور ہم سے ناراض ہے، کیونکہ اﷲ تعالی صرف راضی ہوکر ہی نہیں، ناراض ہوکر بھی کچھ دے سکتے ہیں۔آج آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم غزالی کی بجائے ابنِ رشد کو اپنا راہ نما بناتے تو سائنس میں ترقی کرتے اور ذلت کے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، اگر ہمیں دنیا اتنی ہی عزیز ہے تو خطرہ ہے کہ کل کوئی اور صاحب اٹھیں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ اگر ہم مسلمان کی بجائے کچھ اور ہوتے تو ذلت کے یہ دن نہ دیکھتے۔ اگر ہمیں آخرت کے ساتھ دنیا کی حقیقی عزت بھی چاہئے تو اس کے لئے ہمیں اپنی غلطیوں کا تدارک کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے ہم خدا کی مدد اور نیک سمجھ سے محروم ہیں۔ ان میں سے ایک غلطی دنیا پرستی بھی ہے۔ ہماری سب سے قیمتی متاع محمدِ عربی کا کلمہ ہے اور اسی کے ساتھ ہمارا رہنا مرنا ہے۔
Muhammad Abdullah Shariq
About the Author: Muhammad Abdullah Shariq Read More Articles by Muhammad Abdullah Shariq: 42 Articles with 43082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.