وحدت واجتماعیت……اسلامی معاشرے کی اساس

 ناظم :وحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان

٭زمانہ جاہلیت
تاریخ کاوسعت قلبی اور عمق کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی اس لحاظ سے زمانہ جاہلیت ہے کہ اس میں انسانی معاشرہ بے پناہ خرابیوں ،ظلمتوں اور تاریکیوں میں ڈوباہوا تھا۔اس معاشرے میں مذہبی،لسانی،قومیتی،جغرافیائی اور طبقاتی عصبیتیں رچی بسی ہوئی تھیں۔ہر فرد ،ہر قبیلہ،ہر حاکم اور ہرپیروکارِ مذہب فقط اپنی مستی احوال میں مگن نظر آتاتھا۔ان کو اس امر سے کوئی سروکار نہ تھا کہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر کیاحق ہے؟غریب،مزدور،ضعیف،ماں ،بہن، بیٹی،بیوی اور اپنے بھائیوں تک سے بھی محبت و الفت کا رشتہ استوار نہ تھا بلکہ ہر ایک اپنی ذاتی استراحت و عیاشی کے لیے دوسر ے انسانوں کے حقوق پر شب خون مارتاتھا۔ تمام مذاہب کے رہبر و راہنما انفرادی طور پر عبادتوں کا روایتی التزام تو ملحوظِ خاطر رکھے ہوئے تھے مگر اجتماعیت کے لحاظ سے وہ بھی ان تنگ نظریوں سے پاک نہ تھے ۔عیسائیت اور یہودیت کے محافظوں میں خلاف فطرت گروہ بندیاں موجود تھیں۔ہندوؤں میں برہمن ، ویش ، کھشتری اورشودرکے نام پر معاشرہ بٹاہواتھا۔سلطنت روم و فارس داخلی عصبیتوں کی محافظ تھیں اور اس امر قبیح پر وہ اظہار تفاخر کرتے تھے۔ الغرض ہر فرد پرتعیش انفرادی زندگی گذارنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرنے میں تامل نہ کرتاتھامگر اجتماعیت کا جنازہ نکل چکا تھا۔زمانہ جاہلیت میں افراد ،معاشرہ اور ریاست کے مابین تعلقات تھے بھی تو وہ بھی انکے ذاتی مفادات و مصالح پر مبنی ہوتے تھے یعنی کہ جب مفاد مکمل ہوجاتا تو تعلقات اس طور پر منقطع کردیے جاتے تھے کہ گویا ان کے مابین کبھی کوئی علاقہ تھاہی نہیں۔

٭اسلام کی آمد اور بعثت نبویﷺ
بعثت نبویﷺ سے قبل چہار اطراف ظلمتیں ،تاریکیاں،عصبیتیں،قومی تفاخر ،لسانی و مذہبی تقسیمات رچ بس چکی تھیں۔مزدور کے حق کو غصب کیا جارہاتھا،ماں ،بہن،بیٹی اور بیوی کے حقوق کی حق تلفیاں کی جاتی تھیں،حصول جاہ و منزلت کے لیے اپنے والدین سمیت خونی رشتوں کا بھی قتل عام کیا جاتاتھا۔ایسے میں اﷲ تعالی نے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں کی بیخ کنی شروع فرمائی، اس امر کا واضح یہ مطلب تھا کہ اﷲ تعالی انسان کے ذاتی عابد و بزرگوار بننے سے بے پرواہے جب کہ اﷲ کے ہاں اجتماعیت ،بہترین اخلاق ،انسان دوستی،صلح رحمی،رنگ و نسل کی تقسیمات سے دوری،مساوات اور عدل مطلوب و مقصود ہے۔اسی لیے اﷲ تعالی نے نبی آخرﷺ کی بعثت فرماکر ان پر وحی کے ذریعے انسانی زندگی کے کامل ضابطے کے نازل فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔اسلام نے انسانیت کو مجموعی نظام زندگی سے متعلق مکمل راہنمائی بیان فرمادی ہے ۔اسی پسِ منظر میں قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے متعدد مقامات پر اتحاد و اتفاق یا اجتماعیت کے احکامات بیان فرمائے۔قومیت وعصبیت سے متعلق اﷲ نے فرمایاکہ ’’یاایہاالناس انا خلقنٰکم من ذکر و انثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا،ان اکرمکم عنداﷲ اتقٰکم،ان اﷲ عیلم خبیر(سورہ حجرات آیۃ 13) ‘‘ ترجمہ :’’اے لوگو!ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور اس لیے کنبے اور قبیلے بنادئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانو،اﷲ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والاہے‘‘ ایک اور مقام پروحدت امت کی نشانی بیان کرتے ہوئے اﷲ نے فرمایا کہ ’’ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃوانا ربکم فاتقون( سورہ المؤمنون آیۃ 53)‘‘ ترجمہ:’’یقیناًتمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں پس مجھ سے ڈرتے رہو‘‘۔

