ڈاکٹر محمد ریاض شاہد :بلھے شاہ فرمایا

ڈاکٹر محمد ریاض شاہد :بلھے شاہ فرمایا ،صوفی سانجھ لاہور ،پاکستان ،سال اشاعت 2013
تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان

بلھے شاہ (پیدائش :اچ 1680وفات :1757قصور)پنجابی زبان کے ممتاز صوفی شاعر تھے ۔اپنی شاعری میں فلسفیانہ خیالات ، زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ ا نسانیت کے وقار اور سر بلندی اور مذہب کی آفاقی اقدار کو اسلوب کی اساس بنا کر بلھے شاہ نے قارئین کے دلوں کو مرکز مہر و وفا کر دیا ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر محمد ریاض شاہد نے بلھے شاہ کی کافیوں کے مشہور اشعار کو اردو نثرکے قالب میں ڈھالا ہے ۔اس طرح دہ تہذیبوں کو قریب تر لانے میں مد ملے گی اور اردو داں طبقے کوپنجابی کلاسیکی ادب کے اس نابغہء روزگار تخلیق کار کے اسلوب کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔بلھے شاہ کے پنجابی عارفانہ کلام کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت رور روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس یگانہء روزگار صوفی شاعر نے اپنی کافیوں میں ارضی و ثقافتی حوالے کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔بلھے شاہ کی شاعری میں تخلیقی عمل اوراس کے پس پردہ کار فرما لا شعوری محرکات کی متعدد نئی جہات سے قاری آ شنا ہوتا ہے۔قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی یہ شاعری قاری کو اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی صلاحیت سے متمتع کرتی ہے ۔یہ عارفانہ کلام قاری کو اپنی حقیقت سے آشنا کر کے اس خطے کی صدیوں کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے فیض یاب کرتی ہے ۔

مترجم نے بلھے شاہ کے پنجابی زبان کے عارفانہ کلام کو نہایت سہل اور عام فہم اردو کے قالب میں ڈھالا ہے ۔بلھے شاہ کا شمار بر عظیم کے ان ممتاز صوفی شعرا میں ہوتا ہے جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اس خطے میں اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔اس شاعری میں جہاں حریت ضمیر سے جینے کا پیغا م ہے وہاں حرف صداقت لکھنے کی ترغیب بھی ہے ۔بلھے شاہ کی صوفیانہ شاعری میں حریت فکر و عمل کا جو عملی نمونہ ملتا ہے وہ قارئین ادب کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا موثر وسیلہ ہے ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھنے والے ان صوفی شاعروں نے اس خطے کی قدیم تاریخ ،تہذیب ،ثقافت ،معاشرت اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں فکر پرور اور خیال افروز تصورات کو اپنے افکار میں نمایا ں جگہ دی ۔تاریخ شاہد ہے کہ ان با کمال تخلیق کاروں نے جس انداز میں اپنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھائی ہیں اس کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں قارئین ادب نے سلطان باہو ،بلھے شاہ ،وارث شاہ ،شاہ حسین ،عبدالوہاب ،بابا فرید ،شاہ عبداللطیف بھٹائی ،رحمٰن بابا،سچل سر مست ،شیخ ایاز ۔مست توکلی ،خواجہ غلام فرید ،خوش حال خان خٹک اور میاں محمد بخش کی خدمات کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا ہے ۔ان نامور صوفی شاعروں نے اپنے عارفانہ کلام سے قارئین ادب کو بصیرت کی سکون بخش فضا سے آ شنا کیا۔یہ امر لائق تحسین ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے کلاسیکی ادب پاروں کو قومی زبان کے قالب میں ڈھالنے کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت موجود ہے ۔آفاق صدیقی نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے سندھی کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا،پروفیسر طحٰہ خان نے رحمن بابا کے پشتو کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ نامور ماہر تعلیم ،محقق اور دانش ور پروفیسر اسیر عابد نے مرزا اسداﷲ خان غالب کے اردو کلام کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا۔یہ تراجم قاری کو ایک دھنک رنگ منظر نامے سے آ شنا کرتے ہیں ۔ایک مثال پیش خدمت ہے :
رحمٰن بابا کے پشتو کے ایک شعر کا ترجمہ پروفیسر طحٰہ خان نے اس طر ح کیا ہے :
وصل کہ ہجراں ہوا دونوں مجھے ہیں عزیز ،دونوں مجھے ہیں عزیز وصل کہ ہجراں ہوا
اسی خیال کو مرز اسد اﷲ خان غالب نے پونے دو سو سال بعد کچھ یو ں بیاں کیا ہے :
وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد
ہزار بار برو ،صد ہار بار بیا
 

