قُربان ہونے تک

ہم سب جانتے ہیں کہ عید الاضحیٰ ہمیں ایک عظیم قُربانی کی یاد دلاتی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اور ہمارے قربان ہوتے رہنے کی حقیقت اپنی جگہ۔ اب عید الاضحیٰ کی آمد پر ہم جس بے ڈھنگے انداز سے قربان کئے جاتے ہیں اُس کی کوئی نظیر نہیں لائی جاسکتی!

قربانی کا جانور خریدنے کا ارادہ کرنے سے خریداری اور پھر ذبیحے تک ہر عمل، ہر مرحلہ ہمارے حلقوم پر سو سو بار چُھریاں پھیرتا ہے۔ اور سیانے اِسے ذبیحہ بھی نہیں سمجھتے کیونکہ انداز سراسر جھٹکے کا ہوتا ہے!

مویشی منڈی جائیے تو جانوروں کی قیمت سُن کر اپنی بے بضاعتی کا پوری شِدّت سے احساس ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج کا انسان جانوروں کی سطح پر آگیا ہے۔ ہم کہیں گے بالکل غلط۔ ہم کہاں اور جانور کہاں؟ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ اگر واقعی جانوروں کی سطح پر پہنچ جائیں یعنی جانور سمجھ لیے جائیں تو اپنی قدر و قیمت جان کر خوشی کے مارے چل بسیں گے! اور زندہ بھی رہے تو سَودا گھاٹے کا نہیں رہے گا کیونکہ اِتنی آؤ بھگت ہوگی کہ اپنی ’’اِنسانیت‘‘ پر شرمندگی سی ہونے لگے گی!

بہت سے لوگ قربانی کا جانور خریدنے منڈی کا رُخ کرتے ہیں تو خاصا وقت گزارنے کے بعد اپنا سا مُنہ لیکر خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں۔ دِل میں یہ خیال پنپ رہا ہوتا ہے کہ جتنی وقعت قربانی کے جانور کی ہے اُس کا 10 فیصد بھی میسر ہو تو آخرت نہ سہی، دُنیا ضرور پنپ جائے!

فی زمانہ قُربانی بڑے دِل گردے کا کام ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس کے لیے جگر نہیں، جگرا درکار ہے۔ قربانی کے جانور کی خریداری سے ذبیحے تک پورا عمل سراسر فن ہے، فنکاری ہے۔ کہیں کہیں یہ عمل کے ساتھ ساتھ علم کا درجہ بھی اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح بیماروں کو ٹوٹکے بتانے والوں کی کمی نہیں بالکل اُسی طرح قربانی کا جانور خریدنے نکلیے تو مشورے دینے والے شہد کی مکھیوں کی آپ پر حملہ کردیں گے! اِن خدائی فوجداروں میں سے کئی تو قربانی کے جانور خریدنے کے فن میں ایسے طاق ہوچکے ہیں کہ کسی طرح سفارت کاری کے میدان میں قدم رکھیں تو شاید ہی کوئی اُنہیں پچھاڑ پائے! منڈی میں قربانی کے جانور کو جس طرح تفصیلی طور پر چیک کیا جاتا ہے اگر رشتہ طے کرتے وقت لڑکے اور لڑکی کو بھی اُسی طرح جانچا اور پرکھا جائے تو ہمارے ہاں طلاق کی شرح اطمینان بخش حد تک گِر جائے!

جانور کی خریداری کا مرحلہ اِس قدر دلچسپ ہے کہ شاید خود جانور بھی محظوظ ہوتے ہوں گے! منڈی سے خریدے ہوئے جانور کو گھر لانے تک کا مرحلہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ جانور کا خیردار راستے میں لوگوں کو اُس کی قیمت بتاتے بتاتے اپنے وجود سے بیزار سا ہو جاتا ہے کیونکہ قیمت سُنتے ہی لوگ اُسے یوں گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ’’ابے گھامڑ! تجھ سے اچھا تو یہ جانور ہے جس کی کچھ قدر و قیمت تو ہے!‘‘

بچوں کو اگر اجداد کے بارے میں بتایا جائے تو اُن کا سَر فخر سے بلند نہیں ہوتا لیکن گھر کے آگے بندھے ہوئے قربانی کے جانور کو دیکھ دیکھ کر اُن سینہ فخر اور خوشی سے پُھولتا جاتا ہے! یہ منظر دیکھ کر خاندان کے بزرگوں کی رُوحیں تڑپ تو جاتی ہوں گی!

ذبیحے کی گھڑیاں وارد ہونے سے قبل تین چار دنوں میں جانوروں کا دیدار کرانے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں تگڑے جانور کی رَِسّی ہو اُس کا پورا وجود بھرپور اعتماد کی تصویر بن کر یہ مصرع گنگنا رہا ہوتا ہے ع
دیکھو اِس طرح سے کہتے ہیں سُخن وَر سہرا

بچوں میں بھرپور خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ تین چار دن تک قربانی کے تگڑے جانور کی رَسّی تھماکر اُنہیں گھمانے کا موقع دیجیے۔ اِس طرف نفسیات کے ماہرین کی توجہ ابھی گئی۔ ہم نے راز کی بات بتادی ہے تو عمل کرکے خوشگوار نتائج کا اندازہ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں!

