طالبانیت، سیاستدانیت اور شیطانیت

گزشتہ کل سے کچھ اچھا نہیں لگ رہاکہ جیسے دل پہ اک بوجھ سا ہے لکھنے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی کچھ پڑھنے کویہی سو چتا ہوں کہ اس پاکستان کو کس کی بد دعا لگ گئی کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب اخبارات کے فرنٹ پیج ہلاکتوں اور لاشوں کی سرخیوں سے نہ سجے ہوں،بلکہ یہ توہمارا روٹین کا کام بن چکا۔شہ سرخی ہے کہ لاہور،کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں دھماکے9افراد جاں بحق،81زخمی۔ میں اندر ہی اندر اپنے ملک میں ہونے والی اس روح سوز درندگی پہ بے حد شرمسار ہوں اور سمجھ نہیں آتا کہ کیسے مذمت کروں اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ مذمت سے کیا ہوتا ہے،کیا کسی ماں کا واحد چراغ یا کسی گھر کا واحد سرپرست واپس آجاتا ہے؟پچھلے 10سال میں 40,000پاکستانی ایسے واقعات میں شہید ہو گئے مگرہمارے لیڈران نے مذمت کے سوا کیا کیا؟وزیراعظم کی سنو تو فرماتے ہیں کہ’’ طالبان کے ساتھ خلوص نیت کے ساتھ مذکرات کرنا چاہتے ہیں‘‘تو کیسے مذاکرات اور کن سے مذاکرات؟ کہ جو مسجدوں اور جنازہ گاہوں میں بم پھاڑنے کے بعد خوشگوار لہجے میں ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں،جو سوات جیسے شہر میں معصوم شہریوں کو ذبع کر کہ الٹا ٹانگ دیتے ہیں،جو غیر ملکی سیاحوں کو قتل کر کہ پاکستان کا امیج گندا کرتے ہیں،جو پاکستانی معصوم شہریوں کو صرف اس لئے قتل کر دیتے ہیں کہ امریکہ نے ان پر ڈرون حملہ کیا،جوپہلے مطلع کر کہ جیلوں پر حملے کرتے ہیں اور اپنے سینکڑوں مجرم قیدوں کو آزاد کراکرحکومت اور ایجنسیوں کے منہ پر تھوکتے ہیں،جنگ جن کی ہیبٹ اور قتل جن کی ہوبی ہے۔ اور پھر مذاکرات کیسی صورت میں ؟مذاکرات توتب ہوتے ہیں کہ کچھ تمہاری ڈیمانڈز ہوں کچھ ہماری ڈیمانڈز ہوں اور سب سے اہم کہ دونوں کی ڈیمانذز قابل غور اور قابل عمل ہوں اور تجربہ کاردانشورو!تم جن سے مذاکرات کی بات کر رہے ہو دیکھو تو سہی کہ ان کی ڈیمانڈز کیا ہیں؟ کہ جمہوریت ختم کردواور ایک شرعی اسلامی ریاست بنا دو،یہاں تک توکچھ سمجھ آتی ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا مگر کیسی اسلامی ریاست کہ جہاں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے سروں میں گولیاں اتار دی جائیں،جہاں نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑا دی جائیں، جہاں اسکولوں میں صرف قرآن مجید پڑھایا جائے،جہاں عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی جائے ایک ایسی شرعی ریاست کہ جہاں اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر انسانوں کو ذبح کر دیا جائے تو کیا ایسے مطالبات ماننے کیا سننے کے لیے بھی تیار ہو؟اور اگر نہیں ہو تو یہ مذاکرات کا ڈھول کیوں پیٹے ہو؟اور کیا یہ محض اپنے پانچ سال پورے کرنے کی بے وقوفانہ اسٹیٹرجی نہیں؟وزیراعظم نے کہا کہ ہم تجربہ کار لوگ ہیں اور مجھے توان کے الٹے سیدھے کی ککھ سمجھ نہیں آتی کہ کل کہہ رہے تھے کہ طالبان کے ساتھ خلوص نیت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اورساتھ یہ بھی کہہ ڈالا کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ تو پہلے یہ فیصلہ تو کرلوکہ مذاکرات کریں گے یا کیفر کردار تک پہنچائیں گے،اور مذاکرات والی بات تو صرف بات ہے چونکہ مذاکرات کی کامیابی تو مجھے دور دور تک نظر نہیں آتی اور رہی بات کیفر