نیپال کا ایک سفر قسط نمبر 3

اس دور افتادہ گاؤں میں کمیونٹی ریڈیو چلانے کی تحریک گو کہ خود کمیونٹی نے کی تھی لیکن بعض مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھر پور تعاون کیا ، یونیسکو اس ریڈیو کا سب سے بڑا ڈونر تھا ، جو کہ اب تک ہے ، کمیونٹی نے اس ریڈیو کو چلانے کیلئے ایک منیجمنت بورڈ بنا رکھا ہے جس کے 17ممبران ہیں ، جبکہ 5رکنی ورکنگ کمیٹی بھی بنا ئی گئی ہے جو ریڈیو کے معاملات کو دیکھتی ہے ۔ ہر ماہ اس بورڈ کا اجلاس ہو تاہے جو مختلف فیصلہ جات کرتاہے ۔ کمیونٹی ریڈیو چلانے کیلئے اپنا جو شیئر ڈالتی ہے اس میں ایک مٹھی چاول روزانہ بھی شامل ہیں جو کہ ہر گھر میں علیحدہ کئے جاتے ہیں اور پھر سال کے آخر میں اسے فروخت کر کے رقم ریڈیو کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ جنگلات کے تعاون سے ہر سال جو شاخ تراشی ہوتی ہے ا س کی آمد ن بھی ریڈیو کو دی جاتی ہے ، کمیونٹی اس ریڈیو سے جو فائدہ اُٹھاتی ہے اس میں آن لائن ٹیوشن ، کھیتی باڑی کے جدید اصول اور حالات حاضرہ سے متعلق واقفیت جیسے پروگرام شامل ہیں جو ہر ر وز دو ،دو گھنٹے کا ہوتاہے اور ہر روزعلیحدہ علیحدہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں ، ریڈیو کی آمدن کا ایک ذریعہ عطیات بھی ہیں جو کمیونٹی کے لوگوں کے علاوہ ریڈیو کے سیر کیلئے آنے والے دور دراز کے وفود دیتے ہیں ، ریڈیو ان کیلئے ایک قسم کی سیر گاہ ہے ، اس ریڈیو سے نیپالی زبان کے علاوہ مقامی زبانوں میں بھی پروگرام ہوتے ہیں جبکہ 24گھنٹوں میں 2بار کھٹمنڈو سے براہ راست سیٹلائیٹ کے ذریعے قومی خبریں بھی پیش کی جاتی ہیںیہ وہ ساری باتیں ہیں جو ہمیں پہلی ہی بریفنگ میں اسٹیشن منیجر گنہکار آریال نے بتائیں، ہمیں اس ریڈیو پر 15دن گزارنے تھے ، شیڈول کے تحت ہمیں ریڈیو کے مختلف شعبہ جات میں کام ہوتے دیکھنا تھا اوراپنی معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ا س پر ایک رپورٹ بھی تیار کرنی تھی ، زیادہ زور اس بات پر تھا کہ آیا ریڈیو کمیونٹی کو فائدہ پہنچانے میں کس قدر سود مند ثابت ہو رہا ہے ، ہمیں ریڈیو کے سامعین سے بھی ملاقات کا موقع ملا ، ریڈیو کے منیجمنٹ بورڈ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور پھر ریڈیو سننے والوں کے ایک سو کے قریب قائم کئے گئے کلبوں میں سے بعض میں جانے کا بھی موقع ملا ، اس دوران ہمارا قیام وہاں دو علیحدہ علیحدہ خاندانوں کے ساتھ تھا ، میں جس فیملی کے ساتھ Paying Guestتھا وہ ہندو فیملی تھی اور ریڈیو کی عمارت سے 5منٹ کی مسافت پر ان کا گھر تھا ، ریڈیو کے منتظمین نے ان کے ساتھ معاملات طے کروائے تھے ، وہ 3سو روپے روزانہ لیتے تھے جس میں رہائش کے لیے کمرہ ، دو وقت کا