توہین اولیاء

رومی کشمیر حضرت میاں محمد بخش کے روحانی درجات، فکری کمالات اور ادبی مقام و حیات سے کون واقف نہیں ۔ تصوف، روحانیت، ادب، فکر و فلسفہ حیات و بعد از حیات کے بیان میں جو مقام مولانا روم اور انکے روحانی مرید حضرت علامہ اقبال کا ہے وہی مقام حضرت میاں محمد بخش کا بھی ہے۔ جو کچھ علامہ اقبال اور مولانا روم نے فارسی اور اردو میں کہا اس سے کہیں بڑھ کر اور صاف اور سادہ الفاظ میں حضرت میاں محمد بخش نے پنجابی میں بیان کیا۔ اقبال اور رومی کو سمجھنے کیلئے استادوں اور ڈکشنریوں کی ضرورت ہے ۔مگر رومی کشمیر کو سمجھنے کیلئے گداز دل اور روشن دماغ ضروری ہے۔ میاں صاحب کا ہر شعر دوسرے شعر کی تشریح اور ہر لفظ کئی الفاظ کے معنی و مطالب کا ذخیرہ ہے،مولانا رومی فرماتے ہیں،
زر قلب و زر نیکو در عیار
بے مہک ہر گز ندارد اعتبار

کھوٹا سونا اور کھرا سونا پرکھنے میں بغیر کسوٹی کے ہر گز قابل اعتبار نہیں ۔ میاں صاحب فرماتے ہیں،
کچ وی منکا لعل وی منکا اکو رنگ دوہا دا
جد صرافاں ہتھے چڑھدے فرق ہزار کوہاں دا

لعل اور کانچ ظاہری شکل و صورت میں ایک جیسے ہیں مگر جب صراف کے ہاتھ لگتے ہیں تو انکی قدر و قیمت کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہر کسی کو نہیں ہوتی یہ کام صرف قدر شناسوں کا ہے۔ اسی موضوع پر میاں صاحب نے فرمایا
قدر پھلاں دی بلبل جانے صاف دماغاں والی
گرج کی جانے سار پھلاں دی مردے کھاون والی

پھولوں کی لطافت، نفاست، خوشبو اور نزاکت کی پہچان بلبل کو ہے چونکہ بلبل پاکیزہ ماحول کی عادی اور صاف دماغ والی ہے ۔ پھولوں کی قدر گدھ کیا جانے وہ تو مردار خور ہے اسے تو مردہ جانوروں کے جسم سے اٹھنے والے بدبو کی پہچان ہے ۔ کرپٹ ، رشوت خور، چاپلوس اور جرائم پیشہ انسان بھی ایسے ہی خصلتوں کے حامل ہوتے ہیں جنکی وجہ سے نہ صرف معاشرہ اور ماحول بدبودار ہو جاتا ہے بلکہ ملک اور قومیں بھی برباد ہو جاتی ہیں

میاں صاحب کا ہر شعر با معنی ، با مقصد اور بحر علم ظاہری و باطن کا انمول موتی ہے۔ میاں صاحب نے پنجابی زبان کے انتہائی سادہ، عام فہم اور ایک سے زیادہ معنی و مطالب کے حامل الفاظ کو اپنے اشعار کی لڑی میں اس سلیقے سے پرویا جسکی مثا ل شا عری کی کسی صنف میں نہیں ملتی۔ میاں صاحب کی سلیقہ مند شاعری کو ادب کا کمال ہے کہ آپ سے پہلے اور آپکے بعد کی دنیا بھر میں کسی شاعر کو ادبی سلیقہ مندی کا ایسا ہنر نصیب نہیں ہوا۔ پنجابی کی طرح عربی، اردو، فارسی زبان میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں مگر ایک ہی لفظ کو ایک ہی شعر میں کثیر المقاصد مطالب کیلئے استعمال کا فن صرف رومی کشمیر حضرت میاں محمد بخش عارف کھڑی ہی کا کمال ہے
آئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا
روح نو کہو ھن روح محمد ھن جے رویں تاں منا

