اﷲ کو پیاری ہے قُربانی

عید الاضحی کو ہم اپنی زبان میں عیدِ قُربان کہتے ہیں ۔یہ دِن اُس قُربانی سے منسوب ہے جب حضرت ابراہیم ؑ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آ نکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑکے حلق پر چھُری چلائی ۔قربانی قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ دُنبہ قُربان ہوا۔اِسی دن کی مناسبت سے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان سنّتِ رسول ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے حسبِ استطاعت جانور ذبح کرتا ہے لیکن کچھ لوگوں نے اسے بھی نمودو نمائش کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر رہائش پذیر ایک شخص نے 4 اونٹ اور 12 بکرے ذبح کرکے پوری سوسائٹی میں اپنی امارت کی دھاک بٹھا دی اور ہم جو دو بکرے لا کر اترا تے پھر رہے تھے ، شرم سے پانی پانی ہو گئے ۔ربّ ِ کردگار کے نزدیک قُربانی پسندیدہ ترین فعل ہے ۔اُس کی راہ میں جان قربان کرنے والے کے لیے اُس کا فرمان ہے ’’شہید کو مُردہ مت کہو ، وہ زندہ ہے اور اپنے ربّ کے ہاں سے خوراک حاصل کر رہا ہے البتہ تمہیں ادراک نہیں‘‘۔مال کی قربانی بھی ربّ ِ کائینات کو مرغوب ہے اسی لیے حکمت کی عظیم ترین کتاب کہتی ہے ’’میں بھوکا تھا ، کیا تُم نے مجھے کھانا کھلایا؟۔میں پیاسا تھا ، کیا تم نے مجھے پانی پلایا؟‘‘۔ سبھی جانتے ہیں کہ اﷲ تعالےٰ بھوک اور پیاس سے بے نیاز ہے ۔ اِس فرمانِ ربی سے مراد یہ ہے کہ اُس کی طرف سے عطا کیے گئے رزق میں سے اُس کی مخلوق کی خدمت کی جائے ۔ہم قربانی تو ضرور کرتے ہیں اور مفلسوں ، مسکینوں میں گوشت بھی تقسیم کرتے ہیں لیکن ایسا گوشت جسے ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں نہ اپنے امیر رشتے داروں کے لیے ۔اب اﷲ ہی جانتا ہے کہ ہماری نمائشوں بھری قربانی اُس کی بارگاہ میں کہاں تک قبول ہوتی ہے ۔

میں بھی کیا قصّہ لے بیٹھی ، عید تو جَلی کَٹی سنانے کی بجائے ہنسنے ہنسانے اور خوشیاں منانے کا دن ہے ۔اگر خوشیاں منانے کے ساتھ ہی ساتھ ’’ٹھُمکا‘‘ بھی لگا لیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ۔اگر کوئی صرف ٹھُمکے دیکھنے کا شوقین ہو تو ٹی۔وی آن کرکے کوئی بھی پاکستانی چینل آن کرکے دیکھ لے جہاں مرد و خواتین اینکرز ، اداکار ، اداکارائیں اور بھانڈ متواتر تین دن سے ٹھُمکے لگاتے اور ہلّا گُلا کرتے نظر آ رہے ہیں۔انہی خوشیوں کی مناسبت سے ہماری گزری عید کے گزرے لمحات کا قصّہ بھی سُن لیجئے ۔ہوا یوں کہ عید سے ایک روز پہلے ہم نے بکرے خریدے اور گھر کے لان میں باندھ کر اُن کی خاطر تواضح میں مصروف ہو گئے ۔اُن میں سے ایک بکرا تو بڑا ’’شریف‘‘ لیکن دوسرا اکھڑ مزاج تھا اوریوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُس کے اندر غصے کا سونامی ٹھاٹھیں مار رہا ہو ۔شریف بکرا اگرچہ موٹا تازہ اور خوب پلا ہوا تھا لیکن دُبلا پتلا غصیل بکرا پھر بھی اُسے ٹکر مارنے سے باز نہیں آتا تھا ۔ہمیں اگرچہ اُن کی لڑائی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا البتہ یہ خوف ضرور تھا کہ اگر کسی بکرے کا سینگ ٹوٹ گیا تو نقصان بہرحال ہمارا ہی ہو گاکیونکہ ایسا بکرا قُربان نہیں کیا جا سکتا۔ہم نے لاکھ کوشش کی کہ دونوں اپنی زندگی کے آخری چند گھنٹے صلح صفائی سے گزار لیں لیکن ہمارا اُردو ادب کسی کام آیا نہ شعر و شاعری اور نہ ہی کالم نگاری ۔تنگ آ کر ہم نے دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا کر دیا کہ اب وہ ایک دوسرے کو گھورتو سکتے تھے، سینگ نہیں پھنسا سکتے تھے۔

