تعلیمی قوال

پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں نظام تعلیم ہمیشہ سے تجربات کی آماجگاہ رہا ہے اس نظام کو پے در پے تجربات نے ایک مذاق بنا کر رکھ دیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم علمی ، ادبی، سائنسی، معاشی، معاشرتی اور میڈیکل کی ترقی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اتنا پیچھے کہ آثار بھی دور دور تک دکھائی اور سجھائی نہیں دیتے۔ہماری کوتاہیوں، خامیوں، خودغرضیوں اور نااہلی کی گرد اتنی دبیز ہوچکی ہے کہ ہم اپنا تعلیمی ماضی یکسر گنوا چکے ہیں۔ اور آج تک ’’قوال‘‘ بھی نہ بن سکے۔ کیونکہ جب کوئی سے سرا شاگرد اپنے استاد سے گائیکی کا گر سیکھنے آتا ہے تو اکثر اس کو سن کر بے اختیار بھگا دینے کو دل چاہتا ہے لیکن اگر یہی شاگرد دل جمعی سے اور تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے راگ الاپتا رہے تو ایک دن گویا اور قوال بن ہی جاتا ہے مگر اس میں شرط شوق اور لگن و جستجو کی ہے۔

ہم تقریبا عرصہ66 سال سے پاکستان میں نظام تعلیم کو درست کرنے اور اس میں بہتری لانے کا بے سرا راگ الاپتے آرہے ہیں مگر آج تک تعلیمی قوال نہ بن سکے۔ہمیں آج تک معلوم ہی نہ ہوسکا ہے کہ تعلیم کی بنیادی ضروریات کیا ہے۔ ہمارے لئے ملک و قوم کیلئے تعلیم کس قدر حیثیت و اہمیت کی حامل ہے۔معاشرے میں، انسانی تخیلات میں، ترقی و خوشحالی میں، صحت و تندرستی میں تعلیم کا کیا مقام و درجہ ہے؟ بس ہر روز بے سود و بے تکان تجربات کئے جارہے ہیں۔اب ایک نیا کٹا پنجاب حکومت کی طرف سے پھر کھولاجارہا ہے کہ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کو اختیارات دے کر ’’ہولی سولی‘‘ بنایا جارہا ہے جس کا مقصد طالب علموں کی انرول منٹ، سو فیصد حاضری، سو فیصد شرح خواندگی،اساتذہ کی کھپت، ان کی ایڈجسٹ منٹ، تقرر و تبادلے جیسے امور کے اختیارات تفویض کرکے نظام کو بہتر بنانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ اس سیٹ اپ میں ضلع کی سطح پر مندرجہ بالا تمام معاملات کو ایک پرائیویٹ ماہر تعلیم(اس کی تعلیمی قابلیت بھی سوالیہ نشان)اور بلدیاتی انتخابات سے منتخب ہونے والے سیاسی افراد بھی شامل ہونگے۔اور ان تمام معاملات میں تن من سے دھن کی خاطر اپنے ’’فرائض منصبی‘‘انجام دیں گے بھی اور دلوائیں گے بھی۔یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کے پیش نظر اساتذہ کے درمیان ایک کھنچاؤ اور احتجاج کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ وہ اساتذہ جو کہ بڑی کوشش کے بعد واپس درس و تدریس میں مشغول ہوئے تو ایک بار پھر انہیں سڑکوں پر لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔سسٹم کو شفافیت اور درست کرنے کی آڑ میں اسے مزید گدلا، غیرشفاف اور غلط نہج پر لے جایا جارہا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر تعلیمی معاملات کو بہتر بنانا ہے تو پھر اپنی(ہماری) پسند کے بلدیاتی امیدوار کو کامیاب کرایا جائے۔یعنی ابھی سے سیاسی اثر و رسوخ کو شامل تعلیم کیا جارہا ہے کیونکہ استاد جیسا بھی ہو اس کا عمل دخل کسی نہ کسی حد تک طالب علموں اور ان کے توسط سے والدین تک لازمی پہنچتا ہے بالخصوص دیہی علاقوں میں تو یہ پریکٹس بہت زیادہ عام ہے۔

ابھی سے راہ ہموار کیجارہی ہے۔ اسے سراسر سیاسی مفادات کا منبع بنایا جارہا ہے۔جس کی بناپر تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کی بجائے سیاسی دنگل ہوا کریں گے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اساتذہ کسی بھی کام کے سلسلے میں سیاسی ڈیروں کو رونق کو دوبالا کریں گے۔ سکولوں میں اصطبل، بھانے اور گودام بننے لگے گیں اور دن کے اوقات میں بھی الو بولا کریں گے(خاکم بدہن)۔اصلاح کی بجائے فسادات کو فروغ ملے گا۔یکساں نصاب تعلیم اور یکساں نظام تعلیم کا خواب دھندلاجائیگا۔لابی ازم کو تقویت ملے گی۔ ٹینشن بڑھ جائے گی۔ ہیڈ ماسٹر ،اساتذہ اور انتظامیہ کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوجائے گی۔مفادات کی جنگ اور تحفظ حقوق کی خاطر معلم درجہ بندیوں میں منقسم ہوجائیں گے۔تعلیم و تدریس اور طلبا کا مستقبل مزید تاریک ہوجائیگا۔تمام قابل احترام اساتذہ پر بے فیض تلواران پڑھ اور گنوار نمائندوں کی شکل میں لٹکتی رہے گی ان میں ایسے لوگ بھی ہونگے جو شاید کبھی سکول کے قریب سے بھی نہ گزرے ہوں اور آج وہ تعلیم اور ان کے معاملات بارے میں لائحہ عمل مرتب کریں گے۔سبحان اﷲ واقعی ذات باری تعالی کے عجیب فیصلے ہیں۔

وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف اور ان کی عقل و خرد سے مزین ٹیم سے دست بستہ عرض ہے کہ اس طرح کی لا حاصل کوششوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔وہ موجودہ نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے اقدامات کریں۔ نظام میں بہتری اور اصلاح کیلئے مخلص، دیانتدار اور سینئر اساتذہ سے مشاورت کرکے لائحہ مرتب کیا جائے۔قصہ مختصر گورنمنٹ کا یہ اقدام نہایت ہی غیرمستحسن ہے اس کی وجہ سے نئی الجھنیں پیدا ہونگی۔ تعلیمی سلسلے تعطل کا شکار ہوجائیں گے۔نظام تنزلی کی جانب مزید جھک جائیگا۔مزید یہ کہ حکومت اپنی سابقہ کارکردگی سے بھی سبق لے۔کیونکہ تعلیمی قوال بننا ہوتا تو اب تک کے تجربات سے بن چکے ہوتے ۔لہذا موجودہ نظام تعلیم جو کہ EDO ایجوکیشن کے تحت چل رہا ہے اس کو بہترانداز میںimplement کیا جائے ورنہ تو پھر احتجاج، جلسے جلوس اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجائیگا جس سے مستقبل و مقدر مزید تاریک ہو جائیگا۔میاں صاحب۔براہ کرم! آپ لیڈر بننے کی کوشش کریں نہ کہ سیاستدان۔ کیونکہ پاکستان کو سیاستدان ابھی تک کو راس نہیں آئے۔لہذا اہل دانش کو آگے آنے دیں اور اہل زر کو پیچھے ہی رکھیں۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193206 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More