موسم کی دہشت گردی

سجی سجائی ، سولہ سنگھار کئے ہوئے ،بیوٹی پارلر سے آراستہ بہت پیاری سی دولہن انتہائی دیدہ زیب ملبوس اور زیورات میں، خوبصورت تازہ بھولوں سے آراستہ سٹیج پر پھولوں کے جھالر کے سہارے کھڑی فوٹو سیشن دے رہی تھی - فوٹو گرافر کے ھدایات کے مطابق مختلف پوز دئے جارہے تھے اور میں اسے انہماک سے دیکھ رہی تھی ٓ- سارا پنڈال بہترین طریقے سے آراستہ تھا آرایش اور سجاوٹ کا کمال فن - سٹیج پر جلتی بھجتی روشنیاں ، لمبے لمبے جھاڑ فانوس ہر طرف سجے ہوئے تازہ خوشنما گلیڈیالوز اور گلاب کے پھول -دولہن والوں نے دل کھول کر خرچ کیا - موسیقی کا شور زوروں پر تھا اور خواتین کا ناچ گلوکا روں کے آواز کے جادو کے ساتھ ساتھ جاری تھا- ڈی جے اپنی کارروائی میں مصروف تھے - ،پشتو، اردو کے مقبول عام نغمے اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی - ذرا دیر پہلے تک منگنی کی رسم جاری تھی دولھا دولھن نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی انکو سلامیاں دی گیئں ایک سے ایک ملبوسا ت،زیورات، زبردست چہل پہل لڑکی اپنے کزنز اور ساتھیوں کے ساتھ سٹیج پر آئی اور پھر لڑکا اپنی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ایک جھلملاتی جھالر -کے نیچے سے ہوتا ہوا آیا -اسکے آگے بہنوں اور کزنز کا ناچ جاری تھا - میری اس ثقافت میں سب کچھ حد سے ذرا بڑھ ہی جاتا ہے - جب میں نے " مائی بگ فیٹ گریک ویڈنگ" دیکھی تو مجھے اپنی پختون ثقافت اور شادیاں بہت یاد آئیں تھیں -یہ کوئی زیادہ آزاد خیال گھرانہ نہیں تھا ، اس ثقافت اور تہزیب میں اس قسم کی منگنی میں نے پہلی دفعہ دیکھی - یہان پر تو عام طور سے ایسی منگنیاں ہوتی تھیں کہ لڑکے لڑکی کا اس سے کوئی تعلق ہی نہ ہوتا تھا - بس خاندان والے آپس میں بات طے کر دیتے تھے مٹھا ئیان یا شیرینیاں تقسیم ہو جاتی تھیں، زیادہ سے زیادہ لڑکی کو لڑکے کی طرف کی خواتین انگوٹھی پہنا دیتیں اور لڑکے کی انگوٹھی کوئی اتنی ضروری رسم نہیں تھی- اور یہ مشتہر ہو جاتا تھا کہ فلاں فلاں کی منگنی ہو گئی ہے- شادی کی ادائیگی تک لڑکی کا لڑکے سے بلکہ لڑکے کے گھر والوں سے اور ایک زمانے میں تو خواتین تک سے بھی پردہ ہوتا تھا زمانہ کیا غضب اور قیامت کی چال چل گیا - دولہن کی ایک پھوپھی کہنے لگیں کہ کچھ عزیز ہمیں دقیا نوسی اور بیک ورڈ کہتے تھے - میڈیا کی اور مشرق و مغرب کی کرمفرمائی اور یلغار سے جب سارے ملک میں یہی تہذیب ہے یہی ثقافت پنپ رہی ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں - آخر کو ہمارا اور ہمارے بچوں کا بھی دل ہے اور خواہشات ہیں- میں یہاں شام تک بھاگم بھاگ پہنچی تھی اللہ بھلا کرے ہمارے نواز شریف کا کہ اسنے ایک مثبت تعمیراتی کام کیا اور موٹر وے بنوادی - سفر کی کیا سہولت ہوگئی ہے - موٹر وے پر آکر میں اللہ کا کتنا شکر ادا کرتی ہوں یوں لگتا ہے ایک ترقی یافتہ ملک کے باسی ہیں موٹر وے کے اپنے قوانین ہیں سیٹ بیلٹ کی پابندی( جس سے پاکستانیوں کو یوں لگتا ہے جیسے انہیں قید کر دیا گیا ہو اور مجھے لگتا ہے جیسے میں اسکے بغیر غیر محفوظ ہوں زیادہ تر ڈرایئور ز موٹر وے سے اتر کر پہلا کام سیٹ بیلٹ کھولنے کا کرتے ہیں) - مقررہ حد رفتار اور اس سے بڑھنے پر جرمانہ ، موٹر وے پولیس کایہ ڈھنگ بھی باقی پولیس سے نرالا ہے کہ وہ کوئی مک مکا بھی نہیں کرتے- ہاں وہ کیمرے لیکر بیٹھنے والا طریقہ انوکھا ہے- ترقی یافتہ ممالک میں کیمرے کہیں کھمبے وغیرہ پر نصب ھوتے ہیں جبکہ یہاں پولیس کی ایک ٹولی کیمرہ لیکر بیٹھے ہوتے ہیں- ایمرجنسی فون نمبر اور سسٹم جسکے اوپر شمسی توانائی کے پینل لگے ہوئے ہیں - دونوں جانب ہر یالی اور کھیت - ٹول ٹیکس ہے لیکن اس سہولت کے پیش نظر ہیچ ہے- لیکن موٹر وے سے اتر کر بے ہنگم ٹریفک میں داخل ہوکر ، دھواں دھار گاڑیوں کے بیچ سارا نشہ ہرن ہوتا ہے - اگر سڑک صاف ہے تو اللہ کا شکر ورنہ مارے گئے اس مرتبہ پشاور میں اللہ کی بیحد مہربانی تھی کہ مجھے رواں ٹریفک ملی اور دو سال پہلے کی بہ نسبت کچھ سڑکیں بہتر لگیں پشاور میں داخلے پر پل کے نیچے ایک بڑی تصویر بشیر بلور شہید کی اس پشتو شعر کے ساتھ ہے
د پختون پہ خاورہ امن راتہ راکہ
ربہ نورے دعا گانے م واپسکہ
پختون کی مٹی میں ہمیں امن عطا کردے
اے رب ہماری باقی دعاؤں کو بیشک لوٹادے-