image

صوفی غلام مصطفٰی تبسم نے غالب کے اس شعر کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا ہے :
بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سوہنیا جا ہزار واری آجا پیاریا تے لکھ وار آ جا

عالمی شہرت کے حامل ما یہ ناز پاکستانی ادیب ،دانش ور ،نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی تراجم کو کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے بہت اہم قرار دیتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ تراجم کے وسیلے سے مترجم اپنے مطالعات میں قاری کو بھی شامل کر لیتا ہے اور اس طرح ادب کی ہمہ گیر اثر آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے ۔ڈاکٹر بشیر سیفی بھی ہمیشہ عالمی کلاسیک کے اردو تراجم پر زور دیتے تھے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ جب ایک مترجم اپنے ذوق سلیم کے زیر اثر اپنی انفرادی دلچسپی کے تحت کسی ادب پارے کا ترجمہ کرتا ہے تو جہاں نئی تہذیبی و ثقافی اقدار کو نمو ملتی ہے وہاں اظہار وابلاغ کے متعدد نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔تراجم کے ذریعے قارئین ادب کو وسعت نظر اور جہان تازہ کی خبر ملتی ہے ۔اس کتاب کی اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا اورتخلیقی عمل کو مہمیز کرنے میں مدد ملے گی ۔اردو میں عالمی کلاسیک کے تراجم کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اس کے اعجاز سے قاری کو یکسانیت کی جامد و ساکت فضا سے نکل کر نئے زمانے نئے صبح و شام کی جستجو کی تدبیر سوجھتی ہے ۔

ڈا کٹر محمد ریاض شاہد نے سرکاری ملازمت کے سلسلے میں طویل عرصہ قیام کیا ہے ۔جھنگ میں عالمی کلاسیک کے اردو تراجم کی لہر 1926میں اٹھی ۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے پہلے پر نسپل رانا عبدالحمید خان نے اس جانب بھرپور توجہ کی ۔اس کے بعد امیر اختر بھٹی ،حاجی محمد یوسف ،غلام علی خان چین ،محمد شیر افضل جعفری ، دیوان الیاس نصیب ،مہر بشارت خان ،عاشق حسین فائق ،چودھری ظہور احمد شائق۔اﷲ دتہ سٹینو ،میاں اﷲ داد ،عبدالحلیم انصاری ،فیض محمدخان ارسلان ،سید جعفر طاہر ،کبیر انور جعفری ،ڈاکٹر محمد کبیر خان ،حکیم احمد بخش ،عبدالغنی (برتن فروش )اور سمیع اﷲ قریشی نے تراجم پر قابل قدر کام کیا۔عبدا لغنی (برتن فروش )نے بلھے شاہ کی ایک کافی کا اردو ترجمہ کیا ہے : میں نے ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کے ہم راہ آج سے تیس برس قبل عبدالغنی (برتن فروش )سے ملاقات کی تھی۔یہ زیرک تخلیق کار جھنگ شہر کے ایک بازار میں ایک خستہ حال دکان میں زمیں پر بیتھ کر پیتل ،تانبے ،سلور اورلوہے کے برتن فروخت کرتا تھا۔یہ عبدالغنی بھانڈیاں والاکے نام سے مشہور تھا۔اسے اس بات کا قلق تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں عرض ہنر کا کوئی فائد ہ نہیں ۔عبدالغنی (برتن فروش )نے بلھے شاہ کی کافی کا جو اردو ترجمہ کیا وہ پیش ہے :
بلھے شاہ --------------- اردو ترجمہ :عبدالغنی
علموں بس کریں او یار-------- علم سے نہ رکھ کوئی سرو کار
اکوالف ترے درکار ---------تجھے تو ہے حر ف الف درکار
علم نہ آوے وچ شمار ------ علم کوکس نے کیا شمار
جاندی عمر نہیں اعتبار ------- گزرتی زیست کا کیا اعتبار
علموں بس کریں اویار ----- علم سے نہ رکھ کوئی سرو کار
پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر-------- مطالعہ اور تصنیف کے پھیر
ڈھیر کتاباں چار چو پھیر ------- چاروں سمت کتب کے ڈھیر
کردے چانن وچ انھیر-------- نور میں ہیں ظلمت کے گھیر
پچھو راہ تے خبر نہ سار ------- راہ پوچھو تو نہ ہوش ،نہ اختیار
علموں بس کریں او یار ------- علم سے نہ رکھ کوئی سرو کار
پڑھ پڑھ علم مشائخ کہاویں ------- علم کے بل پر مشائخ کہلائیں
الٹے مسئلے گھروں بتاویں ------ خود ساختہ الٹے مسئلے بتائیں
بے علماں نوں لٹ لٹ کھاویں ---- جاہلوں کو یہ لوٹ کے کھائیں
جھوٹے سچے کریں اقرار ------ جھوٹے سچے کریں اقرار
علموں بس کریں او یار ------- علم سے نہ رکھ کوئی سرو کار
پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں ----- نوافل پڑھ کر نماز گزاریں
اچیاں بانگاں چانگاں ماریں ----- بلند پکاروں سے للکاریں
منبر تے چڑھ کے وعظ پکاریں ------- منبر پر چڑھ کر وعظ پکاریں
کیتا تینوں علم خوار -------- علم نے تجھ کو کیا ہے خوار
جد میں سبق عشق دا پڑھیا -------- جب میں عشق کا سبق یاد کرنے کے ہو گیا قابل
دریا ویکھ وحدت د ا وڑیا -------- وحدت کے دریا میں فوراً ہو گیا داخل
گھمن گھیراں دے وچ اڑیا ------ گرداب اور منجدھار نے ہوش کر دئیے مختل
شاہ عنایت لایا پار------ شاہ عنایت نے کیا بیڑا پار
علموں بس کریں او یار------- علم سے نہ رکھ کوئی سرو کار