روح گنے کا رس ، روح ، روح رحمانی یا روح انسانی ، روحیں یعنی اگر رک سکنے کی ہمت یا طاقت ہو تو رک جاؤ یا روک لو۔

قرآن کریم میں فرمان خداوندی ہے کہ فرشتے میرے حکم سے تمہاری رگ رگ سے روح کھینچ نکالتے ہیں۔ سورت واقعہ میں ذکر ہے کہ مرنے والے کے ہم تم سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں مگر نظر نہیں آتے۔ موت کو روکنا تمہارے بس میں نہیں ۔ اگر سچے ہو تو روح کو پھیر کیوں نہیں لیتے۔میاں صاحب نے انہی آیات مبارکہ کو اپنے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اے انسان تو نے اپنے وقت مقررہ پر چلے جانا ہے اور تیرا جسم فانی ہے ۔ اصل حقیقت روح کی ہے جو امر ربی ہے اور ایک مقررہ وقت تک تمہارے جسم کو سہارا دیئے ہوئے ہے۔ جب امر ربی پورا ہوجائے گا تو روح تو روح تمہارے جسم کو چھوڑ جائے گی اسلئے آنے والی اور ہمیشہ کی زندگی پر پر توجہ مرکوز کر۔ جب روح کھینچنے والے فرشتے آئنگے تو تیری حالت گنے کے اس ٹکڑے کی طرح ہوگی جو بیلن کے چرخے میں پھنس جاتا ہے۔ تیرا جسم موت کے شکنجے میں آجائے گا اور تیری نس نس سے روح نکال لی جائیگی ۔ پھر فرمایا
جنہاں پچھے عیب کمائے کھتے نی تیری گھر دے
باہر پیا میں پیر پسارے کڈو کڈو کر دے

یعنی جن بیوی، بچوں ،رشتہ داروں، دوستوں ، یاروں وزیروں اور حاکموں کی خاطر تم نے گناہ کئے، مخلوق پر ظلم کیا ، لوگوں کے حق پر ڈاکا ڈالا، رشوت خوری اور کرپشن کی، بے انصافیاں اور برائیاں کیں ، آج وہ سب کدھر ہیں ۔ آج تمہاری حالت یہ ہے کہ تم گھر کے باہر پڑے ہو اور تمہارا جسم مردہ ہے۔ تمہارے اعضا اکڑ گئے ہیں اور پاؤں مڑ گئے ہیں ۔ تمہاری اولاد ، بیوی اور دوست یار جلدی میں ہیں کہ مردے کو جلدی جلدی قبر میں ڈالا جائے تاکہ بدبو نہ آئے ۔ آج تمہارے وہ گھر والے جن کی خاطر تم نے گناہوں کی کمائی اکھٹی کی ، جلدی میں ہیں اور تم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔
لوئی لوئی بھر لے کڑیئے جے تدھ پانڈہ بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نہ ڈرنا

لو یعنی روشنی، زندگی، اختیار، بس۔ شام یعنی بعد از غروب آفتاب اندھیرا چھانے کا وقت۔پھر شام یعنی دوستوں کے ، سہیلیوں کے ۔ شام یعنی بغیر قافلے کے ، بغیر کسی اثاثے کے خالی ہاتھ، یعنی بغیر ہتھیار کے۔
میاں صاحب فرماتے ہیں کہ اے انسان زندگی کو غنیمت جان اور روشنی میں ، زندگی میں جوانی میں اپنا بہترین نیک اعمال سے بھر لے تا کہ موت کے بعد یعنی زندگی کی شام ہونے پر تو خالی ہاتھ اور شرمندہ اپنے رب کے حضور پیش نہ ہو ۔ تیرے پاس آخرت کی زندگی کیلئے نیک اعمال اور نیکیوں کا اتنا خزانہ ہوتا کہ تو بغیر کسی حساب کے جنت میں قائم اپنے گھر میں داخل ہو جائے ۔ تو اس زندگی میں اچھے اعمال اور عبادات سے لیس ہو کر چل جیسے ایک ہتھیار بند مجاہدبے خوف و خطر دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے فتح مند ہو کر گھر کو لوٹتا ہے۔ جیسے ایک نیک عمل دو شیزہ سہیلیوں کی جھرمٹ میں با حفاظت اپنا برتن بھر کرشام سے پہلے گھر لوٹ آتی ہے یا ایک تا جر اپنا خزانہ اور مال و اسباب لیکر قافلے کے ہمراہ گھر پہنچ جاتا ہے۔ آگے فرمایا
جیون جیون جھوٹا ناواں موت کھلی سر اُتے
لکھ ہزار تیرے توں سوہنے خاک اندر رل ستُے

