میرا امتحانی ہال

جب سے سکول جانے کے لئے بستہ اُٹھایا ہے اُسی دن سے امتخانات میرے اعصاب پر ایسے سوار ہوئے ہیں جیسے مشرقی ادیبوں کے ذہنوں پر عورت!۔بچپن میں امتحانات سے اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ امتخانات کا نام سُن کر غش کھانے لگتے اور پھر ڈرتے ،کتراتے اور جھجھکتے ہوئے میڈم صاحبہ کے سوالات کے جوابات دیتے لیکن پتہ نہیں کیوں پاس ہوجاتے؟۔پھر پانچویں جماعت میں پہنچے تو بورڈ کے امتحانات کا شوشہ سُنااور خُدا گواہ ہے کہ بلیک بورڈ کے سوا اُس وقت ہمارا ذہن کسی اور بورڈکو تسلیم کرنے کے قابل نہ تھا۔ والدین نے چونکہ پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کا تکلف کیا تھا اسی وجہ سے سکول کے پرنسپل صاحب عصر کے وقت پانچویں جماعت کے طلباء کو سکول میں بلاتے اور ایک ایک عدد ہاتھ سے لکھا پرچہ تھماتے، کہ" ہم نے Guess کیا ہے کل پرچے میں یہی آئے گا" اور پھر پرچے میں ایک لفظ بھی اُس Guessپر چے سے باہر نہ ہوتا ، اور ہم اُس Guess پر آج تک سوچ رہے ہیں!کہ یا اﷲ ایک بندہ اتنا مکمل اندازہ کیسے لگا لیتا ہے؟ پھر میٹرک کے امتحانات میں جس ہال سے پالا پڑا اُس کا معزز سٹاف ہمارے پڑوس کے ایک استاد کی بیٹھک میں مرغن غذائیں اُڑاتا اور ہال میں اُس کے لاڈلے کے لیے خود باہر جاکر تعویز لاتا۔پھر ایف۔اے، بی ۔اے اور ایم ۔اے کے ہالوں کا سامناہو اور کہیں بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی سوائے چہروں کے!۔ایک ایسے ہال سے بھی واسطہ رہا جہاں کے پرنسپل صاحب نے ڈیوٹی کے سٹاف کو خریدنے کے لئے ہم سے بزورِ بازو ہزاروں روپے اکھٹے کیے۔۔اگرچہ اپنی شخصیت کی جھجھک اور خوف کی وجہ سے ہم ایک لفظ بھی کسی کاغذ کے پرزے سے نہ لکھ سکے، مگر اسے میری شرافت اور دیانت نہ سمجھا جائے بلکہ میرے بزدلی پر قیاس کیاجائے۔!

پچھلے سال ایک دوست کے بہکاوے میں آکرسرکاری نوکری ہونے کے باوجود ایم اے اُردو کرنے کا فیصلہ کیا ،اور پرائیویٹ کینڈیڈیٹ کے طور پر امتحانات میں حصہ لیا۔ ہال میں ان گنہکار آنکھوں نے وہ کچھ دیکھا کہ انسان صرف تصور ہی کر سکتا ہے۔۔

جب پہلا پرچہ شروع ہونے جارہا تھا تو ہم اپنے دوست کے ساتھ اپنی روش کے مطابق پانچ منٹ لیٹ پہنچے، اور لیٹ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم صبح صبح اپنے رٹے کو تازہ کرنے کی کوشش کررہے تھے، یا شاید فوٹو میموری کے ذریعے کورس کی تصاویرآنکھوں سے کھینچ رہے تھے، مگر ہر امتحان میں یہی معمول ہے اور لیٹ ہونے کا ریکارڈ ابھی تک نہیں ٹوٹاحتی کہ PMS اورCSS میں بھی اپنی روش پر قائم رہے۔۔ خیر سٹاف والے ہم سے بھی سست ثابت ہوئے اور ابھی تک جامہ تلاشی میں مصروف تھے۔ایک کچڑی داڑھی والے حضرت صاحب جس کے چہرے پر مصنوعی رُعب نے ڈیرے ڈالے تھے اور چہرہ ءِ انور سے نور کے قطرے ٹپک رہے تھے لڑکوں کی جامہ تلاشی کچھ اس انداز سے لے رہے تھے جیسے مقابلہءِ حسن میں ماڈل لڑکیوں کے کَس کر ناپ لیے جاتے ہیں۔ پھر لڑکوں کی شلواریں جھاڑی گئیں، کیونکہ ہم پشتون تو ڈھیلی ڈھالی شلوار پہنتے ہیں جس میں اتنی تہیں اور کپڑا لگتا ہے کہ پچاس یورپی خواتین کے سمر سوٹ ایک شلوار سے سِل جائیں۔اسی لئے تو سائیکل یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نئی شلواروں کے پائنچے گھٹنوں تک پھاڑ لیتے ہیں اور پرانے کے پہلے سے پھٹے ہوتے ہیں۔اب کیا دیکھتے ہیں کہ قمیص کی جیبوں ، آزاربند کے نیفوں اور جرابوں سے تعویذ اور پرچیاں برآمد ہورہی ہیں،اچھی بھلی صورت اور سُنت موکدہ پر پورا اترنے والے لڑکوں کے آزاربند بھی پرچیوں سے بھرے نکلے!جب میرے دوست کی باری آئی تو بارُعب چیکر نے اُس کے بدن کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کوئی پرزہ نہ نکلا ، شاید وہ بھی میری طرح بزدل تھا اور پھر یہی کچھ میرے ساتھ ہوا!