اسلام گروہ بندی سے منع کرتا ہے اس سلسلہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا گیاہے کہ ’’واعتصموا بحبل ﷲ جمیعاًوالاتفرقواواذکروا نعمت اﷲ علیکم اذ کنتم اعداً فاالف بین قلوبکم فااصبحتم بنعمتہ اخوانا،وکنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا،کذلک یبین اﷲ لکم اٰیٰتہ لعلکم تھتدون(سورۃ آل عمران آیۃ 103)‘‘ترجمہ:’’اﷲ تعالی کی رسی کو سب مل کر تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اﷲ تعالی کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ،تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے،اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچالیا ۔اﷲ تعالی اسی طرح تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘۔عصر حاضر کے معروف اسلامی سکالرحضرت سید سلمان ندوی فرماتے ہیں کہ’’ (حبل اﷲ ) سے مراد اﷲ کا دین ، اﷲ کی شریعت اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات و اسوہ حسنہ ہے،اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر فرد انفرادی طور پر حبل اﷲ کو تھام لے بلکہ اﷲ تعالی کو مسلمانوں کی اجتماعیت و اتحاد مطلوب ہے جیسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’یداﷲ علی الجماعۃ ‘‘اﷲ کاہاتھ جماعت(اجتماعیت) پر ہے(مستدرک الحاکم ج 1ح399سند صحیح)۔ اﷲ نے اسی اجتماعیت کو ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘(سورہ الحجرات آیۃ10)بیشک مؤمن آپس میں بھائی ہیں سے تعبیر کیا ہے‘‘۔ملت اسلامیہ کے باہم اتحاد و اتفاق سے متعلق آپ ﷺ نے بہت سے فرمان صادر فرمائے ہیں ان میں سے ایک کی جانب اشارہ کرنا لازم جانتاہوں کہ جب ہجرت کے بعدمؤاخات کی مضبوط بنیادوں پرمدینہ میں ریاست اسلامیہ قائم ہوئی تومسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کے لیے شاس بن قیس یہودی نے قبیلہ اوس و خزرج کے مابین ماسبق دشمنی کا حوالہ دیکر ان کے زخموں کو کریدنا چاہا ،آپﷺ کو جب یہ معلوم ہوا توآپﷺنے ان کی شریعت اسلامیہ کے مطابق راہنمائی فرمائی۔اسی طرح نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجر و انصار کے درمیان بھائی بندی فرمائی۔صحابہ کرامؓ کی اخوت و بھائی چارگی کی داستانیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔یعنی اسلام کی آمد کی برکت سے عرب قبائل جو چھوٹی باتوں پر سالہا سال جنگ کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنے تفاخر جاہ و حشمت پر حرف نہ آنے دیتاتھا ، آپس میں ایسے شیر و شکر بن گئے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو یا سیدی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔اسی بات پر شاعر نے کیا خوب کہا کہ
جو خود نہ تھے راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

