غازی علم الدین

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ ء بطحا کی حرمت پہ
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

31اکتوبر 1929کو وہ دن آ پہنچا جس کیلئے علم الدین کی جان بے تاب تڑپ رہی تھی رات علم الدین نے ذکر الٰہی اور تہجد میں گزاری اور طلوع سحر پر انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز فجر ادا کی میانوالی جیل کا مجسٹریٹ ، داروغہ جیل اور مسلح سپاہیوں کے ہمراہ استقبال کیلئے کوٹھڑی کے دروازے پر موجود تھا مجسٹریٹ نے اس اکیس سالہ نوجوان سے پوچھا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے تو اس مرد آہن نے دو رکعات نماز نفل کی اجازت طلب کی ۔دو رکعات نماز نفل ادا کرنے کے بعد یہ عاشق رسول ﷺ تختہ دار کی طرف روانہ ہوا۔اس وقت جیل کے قیدی اپنی اپنی کوٹھڑیوں اور بارکوں میں اس عاشق رسول ﷺ کی آخری جھلک دیکھنے کیلئے تعظیماً کھڑے تھے ۔سب کو الوداع کہنے کے بعد مقتل میں پہنچ کر جب تختہ دار کو دیکھا تو فرط مسرت سے جھوم اٹھے پھر تیزی سے تختہ دار کی طرف بڑھے اور شوق میں چاہا کہ پھانسی کے پھندے کو خود اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈال لیں لیکن خلاف زشریعت جان کر فوراً رک گئے اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا’’ لوگوں گواہ رہنا میں نے ہی راج پال کو حرمت رسول ﷺ کی خاطر قتل کیا تھا اور آج اپنے نبی پاک ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہوئے انکی خاطر اپنی جان نثار کررہا ہوں ‘‘یہ کہہ کر اس پروانہ نبوت نے اپنی جان عزیز ناموس مصطفیٰ ﷺ پر نچھاور کی ۔

غازی علم الدین شہید ؒ 3دسمبر 1908کو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا ہوئے والد کا نام میں طالع مند تھا جو نجار ی یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمد الدین سے سیکھا پھر 1928میں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔جب علم الدین ؒ پیدا ہوئے تو اسکی ماں کی گود میں دیکھ کر ایک فقیر نے بشارت دی کہ تم لوگ بڑے ہی خوش قسمت ہو کہ ایسا نیک بخت بچہ تمہارے گھر پیدا ہوا ہے

مہاشہ کرشن مدیر پرتاپ لاہور نے ایک کتاب رنگیلا رسول کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے کیلئے اپنے بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف لکھ دیا تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور واضح لکھا ہوا تھامسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی جس کے انکار پر مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہو گئی جس نے برصغیر پاک و ہند کی گلی گلی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جب حکومت وقت نے اس خبیث ناشر کے بارے میں کوئی لائحہ عمل نہ کیا تو مسلمانوں نے اس ناشر کے خلاف دفعہ 153الف کے تحت فرقہ ورانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمی دائر کیا جس پر مجسٹریٹ نے ناشر راج پال کو چھ ماہ قید کی سزا دی مگر اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ نے اس کو رہا کر دیا۔اس رہائی پر مسلمانوں کے غم و غصہ میں اور اضافہ ہوا جس پر مسلمانوں نے جلسے جلوس کئے متعد د جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ 144نافذ کر دیا اور بے شمار مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر لیا ۔

فرنگی حکومت سے مایوس ہونے کے بعد مسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم ارادہ کیا چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کیلئے سب سے پہلے ایک نوجوان غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا ۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دکان پر جا پہنچا اتفاق سے اس وقت دکان پر راج پال نہیں بیٹھا تھا بلکہ اسکی جگہ اس کا ایک دوست جتندر موجود تھا ۔عبدالعزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا انگریز حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی راج پال اپنے آپ کو ہر وقت خطرے میں محسوس کرتا تھا اسکی درخواست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالدار اس کی حفاظت کیلئے متعین کئے گئے راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا ، کاشی اور متھرا چلا گیا لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر دیا ۔

علم الدین کا ایک بچپن کا ساتھی عبدالرشید تھا جسے سب پیار سے شیدا کہتے تھے شیدا کے والد کی دکان مسجد وزیر خان کے سامنے واقع تھی ایک دن دونوں دوست گھر سے شام کے وقت جب مسجد وزیر خان پہنچے تو وہاں شیطان راج پال کے خلاف تقریریں ہورہی تھی جس میں یہ اعلان ہو رہا تھا کہ مسلمان اپنی جانیں قربان کر دیں گے مگر اس مردود راج پال کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔یہ تقریریں سن کر دونوں دوست عشق محمد ﷺ سے تڑپ اٹھے اور دونوں دوست اپنے اپنے گھروں کی طرف خاموشی اور بھاری بھاری قدموں سے چل پڑے ۔گھر پہنچ کر علم الدین نے اپنے والد طالع مند سے پوچھا ’’ کیا کوئی شخص جو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے وہ زندہ رہ سکتا ہے ؟؟اس پر آپ ؒ کے والد نے کہا ’’بیٹا مسلمان اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے ‘‘اس سوال کا جواب سن کر علم الدین کچھ دیر خاموش رہے اورپھر والد سے ایک اور سوال پوچھا’’ کیا اس راج پال کو مارنے والے کو سز ا ملے گی ؟؟اس پر آپ کے والد نے کہا ’’ ہاں یہاں گوروں کے قانون کے مطابق اسے پھانسی کی سز ا ملنی چائیے‘‘ان سوالات کے جوابات سن کر علم الدینؒ بے چینی سے بستر پر لیٹ گئے اور آنکھ لگ گئی ۔

