شعر، شاعر، اور فلمی شاعری

شعر، شاعری، اور شاعر سے تو ہم سب لوگ واقف ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ لوگ شعر اور شاعری سے تو شغف رکھتے ہیں، موقع محل کی مناسبت سے ان کو کئی اشعار بھی یاد ہوتے ہیں لیکن شاعر کا ذکر آئے تو لوگ عموماً اس مخلوق سے کتراتے ہیں، وہ مشہور لطیفہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہوگا کہ ٹرین میں ایک صاحب نے اپنے ہم سفر سے تعارف حاصل کرنے کے لیے کہا کہ “ جناب میں ایک شاعر ہوں۔ یہ سنتے ہی ان کے ہم سفر نے فوراً کہا اور میں بہرا ہوں۔ “ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ شاعر کو “ کس قدر پسند “ کرتے ہیں۔

ویسے آپس کی بات ہے کہ اس میں زیادہ قصور محترم شاعر حضرات کا ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی سامع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جیسے ہی کوئی شامت کا مارا ان کے ہاتھ لگتا ہے وہ وقت ضائع کیے بغیر اس کو اپنا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام سنانا شروع کردیتے ہیں، اس پر ہمیں پھر ایک لطیفہ یاد آگیا آپ بھی سن لیجئے “ بازار میں دو افراد بھاگے جارہے تھے اور پیچھے والا فرد زور زور سے چیخ رہا تھا پکڑو پکڑو جانے نہ پائے، بہر حال وہ تو ہاتھ نہ آسکا البتہ پیچھے والے فرد کی چیخ و پکار سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور ان صاحب سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ کیا یہ آپ کی کوئی چیز چرا کر بھاگا ہے، ان صاحب نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں اور وہ شاعر ہیں ہماری یہ بات طے ہوئی کہ ہم ایک دوسرے کا کلام سنیں گئے۔ وہ تین گھنٹے تک مجھے اپنی غزلیں اور نظمیں سناتا رہا جب میری باری آئی تو بھاگ گیا “

دوسری بات جس سے لوگ شاعر حضرات سے کتراتے ہیں وہ ان کا حلیہ ہوتا ہے، سر جھاڑ منہ بھاڑ، گریبان کے بٹن کھلے ہوئے، آنکھوں میں وحشت، منہ میں پان کی گلوری اور عموماً ان کے پان کی پیک ان کی باچھوں سے بہہ کر ان کے کپڑوں کو رنگین کرتی رہتی ہے لیکن ان کو کوئی احساس نہیں ہوتا ہے اور ان کا حلیہ بلکل پنجابی کی اس مثال کی عملی تصویر ہوتا ہے کہ منہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتھا، بے چارہ شاعر اپنے اشعار سے دنیا میں آگ لگا دیتا ہے لیکن خود اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔

کچھ لوگ شاعری کو بالکل ہی آسان سمجھتے ہیں اور وہ تک بندی کر کے اپنے آپ کو شاعر سمجھنے لگتے ہیں اگر ان کا کلام سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھ مصرعوں کی ایک غزل میں آدھے شعر وزن سے گرے ہوئے ہوتے ہیں،اور باقی آدھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آدھے شعر اخلاق سے گرے ہوتے ہیں۔اس ٹائپ کے کچھ اشعار کا نمونہ پیش خدمت ہے
بکری چڑھی پہاڑ پہ تو بکرا بھی چڑھ گیا
بکری اتری پہاڑ سے تو بکرا بھی اتر گیا
یا پھر یہ شعر ملاحضہ کیجئے۔
بکری چڑھی پہاڑ پر
اور دوسری طرف سے اتر گئی۔

شاعر تو اپنے خیالات میں گم صم رہتا ہے اور جو کچھ اس کے ذہن میں آتا ہے وہ اس کو محفوظ کرتا رہتا ہے، یا لوگوں کو سناتا رہتا ہے۔ بسا اوقات شاعر جب اپنے اندرونی جذبات کا اظہار انتہائی بے باکی سے کرتا ہے اور اس کو احساس ہوجاتا ہے کہ لوگ سمجھ گئے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں تو وہ فوراً اس کی تاویل پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ع
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

شاعر پتہ نہیں کس کیفیت میں کیا شاعر کہہ دیتا ہے لیکن لوگ بعد میں اس کی تشریح اور تاویلات پیش کررہے ہوتے ہیں کہ یہ بڑا عاشقانہ شعر ہے یا بڑا دل جلا شعر ہے جیسے کہ یہ شعر ہے
شام ہوتے ہی چراغ بجھا دیتا ہوں میں
دل ہی کافی ہے تیری یاد میں جلنے کے لیے