زندگی ایک جھوٹ ہے ، فریب ہے، وقتی کھیل ہے ، ایک مہلت ہے ۔ تو اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر اسے حقیقت کا نام نہ دے اور موت کی تیاری کر۔ اس زندگی کی حقیقت اور مقصد وہ نہیں جسکا تصور شیطان نے تیرے دل و دماغ میں ڈال کر تجھے بے حس اور متکبر کر دیا ہے۔ ذرا قبرستان کی طرف دیکھ، تاریخ کے اوراق پر نظر ڈال تو تجھے پتہ چلے گا کہ ہزاروں، لاکھوں انسان جو تجھ سے زیادہ مالدار تھے ، حسین و جمیل تھے، عقل میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ طاقت و قوت میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ کتنے بہادر اور جری جرنیل اور سپاہی تھے ۔ وسیع و عریض سلطنتوں کے بادشاہ اور خزانوں کے مالک تھے مگر موت کے آگے انکی بھی نہ چلی۔ آج ان میں سے کوئی بھی نہیں رہا اور سب ہی خاک در خاک ہوگئے۔
لکھ ہزار بہار حسن دی اندر خاک سمانی
لا پریت اجہی محمد جگ وچ رہے کہانی

پھر فرمایا کہ حسن ظاہری کی ہزاروں نہیں لاکھوں اقسام ہیں ۔ چہرے کا حسن، دولت کا حسن، طاقت کا حسن ، بقول پاکستانی سیاسی جنتا کے سیاست اور جمہوریت کا حسن ، عیش و عشرت کا حسن ، مگر سب کے سب حسن اور خوبصورتیاں آخر کار خاک میں سما جائیگی اور کوئی انہیں یاد بھی نہیں کرے گا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں
پس نامور بزیر زمین دوزن کردہ اند
کزہستیش بروی زمین بر نشان نماند

بہت سے مشہور لوگ زمین کے نیچے دفن کر دئے گئے ہیں حتی کہ زمین پر انکی ہستی کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔
فارسی کا ایک شعر ہے
ایں خاک کہ بزیر پائیہ ہر نادان دست
کف صنم و چہرہ جاناں است
این خشت با کنگرہ ایوان است
انگشت وزیر یا سر سلطان است

اے ناداں تیرے پاؤ ں کے خاک کے نیچے کسی محبوبہ کی حسین بانہیں یا کسی محبوب کا خوبصورت چہرہ ہے ۔ محل کی ہر اینٹ در حقیقت کسی وزیر کی کٹی انگلی یا کسی بادشاہ کا کٹا ہوا سر ہے دنیا کے ہر خوبصورت محل اور طاقتور قلعے کی یہی حقیقت ہے کہ وہ نشان عبرت یا پھر کھنڈر بن جاتاہے -

میاں صاحب نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تو ایسی پریت لگا ، ایسی محبت کر کہ دنیا میں تیری کہانی یاد رہے۔ لوگ تیری نیکی اور پارسائی کی مثالیں دیں ۔ تو ایسے کام کر کہ تا قیامت تیرے عمل و کردار کے حوالے سے لوگ تجھے پہچانیں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں
زندہ است نام فرخ نوشیرواں بخیر
گرچہ بسی گزشت کہ نوشیں روں نماند

