روشنیوں کے شہر میں اندھیرے اور سائے

روشنیوں کے شہر میں روز بروز اندھیرے اور سائے بڑھ رہے ہیں، قانون اور ضابطہ شاید ہی کہیں نظر نہیں آتا ہو اور ہمدردی اور رواداری کا قحط سنگیں ہو چلا ہے۔ لوگوں میں عدم تحفط کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی میں مختلف گروہوں کے مفادات بڑھ گئے ہیں، ان مفادات کے آپس میں ٹکراؤ اور گروہوں کے آپس میں نت نئے روابط اور صف بندیوں نے صورتحال کو کشیدگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انیس سو نوے کی دہائی میں اور ۹۰۰۲ میں فرق اتنا ہے کہ پہلے جب سیاسی طور پر غیر یقینی کی فضا تھی اس وقت اس قسم کے واقعات میں جن لوگوں کی اموات ہوتی تھیں ان کی بوری بند لاشیں ملا کرتی تھیں اور آج دن دھاڑے کسی بھی مقام پر قاتل اپنا وار کرجاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر واقعات کے پیچھے سیاسی ہاتھ اور سازش تلاش کی جاتی ہے لیکن قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ پہلے کورنگی، لانڈھی، ملیر، اور لیاری علاقوں میں یہ وارداتیں ہوتی تھیں۔اب لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی، شاہ فیصل، سعیدآباد، رامسوامی، جیسے علاقوں میں یہ وارداتیں ہوتی ہیں۔

وزیر داخلہ کے کراچی میں آنے اور ان کی جانب سے ان واقعات پر سخت ایکشن کا سن کر میں تو کانپ اٹھا تھا۔ کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی قتل ہوا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے کراچی والے صدر آصف علی زرداری کی آمد پر بہت خوش ہوئے تھے۔ کیوں کہ ان کی کراچی آمد کے بعد لوڈ شیڈنگ بند ہوگئی تھی۔ رحمان ملک صاحب کی آمد پر بھی کراچی والے خوش تھے کہ اب یہ قتل وغارت گری کا سلسلہ اب بند ہوجائے گا۔ کیوں کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اب جب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ میں یہاں سے نہیں جاﺅں گا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ سارے خواب سچے ہوں۔ اٹھارہ اکتوبر کو پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کے استقبالی جلوس پر حملے اور ایک سو چالیس افراد کی ہلاکت کے واقعے، نشتر پارک بم دھماکے اور بارہ مئی جیسے بڑے واقعات پرانے تو ہوگئے ہیں لیکن ان واقعات سے دہشت زدہ ہو کر عام شہری کر سہم کر رہ گیا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر کراچی ہے۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر میں روزانہ ہونے والی، ہلاکتوں، دہشتگردی اور خوں ریزی کے تمام واقعات کے لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ جو لوگ اخبار نہیں پڑھتے وہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ علاقے میں لوگوں سے یہ خبر سنتے ہیں۔ ان میں غصے، خوف،دہشت کی کیفیت پیدا ہوتی ہیں۔ شہریوں میں ڈپریشن اور بے خوابی کی شکایت بڑھ رہی ہیں۔ رویہ میں بھی چڑ چڑا پن آگیا ہے۔ بظاہر ان واقعات کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا ہے۔ مگر ایسے کئی لوگ ہیں۔ جن کے ذہنوں پر ہلاکتوں، دہشتگردی اور خوں ریزی کے ان واقعات نے منفی اور مضر اثرات ڈالے ہیں۔ فوری طور پر ان کی شدت ظاہر نہیں ہوتی لیکن یہ زندگی کا روگ بن جاتے ہیں۔ کراچی میں گزشتہ ایک دہائی سے بم دھماکوں اور خون ریزی کے واقعات اور عدم تحفظ کے احساس سے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کا حافظہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ یہ ڈر اور خوف ہے اسے ہم نے اپنے اندر دبا دیا ہے، بظاہر بہادری کے ساتھ آ جا رہے ہیں مگر یہ ڈر اور خوف یادداشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

جب بہت ساری پریشانیاں لاشعور میں چل رہے ہوں تو وہ صحیح طور پر ریکارڈ نہیں ہوتیں، اور جب اسے پلے کرتے ہیں تو صحیح پلے نہیں ہوتی اور بھول جاتے ہیں۔‘ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا مگر ہر تخریب کاری اور خونریزی کے واقعات کے بعد عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ ہر کوئی پریشان رہتا ہے کہ میرا بچہ، میرا خاوند، میری بیوی، بچی گھر سے باہر گئے ہیں، پتہ نہیں وہ واپس آئیں گے یا نہیں؟ کوئی دشواری تو نہیں ہوگی؟ کراچی میں موبائل٬ ٹیلیفون کی اتنی خریداری ہوئی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے رابطہ قائم رہ سکیں۔ پہلے کراچی کے لوگوں کے مسائل میں بیروزگاری اور رہائش کا تھا۔ سکیورٹی کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کرتا تھا، مگر اب آپ کوئی بھی سروے کریں اس میں سکیورٹی سب سے اہم ایشو کے طور پر سامنے آتا ہے۔

رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران کراچی میں تقریباً ایک سو سیاسی کارکن قتل ہوئے ۔ جون میں ۷۴ ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ جولائی میں اب تک ۲۳ سیاسی کارکن قتل ہوچکے ہیں۔ جبکہ 2008ء میں 74 سیاسی کارکن قتل ہوئے تھے۔ یہ بات ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سندھ چیئرمین کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے گزشتہ سال کے 74 سیاسی کارکنوں کے قتل کے مقابلے میں رواں سال میں 100 سیاسی کارکن قتل ہوئے جن میں سے مہاجر قومی موومنٹ کے 38، متحدہ قومی موومنٹ کے 28، پیپلز پارٹی کے 11، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) کے 10، سندھ ترقی پسند پارٹی کے 4، تحریک طالبان کے 2، پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے 2، جماعت اسلامی کے 2 اور پاکستان مسلم لیگ ( فنکشنل )، جئے سندھ قومی محاذ اور پنجابی پختون اتحاد کے ایک ایک کارکن شامل تھے۔ سیاسی کارکنوں کا قتل یوں بھی کراچی کے لئے تباہی کا باعث ہورہا ہے کہ اب لوگ سیاست سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جو شعبہ کبھی خدمت، ایثار،سے عبارت تھا وہ اب لہو رنگ ہے۔ اور کراچی جو کبھی ملک کی سیاست کو لیڈ کرتا تھا۔ اب یہاں دور دور تک کوئی ملک گیر بڑا سیاسی لیڈر نظر نہیں آتا۔ کراچی ایسا تہی دامن تو بھی نہیں رہا تھا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391839 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More