کسی قانون یا ضابطے کو شریعتِِ محمد ﷺ پر ترجیح دینا

جو شخص یہ سمجھے کہ کوئی ہدایت یا قانون نبی اکرمﷺ کی ہدایت اور شریعت وقانون سے جامع تر یا مکمل تر ہے یا یہ کہ کسی اور کا حکم وقانون آپ کے حکم وقانون سے بہتر ہے مثلاً وہ شخص جو طاغوتوں کے حکم وقانون کو نبی اکرم ﷺ کے فیصلے اور آپ کے قانون پر ترجیح دے، تو ایسا انسان کافر ہے۔

شرح:
ایمان اور کفر کا معاملہ کچھ خاص ’عبادات‘ کے اندر شرک کرنے یا نہ کرنے سے ہی متعلق نہیں بلکہ انسانی زندگی کے سماجی شعبے اور معاشرتی مسائل بھی ایمان اور کفر کے معاملہ سے براہ راست متعلق ہیں اور باقاعدہ طور پر ”شرک اور توحید“ کے دائرہ میں آتے ہیں۔

جدید معاشروں کی جو تشکیل ہوئی ہے اس کی بنیاد دراصل مغرب کے دیے ہوئے سیکولر نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ اس میں عبادت کے مفہوم کو ’پوجا پاٹ‘ اور ’مذہبی شعائر‘ rituals تک محدود کردیا گیا ہے۔ اس کی رو سے ’توحید‘ کا مفہوم آپ سے آپ سکڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کے بہت سے دیندار اور توحید کے داعی اپنی دعوت کا سارا زور ’مذہبی معاملات‘ کے اندر شرک نہ کیا جانے پر ہی لگا دیتے ہیں۔ آدمی خدا کے سوا بس کسی کی نذر ونیاز نہ دے، کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ جانے، خدا کے سوا کسی کو مدد کیلئے نہ پکارے تو بس وہ موحد ہے۔ رہے اس کے سماجی نظریات، معاشی فلسفے، اس کے سیاسی تصورات اور اس کا اختیار کردہ نظامِ مملکت تو یہ عموماً ان لوگوں کے ہاں شرک اور توحید کے دائرے میں آتا ہی نہیں۔ الا ما شاءاﷲ۔ یعنی یہ بحث میں آنے تک سے رہ جاتا ہے۔ مسئلۂ شرک و توحید کے ساتھ ان مسائل کا تعلق جوڑنا عام لوگوں کو تو کیا توحید کے بہت سے داعیوں کو اوپرا اوپرا سا لگتا ہے اور اس پر زور دینا تو اور بھی بعید از قیاس!

اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کے ان داعیوں نے اپنے آپ کو خود بخود اس سانچے Format کا پابند کر لیا ہے جو ان کی سوچ اور تفکیرکے لئے جدید معاشروں کے تخلیق کاروں نے مقرر ٹھہرا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نذر ونیاز، دُعا والتجا اور ذبیحہ وطواف میں شرک کا ہونا یا نہ ہونا موجودہ جاہلیت کے ہاں کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں۔ موجودہ جاہلیت کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہدایت لینے کیلئے انسان خدا اور اس کے رسول کے پاس نہ جائیں اور اگر جائیں تو خاص ’مذہبی معاملات‘ میں ہی خدا اور رسول سے ہدایت لیا کریں۔ باقی معاملات البتہ معاشرے کی قیادتوں کیلئے چھوڑدیں۔

پس اگر آدمی زندگی کے کسی معاملے میں رسول کی لائی ہوئی ہدایت پر کسی اور فلسفے یا نظریے یا ضابطے یا نظام یا طریقے کو ترجیح دیتا ہے تو دراصل وہ خدا اور رسول کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ اس کی زد نظامِ سیاست پر بھی پڑتی ہے۔ نظام تعلیم پر بھی۔ نظام معیشت بھی اس کی لپیٹ میں آتا ہے اور دیگر سب سماجیات بھی۔ افکار وفلسفہ جات بھی اور دستور وآئین بھی۔

اﷲ نے اپنے رسول پر جو کتاب اتاری ہے پہلے آسمانی صحیفوں کی بابت بھی اسے ”مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ“ سے موصوف کیا ہے۔ یعنی بالاوبرتر اور فوقیت پا کر رہنے والی۔ اگرپہلی آسمانی کتابوں کے معاملہ میں اس کی یہ حیثیت ہے کہ یہ ”بالا و برتر اور فوقیت پا کر رہنے والی“ رہے تو انسانی فلسفوں اور لوگوں کے خود ساختہ نظاموں اور قانونوں کی اس کے آگے کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ ان پر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ کا بالا وبرتر ہوکر اور فوقیت پا کر رہنا تو کہیں اولیٰ ہے اور اِس کی خاص اس حیثیت اور اِس برتری وفوقیت کا متاثر ہوجانا کفر کا مستوجب۔

یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کو علماءاہلسنت نے باقاعدہ نواقض اسلام یعنی وہ باتیں جن سے آدمی کفر کا مستوجب ہو جاتا ہے، میں شمار کیا ہے۔ پس یہ بہت ہی اہم بات ہے اور اس سے خبردار رہنا بے حد ضروری۔
جحود بھی نواقض اِسلام میں آتا ہے-

واضح رہے دِین کے کسی معلوم امر کا انکار کر دینا بھی مستوجب کفر ہے۔ مثلاً کوئی شخص نماز یا زکوٰۃ یا حج کی فرضیت سے انکار کردے یا مثلاً کہے سود میں کیا حرج ہے یا شراب میں کیا بُرائی ہے۔ یا مثلاً فحاشی اور بے حیائی کے مظاہر کو جائز قرار دے۔

اس معاملہ میں قاعدہ یہ ہے کہ جو آدمی دین کے معلوم فرائض میں سے کسی ایک کی بھی فرضیت کا انکار کرے یا اسلام کے ٹھہرائے ہوئے معلوم محرمات میں سے کسی ایک حرام کام یا حرام چیز کو بھی __ جانتے بوجھتے ہوئے__ جائز قرار دے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔

بے شک آدمی کسی فرض کا تارک ہے یا کسی حرام کام کا مرتکب، جب تک وہ خدا کی فرض ٹھہرائی ہوئی بات کو فرض، حلال ٹھہرائی ہوئی چیز کو حلال اور حرام ٹھہرائی ہوئی چیز کو حرام مانتا ہے تب تک وہ مسلمان ہے اور دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ رہا اس کا یہ عملی قصور کہ وہ کسی فرض کا تارک ہے یا کسی حرام کام کا مرتکب، تو وہ ”زیرِ مشیئت“ ہے یعنی خدا چاہے تو اس کو معاف کردے اور چاہے تو اس کو سزا دے اور بالآخر دوزخ سے نکال لے۔ ہاں البتہ اگر وہ خدا کے فرض کردہ کو فرض ہی نہ مانے یا شریعت کے ناروا کو روا کر لے، جبکہ وہ جان چکا ہو کہ خدا کی شریعت کا اس معاملہ میں کیا حکم ہے، تو ایسا آدمی یقینا دین سے خارج اور ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے۔

پس اول الذکر شخص محض مرتکبِ کبیرہ ہے اور گناہگار ہونے کے باوجود ملت میں شامل۔ جبکہ ثانی الذکر شخص ”استحلال“ (یعنی کسی حرام کو حلال کرلینا) کا مرتکب ہے اور اللہ اور رسول کے حکم کو مسترد کردینے کے سبب ملت سے ہی خارج۔

مثال کے ایک شخص شراب پیتا ہے یا سود کھاتا ہے، مگر مانتا ہے کہ اس کا یہ فعل حرام ہے اور خدا کی صاف نافرمانی، یہ شخص اگرچہ گناہگار ہے مگر مسلمان ہے۔ ایک دوسرا شخص شراب کو حلال کہتا ہے یا سود کو جائز کرتا ہے، ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے اگرچہ وہ ذاتی طور پر شراب نہ پیتا ہو یا خود سود نہ بھی کھاتا ہو۔ کیونکہ شراب پینا یا سود کھانا محض ایک گناہ ہے، جو کہ خدا کے ہاں اتنا بڑا جرم نہیں جتنا بڑا جرم شراب یا سود وغیرہ کو جواز دینا اور روا کرلیناکیونکہ یہ بات محض گناہ نہیں بلکہ کفر ہے اور شریعت کا صریح انکار۔ علمائے اسلام کے بیان میں یہ بات بہت واضح ہے۔

شراب اور سود محض ایک مثال ہے۔ دین کے کسی بھی ناروا کو روا کرلینا اور اسی کو قانون اور دستور ٹھہرا لینا اللہ کے دین کے اندر یہی حکم رکھتا ہے۔ یہ کفرِ بواح ہے اور ملت سے صاف صاف خروج۔
چونکہ امتِ اسلام کے کسی معلوم و متفق علیہ عقیدہ کو مستر کردینا کفر ہے لہٰذا ختمِ نبوت کا منکر بھی واضح اور صریح طور پر کافر ہے۔ نصوص ِ شریعت سے یہ بات واضح ہے او ر ملت کا اس پر اجماع ہے کہ محمد ﷺ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں۔گو محمد ﷺ کے بعد کسی اور شخص کی نبوت کا دعویٰ کرنے والا کئی دیگر ابواب سے بھی خارج از دین ٹھہرتا ہے۔
خدا ہمیں کفر کے ان سب رویوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔

Khalid Mahmood
About the Author: Khalid Mahmood Read More Articles by Khalid Mahmood: 24 Articles with 47982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.