اسی رات علم الدین ؒ نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ ان سے کہہ رہے تھے کہ علم الدین دشمن نے تمہارے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی اور تم ابھی تک سو رہے ہو اٹھو اور جلدی کرو ۔یہ خواب دیکھ کر وہ فدائی رسول ﷺ فوراً اٹھا اور اپنے اوزار لے کر صبح سویرے اپنے دوست شیدا کے پاس پہنچا دونوں دوست بھاٹی دروازے کے سامنے والے کھلے میدان میں جاکر بیٹھ گئے علم الدین کی خاموشی کو بھانپتے ہوئے شید انے علم الدین سے خاموشی کی وجہ دریافت کی جس پر علم الدین نے رات والا خواب اپنے دوست کو سنا دیا جس کے جواب میں شیدا حیران ہوا اور بولا کہ اس نے بھی رات کو بالکل ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔اب ایک دوسرے کو خواب سنانے کے بعد ان دونوں میں تکرار شروع ہوگئی دونوں کا اصرار تھا کہ اس موذی کو مارنے کی بشارت اسے ہوئی ہے لہذا فیصلہ کیا گیا کہ قرعہ ڈالا جائے تین بار قرعہ ڈالا گیا تو تینوں مرتبہ علم الدین کا نام آیا تینوں بار قرعہ میں اپنا نام دیکھ کر علم الدین کی خوشی کی انتہا نہ رہی شیدا کو اپنے دوست کی خوش قسمتی پر رشک بھی آ رہا تھا اور اپنی ناکامی پر اداس بھی تھا ۔شیدا نے اپنے دوست کو مبارکباد دی اور دونوں دوست ایک دوسرے کو الوداع کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے گھر پہنچ کر علم الدین بستر پر لیٹ گئے تو انکی آنکھ لگ گئی تو آپ نے خواب میں ایک بار پھر اسی بزرگ کو دیکھا جو علم الدین سے مخاطب تھے اور کہہ رہے تھے کہ علم الدین یہ وقت سونے کا نہیں ہے بلکہ جس کام کیلئے تمہیں چن لیا گیا ہے اسکی تکمیل کیلئے فوراً پہنچوں ورنہ بازی کوئی اور لے جائے گا۔آپ ؒ فوراً خواب سے اٹھے اور اپنے دوست شیدا کے پاس پہنچے اسے کچھ اشیابطور یادگار دی اور گھر پہنچ کر اپنے منصوبے کو حتمی شکل دی گھر میں کسی سے اس بارے میں کوئی بات نہ کی کہ کہیں خون اور قرابت کے رشتے اس راہ میں حائل نہ ہوجائیں ۔

6اکتوبر 1929علم الدین نے غسل کیا ، سرخ دھاری دار قمیض اور سفید شلوار زیب تن کی سر پر پگڑی باندھی اور خوشبو لگا کر اپنی ماں سے میٹھے چاولوں کی فرمائش کی جسے علم الدین اور آپ ؒ کے والد نے ساتھ بیٹھ کر تناول فرمایا۔ والد کے کسی کام کے جانے کے بعد علم الدین نے اپنی معصوم بھتیجی کے ماتھے کو چوما اور اپنی بھابھی سے کچھ پیسے ادھار لئے اور گمٹی بازار جا کر آتما رام کباڑیے کی دکان سے ایک روپے میں ایک لمبا سا چاقو خریدا اور اسے شلوار کے نیفہ میں رکھ لیا پھر آپ ؒ سیدھا دوپہر ایک بجے کے قریب انار کلی ہسپتال روڈ راج پال کی دکان کے سامنے والی ٹال پر پہنچے ۔جوں ہی ٹا ل والے لڑکے نے علم الدین کو بتلایا کہ راج پال دکان کے اندر داخل ہوا ہے تو علم الدین شیروں کی طرح دکان کی طرف لپکا راج پال کے روبرو پہنچ کر آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا کہ ’’ اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دل آزار کتاب کو تلف کر دو اور آئندہ کیلئے ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ ‘‘ راج پال اس للکار کو گیدڑ بھبکی سمجھ کر طنزاً مسکرایا اور منہ پھیر لیا اس پر علم الدین چیتے کی سی تیزی سے راج پال پر لپکا اور ایسا کاری وار کیاکہ چاقو راج پال کے سینے کو چیرتا ہوا دوسری طرف سے باہر نکل آیا کہ وہ اف تک نہ کر سکااو ر جہنم واصل ہو گیا ۔غازی علم الدین ؒ جب دکان سے باہر نکلے تو ملازمین نے مار دیا ، مار دیا کا شور مچا دیا جس پر قریب کے ایک ہندو دکاندار سیتا رام کے لڑکے اور اسکے ساتھیوں نے آپ کو پیچھے سے پکڑ لیا جس پر علم الدین نے کہا’’ آج میں نے اپنے رسول ﷺ کا بدلہ لے لیا، آج میں نے اپنے رسول ﷺ کا بدلہ لے لیا‘‘اسی دوران پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی جس نے غازی علم الدین کو حراست میں لے لیا ۔