نوشیرواں عادل کا مبارک نام نیکیوں اور بھلائیوں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے اگر چہ بہت زمانہ گزر گیا کہ نوشیرواں زندہ نہیں رہا۔

قارئین محترم:ـ اگر میں میاں صاحب کے اشعار کے متعلق لکھتا رہا تو یہ تحریر کبھی ختم نہیں ہوگی ۔ میاں صاحب نے جو بات ایک شعر میں لکھی ہے اس پر اقبال، سعدی، رومی، اور دیگر صوفیائے کرام نے کئی کئی صفحات لکھے ۔ میاں صاحب کا رتبہ عظیم صوفی شعراء، فلاسفہ اور فقراء سے کسی طور کم نہیں ۔ اگر کوئی شخص اس دور میں علامہ اقبال کی پیروڈی کرے، ہجو لکھے یا انکے اشعار کا مذاق اڑائے تو یقینا غیرت مند پاکستانی ایسے نا خلف کا محاسبہ کرینگے جبکہ ایران اور ترکی میں کسی میں اتنی جرات نہیں کہ کہ وہ مولانا روم ، شیخ سعدی، حافظ یا کسی دوسرے صوفی شاعرکی توہین کرے یا انکے اشعار کو بیہودہ اور لچر مزاح کا حصہ بنا کر اپنی گندی ذہنیت ، لچر پن بلکہ کنجر پن کا مظاہرہ کرے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ سکھوں کے ساتھ پنجابی سنگت کرنیوالے گجرات کے چودھریوں ، صوفیوں پر لکھنے والے نام نہاد دانشوروں ، صحافیوں، گدی نشین پیروں اور صاحبزادوں ، پنجابی ادبی کلچر کے دکانداروں سے لیکر آزاد کشمیر کے غلام حکمرانوں اور شرابی کلچر کو فروغ دینے والے سیاستدانوں ، آزاد کشمیر کے لفافہ صحافیوں اور میاں محمد بخش کے چاہنے والے لنگر خوروں ، آزاد کشمیر کے وزیر اوقاف ، میاں صاحب کے دربار سے روزانہ کروڑوں روپے کی شیرینیاں اور نیازیں اکھٹی کرکے کھانے والے افسروں سے لیکر میاں صاحب کا کلام پڑھنے والے فنکاروں میں سے کسی کو بھی اس ولی کامل کی توہین کرنیوالے ٹی وی چینل کی باز پرس کی جرات کی اور نہ ہی کسی نے کوئی احتجاج کیا۔

میاں صاحب کی عرس سے چند ہفتے پہلے اکھنڈ بھارت کو امن کی آشا کا نام دینے والے چینل پر BNN پروگرام کے دوران ایک حسینہ نے حسن نثار کے کردار سے کہا کہ آخر میں آپ اپنا کوئی شعر سنائیں ۔ حسن نثار کا کردار کہتا ہے کہ میرا تازہ شعر ہے
نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نیں پایا
کیکر تے انگور چڑھایا تے چوہا گڈی تلے آیا

کیا اہلیان کشمیر خاص کر آزاد کشمیر کی مجاور حکومت ، وزیر اوقاف، سیکرٹری اوقاف، سیف الملوک آرٹس اکیڈمی کے نام نہاد ممبران، میاں صاحب پر لکھنے والے لفافہ اور چاپلوس صحافیوں ، کشمیریات کے استادوں اور طالب علموں ، آزاد کشمیر بھر کے آستانوں پر صاحبزادوں اور گدی نشینوں، اسمبلی کی سیٹ پر براجمان علماء و مشائخ کی سیٹوں پر قابض شیخوں اور خود ساختہ ولیوں،صوفی ازم کے پرستاروں اور پرچار کرنیوالے دانشوروں کیلئے عبرت کا مقام ہے کہ وہ ایک عاشق رسول ، ایک ولی کامل، عشق مجازی اور حقیقی میں واضح فرق بتانے والے مفکر،زندگی اور موت کا فلسفہ سمجھانے والے دانشور اور قرآنی آیات کی سادہ اور پر اثر تفسیر کو اشعار کے ذریعے دلوں میں ڈھالنے والے فلسفی کی توہین پر خاموش رہے اور کسی بھی شخص کو ان نا خلف اور بیہودہ لوگوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