٭عصرحاضرمیں مسلمانوں کی حالت زار
بعثت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم سے قبل جو صورتحال انسانیت کو درپیش تھی یقینا اس کا سبب یہ بھی تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت 570ب م تک کوئی نبی و رسول اس قوم میں نہیں بھیجا گیااور نہ ہی ان کے پاس کوئی واضح پیغام بر مبنی راہنماکتاب موجود تھی۔571ب م میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔لیکن بعثت نبویﷺ کے ساتھ ہی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں آپ کے بعد کوئی پیغمبر و رسول تاقیامت مبعوث نہیں ہوگا بلکہ قیامت کی صبح تک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت قائم رہے گی اور قرآن و حدیث کی شکل میں ملت اسلامیہ کے پاس رہنما دستور موجود ہیں۔ رحمت دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم جو کہ معاشرے سے زمانہ جاہلیت کی تمام قباحتیں مٹانے آئے تھے آج آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام لیوا ان تمام خرابیوں میں لت پت ہوچکے ہیں۔ گویا کہ زمانہ جاہلیت کی وہ سب کی سب خرابیاں آج مسلم معاشرے میں موجود ہیں ۔لوٹ مار ، حق تلفی،زنا،حرام خوری،شراب نوشی،مزدوروں پر جور و ستم کے پہاڑ توڑنا ،ذاتی و قومی بالادستیوں سمیت تمام امراض آج بھی من و عن موجود ہیں۔بلکہ ملت اسلامیہ چند ہاتھ آگے بھی نکل چکی ہے قومی،لسانی،سیاسی و مذہبی ،رنگ و نسل،علاقائیت سمیت بے پناہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر گروہوں میں بٹ چکی ہے۔پاکستان میں ہی اسلامی معاشرے کا حال دیکھ لیجیے کہیں پنجابی،بلوچی،مہاجر ،پٹھان اور سندھی کی تقسیم موجود ہے توکہیں سیاسی گروہ بندیوں میں ملت گم ہے۔ کہیں سلفیت، دیوبندیت، بریلویت سمیت متعدد چھوٹے بڑے گروپوں میں مذہبی وحدت کا شیرازہ بکھر چکاہے۔عدم برداشت و رواداری کی فضا اس حد تک ناپید ہوچکی ہے کہ فروعی اختلاف کی بنیاد پر ناصرف دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے جاری کردیے جاتے ہیں بلکہ اپنے مخالف فریق کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے ان پر عرصۂِ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ہرگروہ اپنے آپ کو جنتی و کامیاب تصور کرتا ہے اور اپنے مخالف کو دوزخی اور ناکام و نامراد ٹھہراتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک پاک میں اسلامی نظام عملاً نافذالعمل نہیں ہوسکاجبکہ یہ ارض پاک خالص دو قومی نظریہ پر حاصل کی گئی تھی۔

