قربانی کے بکرے

مویشی منڈی میں بکرے بہت خوش ہیں۔ خوش کیوں نہ ہوں؟ جو اُن کے گلوں پر چُھری پھیرنے کی تیاری کر رہے ہیں خود اُن کے گلوں پر چُھری پِھر گئی ہے۔ حکومت نے عیدالاضحیٰ سے بہت پہلے، بلکہ ذی الحج کے ہلال کی رویت سے بہت پہلے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاکر عوام کے لیے دن کی روشنی میں تاروں کی رویت کا اہتمام کر ڈالا! سپریم کورٹ کی طرف سے برہمی کے اظہار پر بجلی کے پُرانے نرخ برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا۔ مگر اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سِوا کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کیونکہ چند ہی دنوں میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے نئے نرخ بحال کردیئے!

پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں نے پہلے ہی آگ لگا رکھی ہے۔ جو لوگ حالات سے تنگ آکر خود پر پٹرول یا مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگانے کا سوچا کرتے تھے اب وہ سہم کر کونے میں دُبک گئے ہیں۔ صورتِ حال ایسی ہے کہ اگر کوئی خود پر پٹرول یا مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا بیٹھے تو لوگ ہمدردی کا اظہار کرنے کے بجائے ’’کفرانِ نعمت‘‘ کے ارتکاب پر اُسے لعن طعن کا نشانہ بنانے لگتے ہیں!

حکومتی اقدامات نے تمام معاملات کو سمیٹ کر دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی منزل تک پہنچادیا ہے۔ غالبؔ کی زبانی کہیے تو ؂
گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رُباعی، کہاں کی غزل!

مہنگائی نے عوام کی ایسی عجیب حالت کردی ہے کہ جانور بھی دیکھ کر ہنستے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ اِس پُرآشوب دور میں اِنسان کی حیثیت سے پیدا نہیں ہوئے! اور اِنسان کی حیثیت سے خلق نہ کئے جانے پر جانور کیوں نازاں نہ ہوں جب اُن کی وقعت دیکھ کر اِنسان شرمسار ہوکر سَر جُھکالیتے ہیں!
عیدالاضحیٰ کی آمد پر ہر بڑے شہر کے باہر ایک بڑی مویشی منڈی لگتی ہے۔ قُربانی کے جانور خریدنے والے تو معدودے چند ہوتے ہیں، تماشا دیکھنے والے البتہ بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔ دینی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ قربانی کا جانور ہر اعتبار سے صحت مند ہونا چاہیے۔ منڈی میں خریداری کے لیے آنے والوں اور اُن کا ساتھ دینے کے لیے آئے ہوئے اِنسانوں کو دیکھ کر جانوروں میں اعتماد کا گراف بلند ہوتا ہے، اپنی وقعت دیکھ کر وہ خوشی سے پُھولے نہیں سماتے یعنی اُن کی جسمانی اور صحت کا معیار بلند ہوتا ہے!

دیہی علاقوں سے لائے جانے والے قدرے کم جُثّے اور بُجھے ہوئے دِل و دماغ کے جانور بھی کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں پہنچ کر کِھل اُٹھتے ہیں۔ جب وہ منڈی میں اپنی دن بہ دن بڑھتی قیمت پر نظر ڈالتے ہیں تو فخر سے سَر بلند ہوتا جاتا ہے۔ اور فروخت ہونے پر جب وہ نئے مالک کے گھر پہنچتے ہیں تو ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ اچھی خاصی رقم خرچ کرکے اُسے خریدنے والا اپنے آپ سے شرمسار سا دکھائی دیتا ہے!

جو بے چارے سال بھر کی قربانی دیتے رہتے ہیں اُنہیں عید الاضحیٰ پر بھی قربانی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ہم سے جب بھی اہل خانہ نے جانور لانے کی فرمائش کی ہے، ہم نے یہی کہتے ہوئے اُنہیں ٹالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم روزانہ گھر آ تو جاتے ہیں۔ اب کسی اور جانور کی کیا ضرورت ہے؟ ارشاد ہوتا ہے کہ جانور قربانی کے لیے چاہیے۔ ہم جواب دیتے ہیں کہ ہم بھی تو سال بھر ذبح ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پھر بھلا بے زبان جانوروں کو زحمت کیوں دی جائے؟ ہمارے استدلال پر اہل خانہ نے ہمیشہ یہ جواب دیا ہے کہ بات ذبیحے کی ہو رہی ہے، جَھٹکے کی نہیں!

اگر کوئی اہلِ خانہ کے طعنوں سے تنگ آکر مویشی منڈی کا رُخ کرے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گیڈر نے شہر کا رُخ کیا ہے! مویشی منڈی پہنچ کر اِنسان کو اپنی وقعت کا یعنی بے وقعت ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ گائے، بیل اور بکرے کی قیمت سُن کر ہم نے اچھے اچھوں کا پِتّہ پانی ہوتے دیکھا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ گھاس چرنے والوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر گھاس چرنے سے گریز کرنے والے جانور خود کو گھسیارا محسوس کرنے لگتے ہیں! آن کی آن میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ جو شان و شوکت قربانی کے جانوروں کو نصیب ہوئی ہے اُس کا عشرِ عشیر بھی مل جائے تو اِنسان اِس دُنیا میں سَر اُٹھاکر بھرپور شان سے زندگی بسر کرے!

قربانی کے جانور کی خریداری میں اگر خواتینِ خانہ بھی شریک ہوں تو اُنی کی آنکھوں پر پڑے ہوئے بہت سے پردے اُٹھ جائیں گے۔ مویشی منڈی میں پہنچ کر خواتین کو اندازہ ہوگا کہ شاپنگ سینٹرز میں وہ کپڑے کے تاجر یا کاسمیٹکس کے دکاندار سے جو بارگیننگ کرتی ہیں وہ محض آنکھوں کا دھوکا ہے۔ قربانی کے جانور کی خریداری وہ مرحلہ جو تھوڑی سے محنت اور ’’فرنشنگ‘‘ سے سفارت کاری کے مرتبے کو چُھو لیتا ہے! خواتین کو ایک طرف تو قربانی کے جانوروں کی وقعت کا اندازہ ہوگا اور دوسری طرف ممکنہ طور پر اُن کے دِلوں میں شوہروں کے لیے کسی حد تک رحم کا جذبہ ضرور پیدا ہوگا۔ جس نظر سے قربانی کے جانوروں کو دیکھا جاتا ہے اُس سے مِلتی جُلتی یا تھوڑے سے کم درجے کی نظر سے شوہروں کو بھی دیکھا جانے لگے تو قربانی کے اِن ’’با زبان‘‘ جانوروں کی تھوڑی بہت تَشفّی ضرور ہوسکے گی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 482476 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More