یہ کونسی قربانی ہے!

چھری مصیبت میں مبتلا تھی۔ بڑی آزمائش تھی حکم خداوندی تھا کہ خبردار میرے اسماعیل ؑ کا ایک بال بھی بیکا کیا۔تجھے جنہم کی آگ میں جلادوں گا۔ ادھر ابراہیم خلیل اﷲ تھے۔اﷲ کے برگزیدہ پیغمبر،وجہ کائنات حضور اکرم ؐ کے جد امجد۔ وہ زور لگارہے تھے کہ کسی طرح سے چھری اسماعیلؑ کی گردن پر چل جائے۔ مگرچھری ہے کہ چلنے کا نام نہیں لے رہی ۔حضرت ابراہیم ؑ نے چھری کو حلقوم پر کھڑا کیا ۔ نبوت کا سارا وزن ڈال دیا۔کسی اور طرف راستہ نہ پاکر چھری دستے سے باہر نکل گئی مگر اسماعیل ؑ کو کوئی گزند نہیں پہنچایا۔آسمان والے انگشت بدنداں تھے زمین والے دم بخود کہ آج یہ کیا ہونے جارہا ہے۔ اﷲ تعالی کی کیا مصلحت ہے؟کیا اب باپ بیٹے کو ذبح کیا کریں گے؟ ادھر شیطان سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ ایک پیغمبر حکم رب ذوالجلال کی تابعداری و پاسداری میں اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے درپے ہیں۔ وہ فورا بوڑھے کی شکل میں حضرت حاجرہؓ کے پاس پہنچاکیونکہ وہ جانتا تھا کہ عورت کو جلد گمراہ کیا جاسکتا ہے پس ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ آج باپ بیٹا کہاں گئے ہیں انہوں نے فرمایا کہ اپنے کسی عزیز ترین دوست سے ملنے کسی خاص کام سے گئے ہیں۔ شیطان مکروہ ہنسی ہنسا اور کہا کہ حاجرہ ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑکو ذبح کرنے کیلئے لے گئے ہیں۔حضرت حاجرہ نے کہا ملعون کبھی کوئی باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کرتا ہے تو شیطان نے بتایا کہ اﷲ کا حکم ہے کہ اسماعیل کی قربانی دو۔ حضرت حاجرہ نے اس وقت جو فرمایا وہ تاریخ میں رقم ہوگیا آپؓ نے فرمایا تو پھرفکر کی کون سی بات ہے اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہوگی کہ میرے پیارے بیٹے کو اﷲ کے راستے میں قربان کردیاجائے۔ حصرت حاجرہ کا جواب سن کر شیطان نامراد لو ٹ گیا اور حضرت ابراہیم ؑ کے پاس پہنچا اور انہیں ورغلانے کی کوشش کی آپ ؑ نے فرمایا کہ یہ میرے رب کا حکم ہے جا دور ہوجا میرے پاس سے اور اسے سات کنکریاں ماریں اور وہ مردود زمین میں دھنس گیا۔اور اﷲ تعالی کویہ ادا اس قدر بھائی کہ قیامت تک مسلمانوں کیلئے دوران حج ایک اسوہ بنادیا

دوسری طرف ابراہیم ؑ اسماعیل ؑ کو بتا رہے ہیں کہ مجھے خواب میں حکم ہوا کہ کہ اﷲ کی راہ میں تمہیں قربان کردوں تمہارا کیا خیال ہے؟ اسمعیل ؑ نے فرمایاکہ اے والد محترم آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اس پر عمل کرڈالئے ان شا ء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ سبحان اﷲ کیا آداب فرزندی ہیں یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل ؑ کی آنکھوں پر پٹی باندھنا چاہی توذبیح اﷲ نے فرمایا ابا جان آنکھوں پرپٹی مت باندھئے مزہ تو تب ہے کہ باپ بیٹے کی نظریں بھی ملیں چھری بھی چلے۔اﷲ اکبر کیا فرمانبرداری واستقامت تھی چنانچہ لٹا دیا گیا چھری کو قریب رکھے پتھر پر رگڑا۔ بسم اﷲ پڑھی گلے پر چھری چلائی آسمانوں پرکہرام مچا ہواتھا جبرائیل علیہ السلام نے پکارا اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، اسماعیل نے فرمایا لا الہ الا اﷲ و اﷲ اکبر اور ابراہیم ؑ نے کبریائی و حمد بیان کی اﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد۔ ملائکہ و فرشتوں کے صبر کا پیمانہ لبریر ہوگیا۔ اﷲ تعالی نے جنت سے ایک خوبصورت مینڈھا(دنبہ) بھیجا چھری چل گئی اور دنبہ ذبح ہوگیا۔رب ذوالجلال کو یہ تمام ادائیں اس قدر پسند آئیں تو ہمیشہ کیلئے صاحب استطاعت مسلمانوں کو اس کا پابند بنادیا گیا ۔