اس سے کچھ آگے جاؤ تو صفت غیور شہید چوک ہمیں خوش آمدید کہتا ہے - اب اس خانہ جنگی اور دہشت گردی میں کون غازی اور کون شہید؟ یہ اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے لیکن شہر ،اسکی چہل پہل اور حد سے زیادہ رواں دواں زندگی کو دیکھ کسی بدامنی ، دہشت گردی اور انتشار کا قطعی احساس نہیں ہوتا ، محض وہ بد نصیب جو اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں- - اس منگنی میں ایک تو میں بہت چاہت سے مدعو تھی لیکن اہم بات یہ تھی کہ دلہن اسکے والد اور والدہ تینوں محض دو ماہ پہلے اسی موٹروے پر چارسدہ انٹر چینج کے پاس ایک ڈکیتی کی کوشش میں فائرنگ سے بری طرح زخمی ہوگئے تھے انکی تقدیر اچھی تھیں کہ فورا ہسپتال پہنچا دئے گئے تینوں کے لمبے چوڑے آپریشن ہوئے ، خون چڑھایا گیااور کئی روز ہسپتال میں گزار کر پوری طرح صحت یاب ہوگئے - سارا خاندان متحرک تھا اور یہ تقریب ایک طرح سے اپنی اکلوتی بیٹی کی صحت یابی کا جشن تھا-ابھی بیروں نے میز پر پہلی ڈش رکھی تھی کہ اچانک ایک زوردار جھکڑ سے پورا پنڈال لرز اٹھا اور سٹیج کے پیچھے کی پوری دیوار دلہن پر آ گرٰی مین چینخ مار کر اسکی طرف بڑھی اسے کچھ چوٹیں آئیں لیکن اللہ کے فضل سے محفوظ تھی -جبکہ باقی تمام خواتین نے باہر بھاگنا شروع کیا ے پورے پنڈال میں ایک زلزلہ سا آگیا یوں ،ساتھ ہی ساتھ بجلی غائب جو ایک طرح سے اچھا ہوا ورنہ آگ لگ سکتی تھی - عورتوں اور بچیوں کی چینخیں، میں نے انکو مشورہ دیا کہ سب استغفار پڑھیں- خطرہ تھا کہ کوئی زخمی نہ ہو تمام جھاڑ فانوس پھول ہوا سے بری طرح اڑ رہے تھے اسی کے ساتھ تیز بارش اور گرج چمک -اس ہنگامے میں میں اپنی گرم چادر وہیں بھول آئی جو بالاخر نہ مل سکی-اللہ کا شکر ہے کہ تمام لوگ محفوظ رہے- ہم نے ایک کار کے اندر پناہ لی لوگوں نے گھروں کو جانا شروع کردیا - ذرا سی دیر میں وہ تمام سجاؤٹ اور آرائش ایک تباہ حال میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا اسوقت کسی فوٹوگرافر کو ہوش نہیں تھا کہ وہ موسم کی اس دہشت گردی کی تصویر اتارتا مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ایک بگولا تھا جسے ہم ٹورنیڈو یا ٹویسٹر کہتے ہیں اس ساری کارروائی میں تحریک طالبان کا یقینا کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن تمام موسموں کو قابو میں رکھنے والی ذات اہماری خطاؤں کو در گزر فرمادے اور ہم پر رحم فرمادے-

Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235163 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More