کردار تک پہنچانے کی تورینٹل پاور کیس کے مجرم ہوں یا بے نظیر بھٹوکے قاتل ،کامران فیصل قتل کیس ہویا اکبر بگٹی قتل کیس، اصغر خاں کیسہو یا یونس حبیب اسکینڈل ،ملینز آف ملینزکی کرپشن کہانیاں اور1971ء کرانے کہ ذمہ دار ہوں یا ملک کو لوٹ کر سوئس اکاؤنٹ بھرنے والے لٹیرے، ان میں ایک کو تو کوئی کیفر کردار تک پہنچا نہ سکااورپھر یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جو پیٹ پہ بم باندھ کرکچھ بھی کر سکتے ہیں۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی دہشت گر د گرفتار بھی ہو جائے تو اسے کیا سزا ہو گی؟وہ ان عدالتوں سے چھوٹ جائے گا اور اگر قید بھی ہو تو کل کو یہی ان جیلوں کو توڑ کر اسے چھوڑا لے جائیں گے اور کبھی پھانسی بھی ہو جائے(جو کہ بہت ہی مشکل ہے) تو پھانسی کا حکم تو اعلیٰ حضرت نے دے نہیں رکھا!تو ایسی صورت میں کیفر کردار تک پہنچانے کے کیا معنی؟واقع کچھ کرنا ہوتا تو ایسی پالیسی بناتیکہ دہشت گردوں کو نانی یاد آجاتی۔اگران میں سے کسی ایک کو لکشمی چوک میں الٹا لٹکا کر سر عام فارغ کر دیا جائے تو مجال ہے کہ کوئی دوسرا ایسی کاروائی کی ہمت بھی کرے۔اوراگران بے چارے معاشرے اور حالات کے مارے بجلی چوروں کے لیے قانون سخت کر سکتے ہیں تو دہشت گردوں کے لیے کیوں نہیں؟اوریاد رکھنا! اگر دہشت گرد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نہ دیا تو دہشت گردی نامی اس چڑیل کا خاتمہ خواب ہی سمجھو!لیکن جوایک ڈینگی مچھر ختم نہیں کر سکتے وہ دہشت گردی خاک ختم کریں گے؟محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہاکہ’’ آئی ایم ایف فکر نہ کرے بجلی ضرور مہنگی کریں گے ہم وعدہ خلافی نہیں کرتے‘‘بیشک ڈار صاحب آپ آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی کر نہیں سکتے چونکہ ان سے قرضہ جات لیکر حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کرنے کی کوشش جو کرنی ہے اور جھوٹے وعدوں اور لاڑوں کے لیے اپنی عوام جو رکھی ہے ۔کہاں گئے وہ وعدے کہ ہم چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے، آصف زرداری کوالٹا ٹانگیں دیں گے اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے،معاشی دھماکہ کریں گے،مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کردیں گے،دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور آٹے چینیجیسے تمام بحران ختم کردیں گے،یہ ،وہ اورپتہ نہیں کیا کیا؟ مگر یہاں کوئی شہ ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے تووہ ہے غربت کا ڈسابے چارہغریب۔ ذرا اخبارات نکال کر دیکھو توسمجھ آئے کہ یکم جون سے لیکر یکم اکتوبر تک کتنی کامیاب خود کشیاں ہوئیں؟اور حد دیکھو کہ ایک ایسے ملک کے پاسبان اور خیر خواہ بن بیٹھے کہ جہاں اپنا علاج کرانا پسند نہیں کرتے،جہاں اپنے بچے پڑھانا چاہتے نہیں،چھٹیاں بیرون ملک ،جائیدادیں بیرون ملک ،بزنس بیرون ملک، بنک اکاؤنٹس بیرون ملک،بیوی بچے بیرون ملک اور اگر پاکستان میں کوئی شہ پیاری ہے تو وہ ہے قومی اسمبلی یاصوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ۔۔۔!!!

Javed Askari
About the Author: Javed Askari Read More Articles by Javed Askari: 8 Articles with 6767 views Syndicated Columnist, Political Analyst, Poet and Author, writes "Neemtalh" column 2 to 3 times in a week published in more than 50 Newspapers of Paki.. View More