جس طرح ولی دکنی اور شاہ سعداﷲ گلشن کی ملاقات کے بعد ولی دکنی نے فارسی اسالیب کو اردو میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی ، میرا قیاس ہے اسی طرح عبدالغنی (برتن فروش )کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈاکٹر محمد ریاض شاہد ے تراجم پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ۔ حیف صد حیف کہ عبدالغنی (برتن فروش ) اب اس دنیا میں موجود نہیں ۔اس کی دکان بند ہے اور اس کے ورثا کا بھی اتا پتا کسی کو معلوم نہیں ۔اس کا مکان اب کھنڈر بن چکا ہے اور ایام گزشتہ کی تاریخ کے بارے میں عبرت کی داستان سنا رہاہے ۔ اس کے تخلیقی کام کے مسودات اور مخطوطے بھی دستیاب نہیں۔سیل زماں کی مہیب موجوں میں اس کا علمی سرمایہ اور تخلیقی کام سب کچھ بہہ گیا۔کنج عزلت سے نکل کر گم نامی اور بے چارگی کے چیتھڑے اوڑھے ایک فعال تخلیق کارنشیب زینہ ئایام پر عصا رکھتا زینہ ء ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔عبدالغنی (برتن فروش ) نے آج سے نصف صدی قبل پنجابی کلاسیکی شاعری کو اردو شاعری کے قالب میں ڈھالنے کی جو شمع فروزاں کی تھی وہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی ۔ ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کی یہ کتاب اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جاسکتی ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اردو اں طبقہ اس کتاب کا خیر مقدم کرے گااور اپنے آبا کے ورثے کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔اس نوعیت کے تراجم فکر و خیال کی نئی راہوں کی جانب توجہ مبذول کرانے میں کلیدی کرادار ادا کرتے ہیِ۔اردو ادب کو پنجابی تہذیب و ثقافت کے گنج گراں مایہ سے روشناس کر کے مترجم نے جو کام کیا ہے وہ قابل قدر ہے ۔اس کے معجز نما اثر سے دو تہذیبوں کے درمیان معتبر ربط کے سلسلے کو تقویت ملے گی ۔
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 612966 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.