ایک تو اﷲ بھلا کرے یونیورسٹی کے کنٹرولر صاحبان کا کہ سارے امتخانات گرمیوں میں رکھ لیتے ہیں اور ہال بھی اتنے حبس زدہ ہوتے ہیں کہ دو لیٹر فی گھنٹے کے حساب سے پسینہ آتا ہے،اور جوابی پرچہ جات پر گیلی کہنیوں، ہتھیلیوں اور ٹپکے ہوئے پسینے کے قطروں کے متعدد نشانات بطورِ تصدیق ثبت ہوتے ہیں کہ امتحان واقعی مسلمانوں کا امتحان تھا !۔۔ کیونکہ مولوی صاحب بھی جب آخری امتحان کی بات کرتے ہیں تو سورج کو سوا نیزے پر لاکر سخت گرم ماحول بناتے ہیں اورقرائن سے ہمیں گنہگار ثابت کرکے خوب وعظ کرلیتے ہیں۔۔ ہم جوں ہی ہال میں بیٹھنے لگے تو ایک باریش اُستاد صاحب اُٹھے اور انگریزی میں تقریر شروع کردی، پھر کیا تھا کسی کے پلے کچھ نہ پڑ ا کیونکہ وہ انگریزی اپنی مادری پشتو لہجے میں بول رہے تھے اور جو انگریزی اُس نے بولی اگر برطانیہ والے سُن لیں تو اپنی زبان سے مکر جائیں۔۔ لیکن ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں ہے کہ ہر پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ شخص اچھی انگریزی بولے گا؟۔۔اور خود کو قابل ثابت کرنے کے لئے انگریزی میں بولنا کوئی شرط ہے؟ ۔۔یہ بھی دُنیا کے ہزاروں زبانوں کی طرح ایک زبان ہے اور اگر بندے کے پاس بولنے کے لائق کچھ ہو ، اور بولنے اور بکنے میں فرق سمجھتا ہو تو اپنی زبان میں اعتماد کے ساتھ بول کر داد بٹور سکتا ہے۔ اور ایسی انگریزی سے کیا فائدہ جو جگ ہنسائی کا سبب بنے۔۔ خیر اسکی تقریر ختم ہوئی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ نقل کسی بھی صورت اچھی نہیں(جو ہم نے سمجھاخدا جانے وہ کیا کہہ گیاتھا)۔

یہ مخلوط قسم کا امتحان تھا، مگر طلباء کے جنس کے لحاظ سے نہیں بلکہ مضامین کے لحاظ سے، کیونکہ اُردو والے طلباء بھی تھے، انگریزی ،اسلامیات والے بھی اور لاء کے سٹوڈینٹش بھی! ۔بہت سے فارغ تحصیل مولوی صاحبان بھی تھے،کیونکہ دینی مدارس کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ ،اگر پرائیویٹ ایم اے اسلامیات کی سند لگ جائے تو سکول کے قاری کی پوسٹ پکی سمجھو!۔ میرے آگے پیچھے جو احباب بیٹھے تھے سارے امتحان میں آرام سے نہ بیٹھے،کبھی آگے والے پر جھکے ہیں تو کبھی پیچھے والے سے گفت و شنید کے چکر میں ہیں، مگر میں نے اُنھیں لکھتے ہوئے نہ دیکھا!بہت سے چاپلوس مزاج لڑکے بھی موجود تھے جو ڈیوٹی والوں سے جان پہچان بنانے کے چکر میں بھانڈوں کی طرح ہنستے اور ڈیوٹی پر موجود سٹاف کو رجھانے کی کوشش کرتے۔ میرے دائیں جانب ایک صوفی صاحب بڑی سی شرعی پگڑی باندھے بیٹھے تھے،اور پگڑی اتنی نیچے ہو چکی تھی کہ کانوں کی لوئیں بمشکل نظر آرہی تھیں۔بلکل شریف اور منہ پر Don't Disturb me! کا بورڈ لگائے لکھنے میں مصروف تھے، مجھے بھی رشک ہو رہا تھا کہ آجکل کے دور میں بھی میرا ملک ایسے قابل اور ذہین لوگ رکھتا ہے جس پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں تو اپنی طرف سے کچھ الاپ شلاپ لکھ رہا تھا لیکن میرا دوست انگلیاں چٹخانے اور پانی پینے میں مصروف رہا۔انگلش والے میکبیتھ اور ہیملیٹ میں الجھے تھے تولاء والے اسلامی فقہ کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے تھے ،جبکہ ہم اُردو والے غالب ؔ کے صریرِ خامہ کے تازیانے سہہ رہے تھے جو نوائے سروش کے بغیر حل کرنا ناممکن تھے۔ہم تو پرائیویٹ سٹوڈینٹ تھے مگر ریگو لر کی حواس باختگیاں بھی قابلِ دید تھیں۔