جانور کی خریداری اور اُس کی ناز برداری کا مرحلہ گزرتا ہے تو ذبیحے کی منزل آتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ نے کوئی اور شعبہ کیوں منتخب کیا، چُھریوں، بُغدوں اور مِڈھیوں سے دِل لگاکر قصاب کیوں نہ بنے! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معاشرے میں اُس کی کچھ وقعت ہے تو ذرا عید الاضحیٰ کے تین دِنوں میں کسی قصاب کے سامنے کھڑا تو ہوکر دکھائے، لگ پتہ جائے گا! اِن تین دِنوں میں پاکستان کا ہر قصاب قربانی کرنے والے ہر شخص کو شہنشاہ سمجھ کر اُس کے دربار میں اپنا مُنہ موتیوں سے بھروانا چاہتا ہے! جانور کی کھال بعد میں اُترتی ہے، اُس سے بہت پہلے ’’صاحبِ خانہ‘‘ کی کھال اُتر چکی ہوتی ہے! اور یاد رکھیے، جانور کی کھال اُترتے وقت قصاب اِس بات کا پُورا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی cut نہ لگ جائے۔ قربانی کرنے والے کی کھال اُتارتے وقت ایسی کوئی احتیاط بلحوظِ خاطر نہیں رکھی جاتی!

ہمارے ہاں ٹین پرسنت کی روایت ایسی مستحکم ہوچکی ہے کہ اب قصاب برادری نے بھی اپنالی ہے۔ وہ زمانے گئے جب قصاب کچھ بھی لے کر جانور پچھاڑ دیا کرتے تھے۔ اب تو قربانی کے جانور کی قیمت کا 10 فیصد اُسے ذبح کرنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جی ہاں، قصاب جانور دیکھ کر کٹائی کے چارجز طے کرتے ہیں۔ اگر جانور ایک لاکھ کا ہے تو کاٹنے کا محنتانہ دس ہزار روپے۔ اگر پچاس ہزار کی رینج کا ہے تو کاٹنے کے لیے پانچ ہزار دیجیے۔ یعنی اب عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں ہر قصاب ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ بن بیٹھتا ہے!

جانور ذبح ہوچکا ہے تو یہ مت سمجھیے کہ آپ کا کام ختم ہوگیا۔ سب سے اہم مرحلہ تو اب شروع ہو رہا ہے۔ جی ہاں، گوشت کی تقسیم۔ اِس مرحلے سے بخوبی گزرنے ہی پر اندازہ ہوسکے گا کہ آپ کو رشتے نبھانے کا ہُنر آتا ہے یا نہیں۔ اور ساتھ ہی ہی ساتھ یہ بھی اندازہ ہوسکا ہے کہ خاتونِ خانہ پر آپ کا بس یا زور کس حد تک چلتا ہے۔ جو دِل کے جس قدر قریب ہوگا وہ اُسی قدر اچھا گوشت پائے گا۔ اِس حقیقت کو نظر انداز کرنے والے قربانی کے جانور کے ساتھ ساتھ نازک رشتوں کو بھی ذبح کر بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ میں تھوڑی بہت بھی سمجھ پائی جاتی ہے تو قربانی کے گوشت کی تقسیم میں وہی کیجیے تو اہلیہ محترمہ کہتی ہیں! اگر اُن کی تجویز کردہ تقسیم نہ اپنائی تو اُن کے دِل میں آپ کے احترام کے حلق پر چُھری پِھر جائے گی! اہلِ نظر ایسے مراحل میں کم آمیز رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گھریلو دانش مندی کا یہی تقاضا ہے۔

قربانی کے گوشت کی تقسیم کے بعد کھانے کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر تب تک آپ میں کچھ سکت رہ گئی ہے تو بہت بہت مبارک۔ ہمت سے کام لیجیے تو اپنا سب کچھ قربان کرکے خریدے ہوئے قربانی کے جانور کی چند بوٹیاں تناول فرمائیے۔

حالات اور زندگی بسر کرنے کے انداز نے قربانی کے انفرادی معاملے کو بھی اچھے خاصے extravaganza میں تبدیل کردیا ہے! ایک سُنّت پر عمل کے دوران اِنسان پر کئی زمانے گزر جاتے ہیں۔ جانور کے پچھاڑے جانے سے پہلے وہ خود بے چارا کئی مقامات پر ڈگمگاتا ہے اور کہیں کہیں تو گِر بھی پڑتا ہے۔ قربانی کے جانور کی خریداری سے اُس کے گوشت کی تقسیم اور پکائے ہوئے گوشت کو دستر خوان پر سجانے سمیت تمام مراحل سے آپ بخوبی گزر چکے ہیں یعنی اب تک سلامت ہیں تو آپ واقعی مبارک باد اور داد کے مستحق ہیں۔ قُربانی کے حقیقی جانوروں کو اﷲ تعالیٰ ہر عید الاضحیٰ کے بعد نئی زندگی عطا فرمایا کرتا ہے تاکہ وہ بار بار قربان ہوکر اجر پاتے رہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 482504 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More