اصل مسٔلہ تب پیدا ہوا جب شام کوسونامی بکرے نے چلانا شروع کر دیا اوراُس کی آواز کے ساتھ ہی دائیں بائیں کے نوجوان بکروں نے بھی آسمان سر پر اُٹھا لیا ۔ہم بھاگم بھاگ باہر گئے اور بڑے جتن کرکے اسے چُپ کرایا لیکن جونہی ہم گھر کے اندر داخل ہوئے اُس نے پھر چلانا شروع کر دیا اور محلے کے بکروں نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملانا اپنا فرضِ عین سمجھا ۔ ہماری ساری رات یونہی آنے جانے میں بیت گئی ۔صبح اُٹھتے ہی میاں سے کہا کہ نماز کے بعد قصاب کو ساتھ ہی لیتے آئیں لیکن واپسی پر میاں خالی ہاتھ آ گئے ۔ہم نے پوچھا ’’ کہاں ہے قصاب ‘‘؟۔ وہ بولے ’’ نایاب‘‘ ۔ہم نے کہا کیا مطلب ؟۔ وہ بولے کہ آج موچی ، تیلی ،لوہار ، ترکھان ، نائی سبھی قصاب بنے ہوئے ہیں ، اصلی قصاب ملے گا تو قربانی بھی کر لیں گے ۔ہم نے پوچھا ’’کیا اصلی قصاب کے سینگ ہوتے ہیں یا وہ دُمدار ہوتا ہے‘‘ ؟۔ لاجواب ہو کرہمارے طالبان نما مسلمان میاں نے غصّے سے کھولتے ہوئے کہا ’’سارے عیسائی تو قصائی بنے ہوئے ہیں ۔کیا کسی عیسائی کو پکڑ لاؤں‘‘؟۔ مجھے میاں کی اِس ’’رجعت پسندی‘‘ پر بہت غصّہ آیا اور تبھی میں نے سوچا کہ اب خواہ کچھ بھی ہو جائے میں اپنی اوّلین فُرصت میں تحفظِ حقوقِ نسواں کی کسی این جی او کو ضرورجوائن کروں گی لیکن وقتی مصلحت کے تحت میں نے میاں سے لجاجت سے کہا کہ جو بھی ہو قصاب کا بندو بست تو بہرحال کرنا ہے ۔لیکن میاں میری ’’عرضداشت‘‘ پر کان دھرے بغیریہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے کہ اب پچھلے پہر دیکھیں گے۔