ہال کا سٹاف تو ایک گھنٹہ اسلامی اصولوں پر کاربند رہا مگر پھر یکایک کایا پلٹ ہوئی، اور وہ پر پُرزے نکلے کہ الامان الحفیظ!۔۔ میں جب پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا تھا ،اُس زمانے کے ہمارے ایک استاد "ج"صاحب بھی میرے اس امتحان کے ایگزام فیلو تھے اور مجھ سے ایک میٹر بائیں جانب بیٹھے تھے۔"ج" صاحب اُردو کے امتحانات میں کئی معرکوں کے شکست خوردہ تھے ۔۔اُنھوں نے اپنی تشریف ایک عدد اُردو گائیڈ پہ رکھی تھی جس کے نیچے متفرق پرچیوں کا ایک گھونسلاسا بنا ہوا تھا۔۔ "ج" صاحب کو جب ہال کے بے حال ہونے کا ادراک ہوا توتشریف کے نیچے سے ایک ایک پر چی نکالنے لگے ،اور اسے سکھانے کے لیے ایک دو پھونکیں مارتے اور پھر اسکی تہیں کھول کر سوالیہ پر چے پر نظر ڈالتے اور سر نفی میں ہلا کر سامنے والے کی کرسی کے نیچے پھینک دیتے۔۔ میرے سامنے سٹیج پر ردی پرزوں کی دو بوریاں بھر گئیں اور یہ سب وہ تعویذ تھے جس کی جوابی پر چے میں ضرورت نہ تھے۔۔ البتہ کام کی چیز یں چھان کر الگ کردی گئیں جس کے لیے اکثر لڑکے واش روم کے دو دو یا تین تین چکر بھی لگا آئے۔۔

آخری گھنٹے میں شرعی پگڑی والے صوفی صاحب اُٹھائے گئے، اور اُس کی پگڑی سے ایک عدد Blue Tooth (موبائل فون کے ساتھ بغیر تار کے کنیکٹ ہونے والا آلہ)برآمد کیا گیا اور یوں صوفی صاحب کی شرافت اور چُپ کا راز افشاں ہوا۔یہ سب کچھ اُن لوگوں کے منہ پر بھی تمانچہ تھا جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا دین دار طبقہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا واقف ہے۔۔ خیر صوفی صاحب سے چھینا گیا پرچہ دس منٹ کے بعد اُسے واپس کر دیا گیا مگر اُس کے علم کا دریا سوکھ چکا تھا اس لیے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلتے بنے۔۔!

پرائیویٹ کالجوں کے تحت ہونے والے امتحانات جس میں B.Ed ، M.Edاور ایس ڈی پی وغیرہ شامل ہیں کا تذکرہ نہ کرناتعلیم پر ظلم کے مترادف ہے۔ایسا ہی ایک ہا ل جو جنس کے لحاظ سے مخلوط تھا، میں "بوٹی بچہ" نقل کرنے کی ایک کامیاب تیکنیک تھی۔اکثر شادی شدہ طالبات کے شوہر نامدارامتحانی ہال کے باہر ایک ایک عدد بچے کے ساتھ موجود ہوتے۔اور جب پرچہ شروع ہوجاتا تو بچہ ماں کی جدائی میں بلکنے لگتااورپھر والد صاحب اسے چپراسی کے ذریعے ماں تک پہنچاتے اور سو روپے کا ایک نوٹ چپراسی کو بھی عنایت کرتے ۔ بچہ ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر خوش ہو جاتا اور ماں بچے کے نیکر سے تعویذ بر آمد کرکے سرشار ہوتی۔۔