٭اتحاد ملت پرمسلم مفکرین کی آراء
مسلمانان عالم کی بالعموم اورمسلمانان پاکستان کی بالخصوص حالت ناگفتہ بہ ہے روز بروز تنزل و پستی میں گرتے جارہے ہیں۔اس کا سبب صاف ظاہر ہے کہ ملک پاک جس اساس کی بنیاد پر حاصل کیاگیا تھا 66 برس گذرنے کے باوجود اس پر عمل نہ ہو سکا ۔تحریک آزادی کی صدا میں اس امر کو بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا کہ ملت اسلامیہ مجتمع ہوجائے اسی لیے انہوں نے تحریک آزادی میں دوقومی نظریہ کو بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کیا ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کے دست راست علامہ اسد ؒ دو قومی نظریہ کی اصل معنویت بیان فرماتے ہیں کہ ’’اگر اسلام ہمارے لیے مقصود بالذات اور ایک اخلاقی داعیہ نہیں ہے ،اگر اسلام محض ایک عادت ،ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپہ بن کر رہ گیا ایسی صورت میں یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی عددی قوت کے بل پر پاکستان قسم کی کوئی چیز حاصل کر لیں،لیکن ایساپاکستان اس پاکستان کے برابرنہ ہوگا جسے حاصل کرنے کے لیے اﷲ نے ہمیں بے حد و بے شمار امکانات سے نوازا ہے۔ایساپاکستان بے شمار قومی ریاستوں کے منقسم ہجوم میں ایک اور ’’قومی ریاست‘‘سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔بہت سی ریاستوں سے اچھایا بہت سی ریاستوں سے برا۔مسلم عوام کے تحت الشعور میں بسا ہواخواب اور ان لوگوں کے شعور میں آیا ہواخواب جنہوں نے پہلے پہل پاکستان کی باتیں اس وقت کیں جب یہ پردۂ شہودمیں نہ آیا تھاوہ خواب کیا تھا؟وہ خواب یہ تھا کہ ایک ایسی ہئیت حاکمہ کا قیام جس میں رسول اﷲﷺکے اسوۂ حسنہ اور سنت کو ہر قدم اور ہر پہلوسے حقیقت کا جامہ پہنایاجاسکے‘‘(ہم نے پاکستان کیوں بنایاصفحہ 27)۔ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق اور ان کا اجتماعیت کی حامل زندگی بسر کرنا ہی ان کا امتیاز اصلی ہے اسی سلسلہ میں چندعلماء مفکرین کے اقوال نقل کرتاہوں۔

مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبے کو فروغ دینے کے سلسلے میں نماز باجماعت کی مصلحتوں پر برصغیر کے عظیم سیر ت نگار سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ یوں رقم طراز ہیں کہ ’’جماعت کی نمازمسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے ،یہاں امیر وغریب ،کالے گورے،رومی و حبشی،عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے۔سب ایک ساتھ ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔یہاں شاہ وگدا اور شریف وذلیل کی تفریق نہیں ،سب ایک زمین پر ایک امام کے پیچھے ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا‘‘(سیرۃ النبی ،جلد 5صفحہ 572)اسی حقیقت کو علامہ اقبال ؒنے یوں آشکارا کیا ہے کہ:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

برصغیر کے عظیم خطیب و ادیب حضرت مولنا ابو الکلام آزاد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ’’دنیا کے تمام رشتے ،عہد ،مودت، خون و نسل کے بندھے ہوئے پیمان وفاومحبت ٹوٹ سکتے ہیں مگرچین کے مسلمانوں کو افریقہ کے مسلمانوں سے،ایک عرب کے بدو کو تاتار کر کے چرواہے سے اور ہندوستان کے ایک نومسلم کو مکہ مکرمہ کے صحیح النسب قریشی سے جو رشتہ پیوست و یک جان کرتاہے ۔دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو اسے توڑ سکے اور اس زنجیر کو کاٹ سکے جس میں خدا کے ہاتھوں نے انسانوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے جکڑ دیاہے‘‘(خطبات آزادصفحہ 81)

شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ’’جوکچھ قرآن حکیم سے میری سمجھ میں آیا وہ یہ کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کاداعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتاہے جو اس کی قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے‘‘(حرف اقبال صفحہ نمبر 222)علامہ کے نزدیک مقصد تخلیق انسان ،نظام اجتماعیت کے قیام اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتاہے۔خطبہ الٰہ آباد کے موقع پر علامہ ہندوستان میں مسلم قومیت کے بقاء کے لیے فرماتے ہیں’’اسلام کا ظہور بت پرستی کے خلاف ایک احتجاج کی حیثیت رکھتاہے اور وطن پرستی ،بت پرستی کی ایک صورت ہے۔ہر چند کہ حب الوطن کو مذموم متصور نہیں کیا گیاکیوں کہ انسان کی تخلیق اسی مٹی سے کی گئی ہے جس سے پیار ایک فطری امر ہے لیکن جب یہ امر وحدت ملت کی راہ میں سدراہ ہوتو قطعاًقابل تسلیم نہیں ہے۔محمد رفیق افضل گفتار اقبال کے صفحہ 178پرقول اقبال لکھتے ہیں ’’اسلام ایک عالم گیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی ،جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہوں اورسرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی ۔دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کردے گا ۔غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض ایک خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے‘‘علامہ نے وحد ت اور اجتماعیت ملت کی اہمیت پربے پناہ اشعار تحریر کیے ہیں۔علامہ ایک شعر میں فرماتے ہیں ……!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہاکچھ نہیں موج ہے دریامیں اور بیرون دریا کچھ نہیں