کھانا اور ناشتہ شامل تھا ، گھر کامالک محکمہ تعلیم کا ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تھا جسے پاکستان سے کوئی زیادہ واقفیت نہ تھی ، البتہ فوجی حکمرانوں کے بعض کارنامے اسے زبانی یاد تھے وہ ان معاملات میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔ اس کی اہلیہ ہی گھر کا نظام چلاتی تھی اور میرے ساتھ حساب کتاب بھی وہی کرتی تھی، انتہا درجے کی وضع دار خاتون تھی یہ اور مہمان نوازی میں اس کا کائی ثانی نہ تھا ، کسی ملکیتی گھر میں رقم دے کر مہمان ٹھہرنے کا میر ا یہ پہلا تجربہ تھا ، لیکن مدن پوکھرا میں یہ عام رواج ہے اور اس طریقہ کار سے یہ لوگ ماہانہ اپنی آمدن میں اضافہ کرتے ہیں ، روحیلہ ایک دوسرے خاندان کے ساتھ رہتی تھی وہ گھرانہ قدرے زیادہ پڑھ لکھا تھا ، اور اس گھر کے مالک کو تاریخ پر خاصاعبور حاصل تھا، 15دنوں تک اس گاؤں کے متعلق خاصی معلومات حاصل ہوئی ، ریڈیو ہی کی وساطت سے اس گاؤں کے مغربی حصے میں گئے جہاں پیدل یکطرفہ دو گھنٹے کا راستہ تھا، یہاں ’’مگر‘‘خاندان آباد ہے جو ’’سور ‘‘ کا کاروبار کرتے ہیںِ، انہیں پالتے ہیں اور پھر فروخت کرتے ہیں ، مختصر سے نفوس پر مشتمل یہ خاندان آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے یہی کام کرتا ہے ، خواتین گھریلو صنعت سے بھی وابستہ ہیں، اس خاندان کے لوگ شہر میں کم جاتے ہیں، زیادہ یہیں کام کرتے ہیں، پالپا ضلع میں غیر سرکاری تنظیمیں بڑی فعال ہیں، کسانوں کو کھیتی باڑی کے نت نئے طریقہ کار بتانے سے لیکر ان کی ہر طرح کی معاونت کرنے تک پیش پیش ہیں، مدن پوکھرا گاؤں میں کاشت کیا جانے والا ٹماٹر بھارت تک فروخت کیلئے جاتاہے ، ٹماٹروں کے کھیت دیکھنے کے قابل تھے ، گاؤں کے کسانوں کی ہر بدھ کو ایک میٹنگ ہوتی ہے ریڈیو ان کی بڑی معاونت کرتا ہے۔کمیونٹی ریڈیو میں 27لوگ مختلف شفٹوں میں کام کرتے تھے ، ریڈیو کی نشریات کا دائرہ کار خاص وسیع تھا ، اسے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے ساڑھے آٹھ ہزار فٹ پر نصب ٹاور سے منسلک کیا گیا تھا ، یہیں پر ہماری ملاقات نرمال شرما سے ہوئی جو ریڈیو پر نیپال ، انڈیا تعلقات کے موضوع پر ہفتہ وار پروگرام کرتے ہیں، یہ ایک پالیسی ساز پروگرام ہوتاہے ، ساتھ ہی نوجوان نسل کو ان تعلقات کی اہمیت سے آگاہ بھی کرنا ہوتاہے ، نرمال کی خاصی سٹیڈی تھی، اور اسے تاریخ سے خاصی دلچسپی بھی تھی۔ وہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھا ، اس کا خیال تھا کہ تقسیم سے بھارت کمزور ہواہے ، ہمیں اس کے گھر جانے کا اتفاق بھی ہوا ، یہ خاصی لبرل فیملی تھی ، ان کی چار بیٹیوں میں سے دو نے ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی تھی ایک بیٹی نے یونیسف کے تعاون سے بچوں کے حقوق پر نیپالی زبان میں کتاب لکھی ، جسے ایوارڈ ملا ، نرمال خود بھی کئی کتابوں کے مصنف تھے ، وہ معروف نیپالی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں، نرمال نے گھر میں ہی ایک لائبریری بنا رکھی ہے جس میں زیادہ تر تاریخی کتب تھیں ان کی لائبریری میں ثقافت وکلچر کے موضوع پر بھی خاصی کتابیں تھیں، اس کے علاوہ قرآن پاک کا ہندی زبان میں ترجمہ بھی اسکی لائبریری میں موجود تھا۔ 150زبانوں میں مختلف ڈکشنریاں بھی اس لائبریری میں تھیں۔

مدن پوکھرا میں گزرے 15دن بڑے اہمیت کے حامل تھے ، وہاں ہماری ملاقات نیپالی کانگریس کے ایک ممبر اسمبلی سے ہوئی انہوں نے ہمیں اپنے گھر مدعو کیا تھا( نام یادنہیں) وہ نیپال میں بننے والی نئی حکومت کی اس کمیٹی کے ممبر بھی تھے جس نے نیپال میں ایک جمہوری حکومت کا آئین تیار کر نا تھا ، اپنے گھر میں انہوں نے متعدد جنگلی جانور پنجرے میں قید کر رکھے تھے جو ان کا شوق تھا ، نیپال میں جنگلی جانوروں کو پنجرے میں قید کرنا قانوناً جرم ہے ، یہی سوال میں نے ان کے سامنے رکھا تو ان کا جواب تھا ’’ بس یہاں سب چلتاہے‘‘ان کے اس جملے سے مماثلت میں آسانی ہوئی کہ جنوبی ایشیا کے اکثریتی ممالک جن میں پاکستان سر فہرست ہے ایک ہی طرح کے مزاج کے لوگ ہیں ، مذکورہ ممبر نیپال کا مستقبل بڑا روشن دیکھ رہے تھے ، اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر رہے تھے کہ نیپال میں ماؤ کمیونسٹ کبھی اکیلے حکومت نہیں بناسکتے، نیپالی کانگریس پارلیمنٹ میں دوسری بڑی جماعت تھی۔ ہمیں ریڈیوسے رخصت کرنے سے پہلے ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں ریڈیو سے متعلق سٹاف کے علاوہ کمیونٹی کے سرکردہ افراد نے بھی شرکت کی ۔ ہمیں وہاں اظہار خیال کا موقع بھی ملا اور ہمیں تحفے تحائف بھی دیئے گئے جن میں ’’مگر‘‘ خاندان کا تیار کردہ ’’ ڈھاکہ ‘‘ کپڑا بھی شامل تھا ، ڈھاکہ کپڑا وہاں تحفہ دینے کیلئے بڑا مشہور ہے ۔ خوبصورت نظر آنے میں یہ کسی کا ثانی نہیں ، کپڑے کا نام ڈھاکہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ قریباً 50سال قبل یہاں ڈھاکہ سے ایک خاندان آیا اور مستقل آباد ہو گیا، وہ گھر کے ا ندر چھوٹے پیمانے پر کپڑا تیار کرتے تھے اور بعد ازاں اس کاروبار کو وسیع کرتے گئے ، اب شاید ان کے خاندان کا کوئی زندہ ہی نہ ہو لیکن کپڑا تیار کرنے کی ٹیکنالوجی یہیں چھوڑ گئے جس کی وجہ سے ’’ڈھاکہ‘‘ نام کا کپڑ�آج بھی بہت مشہور ہے ، اس کپڑے سے خواتین کے سوٹ کے علاوہ واسکٹ، مفلر اور ٹائی بھی تیار کی جاتی ہے۔
Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 38720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.