یقینا میاں صاحب کا کلام ایک ولی کامل کا پاکیزہ کلام ہے نہ کہ یہ چوہے بلی کا کھیل ہے۔ میاں صاحب کے خیالات ہمیشہ رہنے کیلئے ہیں یہ گڈی تلے دینے والے نہیں کہ اسے مردہ چوہے سے تشبیح دی جائے
مجھے یقین ہے اگر ٹی وی چینل حضرت داتا گنج بخش ، حضرت پیر مہر علی شاہ، حضرت خواجہ قاسم موہڑوی، حضرت سائیں سہیلی سرکار، حضرت پیر صاحب لعل شہباز قلندر ، حضرت شاہ لطیف بھٹائی یا پیر صاحب پگاڑا کے متعلق ایسی بیہودہ اور لغو زبان استعمال کرتا تو اہلیان سندھ و پنجاب اور ان فقراء اور اولیاء کرام کے ماننے والے نہ صرف پر زور احتجاج کرتے بلکہ ایسے نا خلف اور بدزبان لوگوں کو نہ بھولنے والا سبق بھی سکھلاتے۔حیرت ہے کہ اہلیان کشمیر خاص کر حکومتی ٹولے اور دانشوروں کا زعم رکھنے والوں کا ہاضمہ اسقدر تیز ہے کہ انہیں سر زمین کشمیر کے روحانی ، علمی، ادبی اثاثے کی بے حرمتی ہضم کرنے میں بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔

آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاست پر برادری ازم کا غلبہ ہے۔ ہر جماعت بلکہ ہر برادری کا اپنا علماء و مشائخ کا الگ ونگ ہے جسکا کام اپنی برادری کے لیڈروں کے حق میں بیان بازی کرنا ہے۔ آزاد کشمیر میں جاٹ برادری حکمران ہے شائد اسلئے حکمران چوہدریوں کو میاں صاحب کی کی توہین محسوس نہیں ہوتی کیونکہ میاں صاحب کا تعلق گجر قبیلے سے ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک اپوزیشن ممبر نے گوجری زبان کی ایک مثال غلط گوجری میں دی تو آزاد کشمیر کابینہ کے گجر وزیروں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا چونکہ غلط گوجری بولنے اور مثال دینے کو گوجری کی توہین تصور کیا گیا ۔ اسمبلی میں گوجری زبان کی توہین برداشت نہ کرنے والے پیپلز پارٹی کے جیالے وزیروں اور انکے لیڈر قمر زمان کائرہ کو میاں صاحب کی توہین کا ذرہ بھر خیال نہیں آیا چونکہ میاں صاحب کسی کے مشائخ ونگ کے ممبر نہیں اور نہ ہی وہ بھٹو ازم سے وابستہ ہیں ۔ میاں صاحب اپنے کلام کے متعلق لکھتے ہیں
کرے سوال فقیر محمد پڑھنے والے تائیں
رونق کھڑیں نہ شعر مرے دی نال ادا سنائیں
پھر فرماتے ہیں
سٹ پسٹا کرکے پڑھیاں لذت کجھ نہ رہن دی
جس دے بیٹے نون کوئی مارے کد اسدی جند سہندی

یعنی شعر کو توڑ مروڑ کر اور الفاظ کو آگے پیچھے کرکے پڑھنے سے شعر کی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ میرے اشعار میرے بچوں جیسے ہیں اگر کسی کے بیٹے کو کوئی مارے تو وہ کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ فرماتے ہیں
جیو نکر بیٹے تساں پیارے تیویں بیت اسا نوں
بیٹے نوں کوئی انگل لاوے لگدے بیت تساں نوں