ایک دفعہ ہمارے گھر کے سامنے ہائی سکول میں نقل کی ترسیل پر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، اور طالبات کی مائیں ایک دوسرے کے سروں سے دو دو گھچے بالوں کے نوچنے پر مجبور ہوئی جنہیں سرپھری ہوا لٹھ سمجھ کر گئی دنوں تک سکول میں ادھر اُدھر اُڑاتی رہی۔وجہءِ نزاع صرف اتنی سی تھی کہ امتحانی ہال کے دروازے پر موجود سپاہی (جس نے دھوپ سے بچنے یا کسی دوسری تکلیف کی وجہ کالی عینک بھی لگائی تھی) سے میری بیٹی کی پرچی اپنی بیٹی کو دلوادی۔۔ اور پھر ایک دوسرے کے کردار میں جتنی بھی کشیدہ کاری کی گئی کالی عینک والا سپاہی اُس کا مرکزی کردار تھا۔، اور وہ بیچارہ بھی اتنی عورتوں کے بیچ اپنی مردانگی کی سرِ عام تعریف سن کر کھسیانا سا ہوگیا۔۔۔ اسی طرح کے امتحانات میں ایک استانی نے جو ایمانداری کا مظاہر ہ کیا تو اُسے ہال کے بیچوں بیچ بیدسے پیٹا گیا۔۔اوراُس با اثر طالبہ کا کچھ بھی نہ بگڑا۔۔۔

لیکن دُنیا میں صرف برائی نہیں پنپتی ، بلکہ ایک مثبت قوت بھی موجود رہتی ہے البتہ وقتی طور پر کمزور ہوتی ہے ،لیکن جب حالات پلٹا کھائیں تو ایک دم سامنے آتی ہے اوردُنیا کا نظام متاثر کرتی ہے ۔ ہمارے پڑوس کے ایک بزرگ استاد صاحب کو اﷲ سلامت رکھے ساری زندگی ایمانداری پر قائم رہے۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اپنے ضلع کی حد تک ایک یہی ایماندار شخص دیکھا ہے جسے سخت القابات سے بھی نوازا گیا ، دھمکیاں بھی ملیں اور تبادلے بھی ہوئے مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کئی حرام خور اور موٹے پیٹ والے اُسے طنزیہ وایہ بھٹنڈا (یعنی ریگولر کسی ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ پرائیویٹ پڑھتے رہے)کہتے تھے اور آج بھی میں نے ان ٹکے ٹکے کے لئے بکنے والوں کے منہ سے وایہ بھٹنڈا کا طعنہ سُنا۔مگر بیسیوں یونیورسٹیاں سالوں کی محنت کے بعد بھی استاد صاحب جیساایک و ایہ بھٹنڈا پیدا نہ کرسکیں۔۔اﷲ استاد صاحب کی عمر دراز کرے اور فلاحِ اُخروی عطا کرے(اب ریٹائرڈ اور کافی ضعیف ہیں) اگر اس جیسے چند لوگ معاشرے میں اور آگئے تو کوئی کسی حق دار کا حق نہیں چھینے گا۔ نہ تعلیم کی بولیاں لگیں کی اور نہ پرچے تبدیل ہوں گے۔۔ نہ پرائیویٹ سکول نمبر ون کی دوڑ میں ہال خریدیں گے اور نہ بورڈ میں اثر و رسوخ والے پرچے تبدیل کریں گے۔لیکن گزارش بس اتنی سی ہے کہ خدارا امتحانات کا سسٹم درست کرلو کیونکہ آج جو چند شوریدہ سر کتاب سے رشتہ جوڑنے والے اور راتوں کوپڑھنے والے آٹے میں بقدرِ نمک باقی ہیں اگر یہی روش رہی تو کل شاید یہ بھی نہ رہیں!۔۔ اساتذہ سے بھی درخواست ہے کہ اپنی حق حلال کی روزی پر قناعت کریں ۔۔ مرغن کھایا یا دال کچھ فرق نہیں پڑتا سب کا انجام ایک ہی ہے لیکن حلال کے لقمے سے جو خودی اور غیرت پیدا ہوتی ہے اور بڑائی کا جو احساس انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اُسے موت بھی نہیں مٹا سکتی اور اسی کے بارے میں اقبالؒ فرماگئے ہیں کہ:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خودگیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے!

Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 32686 views I am a realistic and open minded person. .. View More