آپ لوگوں نے بھی یہ شعر سنا ہوگا اور خوب سر دھنا ہوگا کہ صاحب کیا شعر ہے، کیا دل جلا بندہ ہے جس نے ایسی بات کہی ہے اور یہ کہ اس بندے نے ضرور دل پر کوئی گہری چوٹ کھائی ہوگی جس کی وجہ سے اس نے یہ شعر کہا ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ یہ کس کا شعر ہے لیکن اگر غور کیا جائے اور اس شعر کی تشریح کی جائے تو شاعر کے بارے میں بڑے سنسنی خیز انکشافات ہوتے ہیں۔آپ کہیں گے کہ وہ کیسے ؟؟؟

دیکھیں پہلا مصرعہ نوٹ کریں شام ہوتے ہی چراغ بجھا دیتا ہوں میں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر یا تو آنکھ کا اندھا ہے یا پھر عقل کا اندھا ہے، ارے بھائی شام ہوتے ہی چراغ بجھا دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن بھر چراغ جلتا رہا ہے اور اس سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ یہ آنکھ کا اندھا نہیں ہے کیوں کہ اس کو دن رات کا پتہ ہے تو پھر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ عقل کا اندھا ،فضول خرچ، آدمی ہے کیوں کہ دن بھر چراغ کوئی صحیح الدماغ فرد تو نہیں جلاتا ہے بلکہ پاگل ہی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر یہ شاعر پاگل نہیں ہے تو پھر یقیناً فضول خرچ انسان ہوگا کیوں کہ آج کل تو دن میں چراغ وہی فرد جلائے گا جس کے پاس باسٹھ روپے لیٹر کا ایندھن خریدنے اور پھونکنے کے لیے پیسہ ہوگا۔ ہمارے پاس تو اتنا پیسہ نہیں ہے اور یقیناً آپ لوگوں کے پاس بھی اتنا پیسہ نہیں ہوگا۔

شاعری کا ذکر فلمی شاعری کے بغیر نامکمل رہے گا۔ فلمی شاعری بے حیائی اور سفلی جذبات کے کھلے عام اظہار کا دوسرا نام ہے کیوں کہ اگر کوئی فرد کسی لڑکی سے کہے کہ میں تمہارا منہ چومنا چاہتا ہوں تو وہ لڑکی اس کا منہ نوچ لے گی لیکن فلمی شعر بڑی دیدہ دلیری سے کہتا ہے کہ ع چوم لوں ہونٹ تیرے دل کی یہی خواہش ہے۔ یا کوئی کنواری لڑکی یہ کبھی بھی نہیں کہہ سکتی ہے لیکن شاعر نے بڑی آسانی سے نوجوان کنواری لڑکیوں کے منہ میں یہ بات ڈال دی کہ ع میرا پاؤں بھاری ہوگیا میرا پاؤں بھاری ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلمی شاعری دراصل شاعری نہیں بلکہ سفلی اور عریاں جذبات کے اظہار کا دوسرا نام ہے۔

ویسے ایک بات ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آئی اور ہم آپ سے یہ بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ شاید آپ لوگوں کو یہ بات پتہ ہو تو بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک بھارت ( انڈیا ) میں اردو اخبارات گنتی کے ہیں، وہاں ہر طرح سے اردو کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں ہندی اور انگریزی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ وہاں کے ہر ڈرامے اور فلم میں ٹھیٹھ ہندی کے مکالمے ہوتے ہیں۔ اور ہندو ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی فلموں کے گانے سلیس اردو زبان میں ہوتے ہیں یہاں تک کہ فلم کا ماحول اس سے مطابقت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی مثلاًَ ہم پر یہ کس نے ہرا رنگ ڈالا- خوشی نے ہماری ہمیں مار ڈالا اللہ مار ڈالا

غور کریں کہ دیو داس ناول خالص انڈین ثقافت اور ہندو مذہب کی اونچ نیچ کو ظاہر کرتا ہے اور ناول کی اسٹوری میں بھی کہیں مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے لیکن گانے نہ صرف اردو میں ہیں بلکہ رام کے بجائے اللہ نام ڈالا گیا۔ ہمیں تو اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بھارتیوں کو پتہ ہے کہ اگر وہ ہندی زبان میں گانے بنائیں گے تو پاکستان میں انکی مارکیٹ فلاپ ہوجائے گی کیوں کہ پاکستان میں بھارتی فلمیں گانوں کی بنیاد دیکھی جاتی ہیں جس فلم کے گانے جتنے زیادہ مقبول ہوں گے وہ فلم بھی اتنی ہی ہٹ ہوگی۔ اس لیے وہ اپنے کلچر کو فروغ دینے کے لیے اور ہمیں اپنی جانب راغب کرنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اردو زبان میں گانے بناتے ہیں۔ ہمارا تو یہی خیال ہے۔ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ؟
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455099 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More