٭تجاویز:
مسلمانوں کی اجتماعیت کیسے قائم ہوسکتی ہے اس پر چند تجاویز پیش خدمت ہیں:
اول :مسلم امت کو چاہیے کہ اصول دین اور فروع دین میں فرق کریں اور اصول دین پر اگر اختلاف واقع ہوجائے تو اس پر اجتماعی رائے قائم کرنی چاہیے رہی بات فروع دین میں اختلاف کے واقع ہونے کی تو یہ اختلاف اچھاہے تاکہ معاشرے کے اہل علم ایک مسئلہ کے حل کو مختلف طور و طریقوں سے بیان کریں۔البتہ یہ اختلاف ایک دائرہ میں محدود رہنا چاہیے اختلاف کو اختلاف تنوع بنایاجانا چاہیے نہ کہ اختلاف تضاداور افتراق کی حدوں کو چھونا شروع کردے۔

ثانی :ملک پاکستان میں تمام مسلکی بنیادوں پر موجود اختلافات کی بنیاد پر کسی کو کافر،مشرک یا واجب القتل قراردینے کی روایت کو ختم کیا جاناچاہیے۔اس کے لیے لازم ہے کہ اختلاف جوکہ اہل علم کے علم کو زنگ آلود ہونے سے بچاتاہے اس اختلاف کو علمی ،تحقیقی مجالس تک محدود کیاجائے کیوں کہ عامۃ الناس ان فروعی اختلافات کی حقیقت کو جانے بنا آپس میں حد بندیاں کرلیتے ہیں جس سے معاشرے میں بد امنی و فساد اور عدم برداشت کا رواج فروغ پاتاہے۔

ثالثا:حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام اہل علم کو یکجا کر کے ان سے بین المسالک ہم آہنگی کی فضا پیدا کروانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔یعنی ان امور پر دقت نظر رکھے کہ جن کے سبب اختلاف، اختلاف تضاد تک پہنچ جاتاہے مثلاًدوسرے مسالک کے اکابرین کے خلاف زبان و بیان اور تحریر کے ذریعے تضحیک و تحقیر کرنا شامل ہے۔ہمارے معاشرے میں چونکہ قومی و لسانی بنیادوں پر بھی تقسیمات موجود ہیں اس لیے حکام وقت پر یہ امر بھی عائد ہوتاہے کہ وہ ملک پاک میں تفاوت و تفاخر اور بالاتری کو ختم کرنے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کرتے ہوئے عدل و انصاف،مساوات اور بھائی چارگی پیدا کرے،وسائل کی دیانت داری پر مبنی تقسیم کرے ،تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات یکساں طورپر ملک کے سب باسیوں کو فراہم کرے۔تاکہ اس خطے کا کوئی فرد یاقوم و ذات احساس کمتری کا شکار ہوکر نت نئے طریقے اور نعرے سے گروہ بندی نہ کر سکے۔

رابعاً:موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے صرف نظر کرناممکن نہیں رہااس لیے لازم ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا معاشرے میں اتحادو اتفاق پیدا کرنے والی سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔جن امور سے معاشرے میں تفریق جنم لینے کا یقین یااندیشہ ہو اس کو میڈیا بریکنگ نیوز بنانے سے احتراز کرے۔