جب ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک چھلک کر نڈھال ہو گیا تو ہم نے تقریباََ چیختے ہوئے کہا ’’آپ قصاب ڈھونڈیں گے یا میں خودقصاب ڈھونڈنے نکل پڑوں‘‘؟۔میرا تیر نشانے پہ لگا ، میاں کی غیرت نے انگڑائی لی اور وہ جوتا پہن کر بُڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گئے اور ہم انتظار کی کٹھن وادیوں میں گھومنے لگے ۔اِس انتظار کی چبھن اِس لیے زیادہ محسوس نہیں ہوئی کہ ہماری محبوب حکومت نے ہمیں بجلی کے انتظار کی ’’لذت‘‘ سے خوب خوب روشناس کرایا ہوا ہے۔کوئی دو گھنٹے انتظار کی کوفت جھیلنے کے بعد ہم نے قصاب کی تلاش میں نکلے میاں کی تلاش میں اپنے بیٹے کو بھیجا ۔وہ تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوا اور کہا ’’بابا تو ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے ہیں‘‘۔ رنج اور غصے سے ہماری آنکھوں میں آنسو آتے آتے رہ گئے۔خون کے گھونٹ پیتے ہوئے ہم نے ابھی باہر جانے کا ارادہ باندھا ہی تھا کہ میاں ایک قصاب کو لے کر آن وارد ہو ئے ۔قصاب کی ناقابلِ رشک صحت دیکھ کر ہماری ہنسی چھوٹ گئی اور ہم نے میاں کے کان میں کہا کہ کیا اڑھائی کلو وزنی یہ قصاب بکرا ذبح کر لے گا؟۔میاں نے کہا یہ تو پتہ نہیں لیکن یہ اصلی اور نسلی قصاب ہے جس کی کئی لوگوں نے گارنٹی دی ہے ۔جب قصاب نے یہ کہا کہ وہ صرف ایک بکرا ہی ذبح کر سکتا ہے تو ہم نے جھٹ سے کہا کہ اِس ’’غصیل‘‘ بکرے کو ذبح کر دو جس میں گوشت تو پاؤ بھر نہیں لیکن ڈکارتا بھینسے کی طرح ہے ۔لیکن میرے میاں کی نظر موٹے تازے شریف بکرے پر تھی۔جب میں نے وجہ پوچھی تو میاں کہنے لگے کہ یہ اکیلا ہی کل سے پانچ سو روپے کا دانہ ، چارہ ڈکار گیا ہے ۔میں نے میاں کو سمجھایا کہ یہ منحنی سا قصاب اُس بکرے کو ذبح نہیں کر سکے گا اِس لیے اُس کی قربانی اگلے دن تک اُٹھا رکھتے ہیں ۔بات میاں کی سمجھ میں آگئی اور وہی بکرا ذبح کر دیا گیا جس کا میں نے کہا تھا ۔

میرا کالم ابھی ادھورا ہی تھا کہ ٹی۔وی پر بلاول زرداری کی تقریر شروع ہو گئی ۔میرا خیال تھا کہ نوجوان بلاول 18 اکتوبر 2007ء کے سانحہ کارساز پر بات کرے گا لیکن اُس نے آتے ہی نواز لیگ ، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم کو رگیدنا شروع کر دیا ۔یہ تو خیر بعد میں پتہ چلے گا کہ بلاول زرداری کتنے پانیوں میں ہے لیکن یہ بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اُس نے اپنی شہید ماں کی طرزِ تقریر کی نقالی کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔جیالے تو کبھی کبھار جھلک دکھلا کر غائب ہو جانے والے لندن کے باسی کے بارے میں یہی کہتے پھرتے ہیں کہ
گئے دنوں کا سراغ لے کر ، کہاں سے آیا ، کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ

لیکن حقیقت یہی ہے کہ بی بی شہید کا کوئی ثانی پیدا ہوا ، نہ ہو سکے گا اور بلاول زرداری تو ہر گز نہیں کہ وہ تو ارضِ پاک کی مٹی کی خوشبو سے بھی نا آشنا ہے ۔جنابِ آصف زرداری لاکھ کوشش کر لیں لیکن یہ طے ہے کہ کسی کے نام کے ساتھ بھٹو لگا دینے سے کوئی بھٹو نہیں بن جاتا ۔بلاول زرداری نے جیالوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ ہم مل کر غریبوں کا خون پینے والے ’’شیر‘‘ کا شکار کریں گے ‘‘۔ جس پر نواز لیگ کے مشاہد اﷲ خاں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ بلاول زرداری وڈیو گیم پر ہی شیر کا شکار کر سکتے ہیں ۔بلاول زرداری کو چاہیے کہ پہلے یہ تو پتہ کرے کہ اُس کی ماں کے قاتل کیوں نہیں پکڑے گئے‘‘۔ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف نے بھی بلاول کی تقریر پر حسبِ توفیق تبصرے کیے۔نیوز چینلز کو نوید ہو کہ بلاول نے اپنی تقریر کی صورت میں اُنہیں عید کا تحفہ دے دیا ہے۔ اُمیدِ واثق ہے کہ اگلے کئی دنوں تک سارے ٹاک شوز اسی تقریر کے گرد گھومتے رہیں گے۔
 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559354 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More