جس طرح آپ لوگوں کو بیٹے پیارے ہیں ایسے ہی مجھے اپنے اشعار پیارے ہیں ۔ اگر آپکے بیٹے کو کوئی انگلی لگا دے تو آپکو اسکا درد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپکے جسم پر کوئی چابک یا چھڑی سے مارے۔

افسوس کہ آج میاں صاحب کے ماننے والے ، کلام پڑھنے اور سننے والے تو بہت ہیں مگر انکے بیٹوں پر ظلم کا کسی کو کوئی احساس نہیں ۔ میاں صاحب اپنے پاکیزہ اور با معنی کلام کے بارے میں فرماتے ہیں
دشمن وانگ دسے اوہ سانوں جے کوئی بیت تروڑے
بیٹے لال سندر دے ایویں جے کوئی کن مروڑے

جو شخص میرے کلام کلام کو توڑے ، اشعار کی توہین کرے ، انکے معنی بدلے وہ میرا دشمن ہے۔ میرا شعر توڑنے والا ایسا ہی ہے جومیرے پیارے بیٹے کا کان بغیر کسی وجہ کے مروڑے اور اسے تکلیف پہنچائے۔ میاں صاحب کے کلام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں اگر انکے ماننے والے میا ں صاحب کا ساتھ دیتے ہیں تو زرداری اور میاں صاحبان ناراض ہوجائینگے۔اور سیکولر اور سوشل میڈیا انکے خلاف ہوجائیگا۔سول سوسائٹی اسے آزاد میڈیا کی آواز دبانے کے جرم میں اشتعال انگیزی کی مہم چلائے گی اور آزاد میڈیا میاں صاحب کے خلاف طوفان کھڑا کر دے گا۔ وزیروں، مشیروں کا بائیکاٹ ہوگا اور ٹی وی چینلوں پر منہ دکھلائی کا شوق پانے والوں کا شوق ماند پڑ جائے گا۔

میاں صاحب کو اپنے کلام کی ناقدری کا احساس تھا کہ آنے والے دور میں کچھ بھانڈاور میراثی انکے کلام کی توہین کریں گے اور لوگ خاموش رہینگے۔ فرمایا
شعر مرے اس ملک اپنے وچ مول نہ پاندے قیمت
دور دراڑے جس نو لبھن جانے بہت غنیمت
کیسر سستا ہے کشمیرے پچھو مل لاہوروں
پستہ تے بادام محمد سستے ملن پشوروں
بے قدرے اور نا خلف لوگوں کے متعلق فرمایا
جس وچ گھجی رمز نہ ہووے درد منداں دے حالوں
بہتر چپ محمد بخشا سخن آجہے نالوں
پھر فرمایا
ربا دئیں پناہ ایہناں تھیں جو حکم ایسے کر دے
سیم سچے دا ستم بناون غم دا نہیں غم کر دے

میاں صاحب ایک سچے عاشق رسول،ولی کامل اور علوم ظاہری و باطنی کی پرکھ رکھنے والے شاعر اور سخن ور تھے۔ جو لوگ آپ کے دشمن ہیں اور آپکے کلام پر پر طنز کرتے ہیں انکے متعلق خود میاں صاحب فرما گئے
شیش محل وچ کتا وڑیا اُس نوں سمجھ نہ آوے
جدھر دیکھے ادھر اُس نوں کتا ہی نظر آوے

میاں صاحب کے کلام کی پیروڈی کرنے والوں کے متعلق اور کیا لکھوں ۔ میاں صاحب کا ہی ایک شعر ہے
وڑھ تمبے دی کڑوی ہیوندی سڑیں پتراں سڑیں بیاں
جہی ڈھٹی ماں محمد او ھو جیاں ڈھٹیاں دھیاں

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90544 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.