10اپریل 1929کو مسٹر لوئیس ایڈیشنل مجسٹریٹ لاہور کی عدالت میں علم الدین کے خلاف زیر دفعہ 302تعزیرات ہند مقدمہ قتل کی کاروائی شروع ہوئی ۔مقدمہ کی سماعت کے دوران علم الدین کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ اور عجیب سا اطمینان نمایاں تھا ۔شہادت قلم بند ہونے کے بعد سر سری بحث کے بعد مقدمہ سیشن کورٹ کے پاس منتقل ہوا ۔سیشن کورٹ نے 22مئی 1929کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور مسلسل حسب ضابطہ توثیق کیلئے لاہور ہائی کورٹ بھجوائی گئی والدین کے حکم کی تعمیل میں علم الدین کی جانب سے بھی اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس کی پیروی اس وقت کے چوٹی کے قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح نے کی ۔قائد اعظم کی بحث کا سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ راج پال نے رنگیلا رسول جیسی قابل اعتراض کتاب شائع کر کے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا ہے چونکہ یہ کتاب اشتعال انگیزی کا سبب بنی اس لئے ملزم نے قتل عمد کا ارتکاب نہیں کیا لہذا اسے سزائے موت نہیں دی جاسکتی ہے ۔اسکے جواب میں وکیل سرکار رام لال نے من جملہ دیگر دلائل کے یہ موقف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام کی اہانت واقعی افسوسناک بات ہے لیکن تعزیرات ہند میں اس جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں اسلئے مقتول نے کوئی خلاف قانون حرکت نہیں کی تھی چنانچہ ملزم کا یہ فعل اشتعال انگیزی کی تعریف میں نہیں آتا ۔چنانچہ لاہور ہائی کورٹ نے علم الدین ؒ کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ یہ خبر جب علم الدین کو ملی تو وہ مارے خوشی کے چیخ اٹھے اور کہا ’’ اس سے بڑھ کر میری اور کیا خوش نصیبی ہوگی کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو رہی ہے اور بارگاہ رسالت میں حاضری کی سعادت سے بھی مجھے سرفراز کیا جارہا ہے ‘‘

جب ان کا غمگسار دوست شیدا ان سے ملاقات کیلئے میانوالی جیل پہنچا تو اسے غمگین دیکھ کر علم الدین نے کہا ’’یار آج تو تمہیں خوش ہونا چاہئے اپنے آقا ﷺ کے نام پر کٹ مرنا ہی ایک مسلمان کی سب سے بڑی آرزو ہے اور اﷲ تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی کرم نوازی ہے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں میں سے اپنے اس حقیر بندے کے ہاتھوں اس ناپاک شیطان کو ختم کرایااور دیکھو رسول کریم ﷺ پر قربان ہونے کی میری دلی مراد بھی پوری ہو رہی ہے اسلئے تمام مسلمانوں بھائیوں تک میری یہ بات پہنچا دہ کہ وہ میری موت پر غم نہ کریں بلکہ میرے لئے دعا ئے خیر کریں ‘‘ والدین اور عزیز و اقارب سے آخری ملاقا ت کے موقع پر اپنی والدہ سے کہا کہ وہ ان کا دودھ بخش دے ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہنے لگے ماں دیکھ تو کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے بیٹے کو شہادت کی موت مل رہی ہے مجھے تو ہنسی خوشی رخصت کرنا چاہیئے ۔پھر علم الدین نے پیالہ سے پانی پیا اور اسی پیالہ سے اپنے عزیز و اقارب اور والد طالع مند کو پانی پلا کر پوچھا کہ انہیں بھی اس کی ٹھنڈک پہنچی ہے سب نے جب اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے مجھے تو جگر تک ٹھنڈ ک محسوس ہورہی ہے پھر ان سب سے کہا کہ’’ کوئی ان کی موت پر آنسو نہ بہائے ورنہ انہیں اس سے تکلیف ہو گی ‘‘آپ ؒ نے جیل کے حکام کو وصیت نامہ میں اپنے عزیزوں کیلئے یہ بات بطور خاص لکھوائی کہ ان کے پھانسی پر چڑھنے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا کا حق دار ہو گا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰۃ برابر اداکریں اور شرع محمدی ﷺ پر قائم رہیں ۔
انہیں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا :
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ ء بطحا کی حرمت پہ
خدا شاید ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 78206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.