خامساً: علما ء اسلام پر لازم ہے کہ وہ معاشرے میں اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی ترغیب و دعوت دیں اور عوام کو فروعی اختلافات میں الجھانے کی بجائے ان کو اصول دین اورعامۃالناس کے حقیقی مسائل کی صحیح معنوں میں تعلیم دی جائے اور پھر بھی اگر اختلاف کے واقع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر برداشت و صبر کی تعلیم دی جائے۔

سادساً:اتحاد و اتفاق کے جو واحد مصدر ہیں وہ کتاب و سنت اور علما ء المسلمین کے وہ اجتہادات بھی ہیں جو قرآن و سنت سے متصادم نہ ہوں۔نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمان ہے کہ ’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفا راشدین کی سنت کو لازم پکڑو،اسے مضبوطی دانتوں کی سختی کے ساتھ سے تھام لو اور (دین میں)نئے نئے کاموں سے احتراز کرو ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے(سنن ابی داوؤد،باب فی لزوم السنۃ)اس سلسلہ میں کتاب و سنت میں اور بھی بہت سے نصوص وارد ہوئے ہیں،چناچہ اہل سنت والجماعت کا طریقہ اور دستور کتاب اﷲ اورسنت رسول اﷲ ﷺاور آپ کے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مکمل طور پر اختیار کرنا ہے اون کو قائم رکھے یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پر عمل کرتے ہوئے دین کو قائم رکھتے ہیں۔آپ ﷺ نے ایک اور مقام پر اہل سنت والجماعت کی نشانی بیان فرمائی ہے کہ وہ لوگ میرے اور میرے صحابہؓ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اسی روایت کی روشنی میں شاید علامہ نے فرمایا تھا
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

آخری بات
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین وحدت ہے اور نبی مکرم کی بعثت کا مقصد بھی ایک اعلیٰ اخلاق و صفات کا حامل اجتماعی معاشرہ تشکیل دیناتھا کہ ہر فرد اپنے آپ پر دوسروں کے فرائض کی اہمیت کو جانے اور اپنی ذمہ داریوں میں کسی طور پر بھی کوتاہی سے کام نہ لے ۔اسلام میں رہبانیت نہیں ہے بلکہ اجتماعیت ہے کوئی فرد تنِ تنہا پنپ نہیں سکتا کیوں کہ اس کے مختلف کردار ہیں مثلاًباپ،بیٹا،بھائی،داماد،پڑوسی،استاد اور حاکم وغیرہ …………! اس لیے ان تمام کرداروں کو دیانت داری سے ادا کرنا ہر عاقل و بالغ اور باشعور پر لازم ہے ۔جیساکہ اقبالؒ نے معاشرے میں موجود ہر فرد کے کردار کو اہم کہا اور فرمایا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

امت میں علمی نوعیت کے فروعی اختلافات نے موجود رہنا ہے جبکہ ایسا شریعت میں قابل مذمت بھی نہیں بلکہ یہ امر قابل ستائش ہے۔لہٰذا علمی نوعیت کے فروعی اختلافات کو اختلافی حدود میں میں رکھتے ہوئے تنازع کی جانب لے جانے سے احتراز کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ،خاکم بدہن ماسبق میں بیان کردہ باتوں کو سنجیدہ نہ لیا گیا تویہ ملت یونہی منقسم ٹکڑوں میں بٹی رہے گی اور ذلت و رسوائی اب کی طرح اس ملت کا مقدررہے گی۔

atiq ur rehman
About the Author: atiq ur rehman Read More Articles by atiq ur rehman: 125 Articles with 118620 views BA HONOUR ISLAMIC STUDIES FROM INTERNATIONAL ISLAMIC UNIVERSITY ISLAMABAD,
WRITING ARTICLES IN NEWSPAPERS SOCIAL,EDUCATIONAL,CULTURAL IN THE LIGHT O
.. View More