اب اگر تاریخ انسانی کا بغور مشاہدہ کیاجائے اور حالات و واقعات کوبنظر غایت جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں قربانی کا تصور کسی نہ کسی انداز میں ملتاہے۔ ظہور اسلام سے پہلے بھی اور بعدمیں بھی انسان ہی انسانوں کی بھینٹ دیتا آرہا ہے، کہیں دریا نیل کو خوش کرنے کیلئے خوبصورت ناری کی قربانی دی جارہی ہے تو کہیں دیوی دیوتاؤں کو رام کرنے کیلئے انسانوں کی بلی چڑھائی جارہی ہے کہیں کالے افریقی اپنے دیوتاؤں کی رضا کی خاطرگوروں کو سولی پر لٹکا رہے ہیں تو کہیں خداؤں کی ناراضگی دور کرنے کیلئے جانوروں کو قربان کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب کسی بڑے شخض کے مرنے پر اس کے ساتھ کچھ ایسے خدمت گار لوگوں کو موت کے سفرپرروانہ کردیا جاتا کہ یہ لوگ یہاں کی طرح وہاں پر بھی ان کی خدمت کریں گے ۔کہیں طاقت کے حصول کیلئے توانا بیل اور مینڈھوں کو بلی چڑھادیا جاتا تھا۔ پیر و مرشد کو خوش کرنے کی خاطرکالے بکرے و مرغے کو بھی بھینٹ چڑھا جارہا ہے۔الغرض یہ کہ سب لوگ اپنے اپنے عقائد،رسم ورواج اورتہواروں کے مطابق اپنے خداؤں،دیوی ، دیوتاؤں حکمرانوں اور پیروفقیروں کو خوش کرتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ اسلام میں ان کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔ان تمام باتوں سے قطع نظران کی قربانی بھینٹ یا بلی میں کم از کم کسی خدا دیوی دیوتاکو خوش کرنا مطلوب و مقصود تو ہوتا تھا۔ کسی کی ناراضگی کو دور کرنا اور کسی کی رضا کاحصول ان کا مطمع نظر ہوتا تھا مگر آج کا مہذب انسان! حقوق انسانی کا علمبردار اور حیات حیوانی کا محافظ،قدرت کے اسراروں سے پردہ اٹھانے والا انسان نجانے کیوں کس کو خوش کرنے کی خاطر بلاسبب اپنے جیسے گوشت پوشت کے انسانوں کو بری طرح سے ذبح کررہا ہے۔ یہ قربانی اور خون بہانے کا کونسا انداز ہے۔باپ سے بیٹا۔ بھائی سے بہن ماں سے بیٹی بیوی سے شوہر کو چھینا جارہا ہے۔نجانے کون کس کے کہنے پر کیوں کسی بے گناہ کی بھینٹ دے اور لے رہا ہے۔کہیں دہشت گردی کے ناسور کی شکل میں توکہیں مسلم غیر مسلم تنازعات کے نام پر، کہیں انسانی حقوق کی ٹھیکیداری کی آڑ میں تو کہیں مذہب کے نام پر،کہیں زمین و زر کی تقسیم پر تو کہیں حیوانی جبلت کی تسکین کی خاطربیگناہ انسانوں کے خون کی ندیا ں بہائی جارہی ہیں۔ مسلم غیر مسلم یہود و نصاری مذہب کی آڑ میں ایکدوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے جارہے ہیں اور پیاس ہے کہ اس کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔درحقیقت ہم قربانی و ایثار کی اہمیت و افادیت کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر فراموش کربیٹھے ہیں۔ ہم نے محبت روا داری انس کے جذبوں کو بھلا دیا ہے ۔حالانکہ نظام قدرت وفطرت کا ایک ایک پل ایک ایک لمحہ ہمیں ایثارو قربانی کے جذبے یاد دلاتارہتا ہے لیکن ہم ہوس زر اور دنیا کی چاہت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں شہد کی مکھی کامحنت میں مصروف عمل ہونا، بادل کا پانی برساکرفنا ہوجانا،درختوں کا دھوپ میں جل کر ٹھنڈک دینا،ندی کاپہاڑوں سے بہہ کر زمین کوسیراب کرکے خود کو مٹادینا،نمازفجر میں نیند،ظہر میں کام، عصر میں تفریح اور عشاء میں آرام کی قربانی دینا دکھائی نہیں دیتا۔ خدرا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑکی قربانیوں کو نشان منزل بناکردکھاوے اورریاکاری سے پاک ہوکر ان راستوں پر گامزن ہوچلیں اسی میں فلاح و بہتری ہے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193235 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More