محبت کا خزانہ

اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ کس نے لکھا ہے۔ اور اس کا حقیقی رائٹر کون ہے۔ ہمیں اس خط کے مندرجات پر غور کرنا چاہیے۔ اس نفسا نفسی کی دنیا میں جہاں انسان کی قدر ہر آنے والے دن میں گرتی جارہی ہے۔ جہاں ہر روز دولت کے حصول میں انصاف کا خون ہورہا ہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ قانون کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور حکومتیں انسانوں کو پھاڑ کھانے پر تلی ہوئی ہیں۔ عوام کو کسی طرح کا ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ ایک حکم پر عوام کے چہروں پر مسکراہٹ کھلنے بھی نہیں پاتی کہ راتوں رات ایک اور حکم کے ذریعہ عوام کے منہ سے نوالہ پھر چھین لیا جاتاہے۔ جموریت کے بطن سے پھر آمریت طلوع ہورہی ہو۔ فرعونیت کا لہجہ اختیار کیا جارہا ہو۔ وہی حیلے پرویزی اور رزداروں کا وہی چلن ہو تو معاشرہ میں کس تبدیلی کا خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ دور پرویز اگر اس قدر برا تھا اور اس آمریت کے بطن سے یہ ہی جمہوریت طلوع ہونی تھی تو اس تو اچھا تھا کہ کچھ دن اور آمریت کے ستم سہہ لئے جاتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ تاریخ میں جب ہمارے بارے میں لکھا جائے گا تو وہ کچھ یوں ہوگا۔

ہمارے پاس بلند بالا عمارتیں ہیں لیکن برداشت بالکل نہیں ہے۔ وسیع شاہراہیں ہیں لیکن تنگ خیالات ہیں۔ ہمارے دور میں بہت خرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن ماحاصل کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم بہت کچھ خریدتے ہیں لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ہمارے زمانے کے لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس بڑے بڑے مکانات ہیں لیکن ان میں مکین نہیں ہیں۔ ہمارے پاس آسائش بے حساب اور وقت ناپید ہے۔ ہمارے عہد کے لوگوں کے پاس ڈگریاں بڑی بڑی ہیں لیکن دانش نہیں ہے۔ معلومات بہت ہیں لیکن فیصلے کی طاقت نہیں ہے۔ ماہرین کی فوج ہے لیکن مسائل پھر بھی کم نہیں ہوتے۔ دواﺅں کی افراط ہے لیکن صحت پھر بھی نہیں ہے۔ کھاتے پیتے بہت ہیں۔ خرچ بہت کرتے ہیں لیکن ہنستے بہت کم ہیں۔ گاڑیاں تیز بھگاتے ہیں، لیکن فاصلے پھر بھی کم نہیں ہوتے۔ جلد غصے میں آجاتے ہیں۔ رات تک جاگتے ہیں لیکن صبح بیدار ہوتے ہیں تو تھکاوٹ سے چور ہوتے ہیں۔ پڑھتے بہت کم ہیں۔ ٹی وی بہت دیکھتے ہیں، لیکن عبادت میں دل نہیں لگاتے ہم نے اپنے مسائل کو بڑھا لیا ہے لیکن اپنی قدر کھو بیٹھے ہیں ہم باتیں بہت کرتے ہیں لیکن محبت نہیں کرتے اور نفرتوں میں زندہ رہتے ہیں ہم نے زندہ رہنے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے لیکن زندگی بسر کرنا نہیں ہم نے چاند پر آنا جانا شروع کر دیا ہے لیکن سڑک پار کر کے پڑوسی سے ملنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہے ہم خلاء میں جا رہے ہیں لیکن اپنے اندر جھانکنے کی فرصت نہیں ہم عظیم الشان چیزیں بناتے ہیں۔ لیکن ان میں پائیداری نہیں ہوتی ہم نے فضاء کو صاف کر دیا ہے لیکن روحوں کو آلودہ کر دیا ہے ہم نے ایٹم کو توڑ دیا ہے لیکن اپنے تعصبات کو نہیں توڑ سکے۔ ہم بہت لکھتے ہیں۔ لیکن بہت ہی کم سیکھتے ہیں ہم بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کر پاتے ہم سیکھنے کے لئے بھاگتے پھرتے ہیں لیکن انتظار نہیں کرتے ہم نے معلومات کو بڑھانے کے لئے زیادہ کمپیوٹر تو بنا لیے ہیں۔ لیکن ہمارا ابلاغ کم سے کم ہو رہا ہے یہ فاسٹ فوڈ کا زمانہ ہے لیکن ہم بہت کم ہضم کر پاتے ہیں، ہمارے دور کے بڑے آدمی ہیں لیکن ان کے کردار بہت چھوٹے ہیں، منافع کے لئے سرگرداں رہتے ہیں لیکن رشتوں کا قتل کرتے ہیں، یہ بڑی آمدنیوں کا دور ہے، لیکن پھر بھی طلاق کی شرح زیادہ ہے، محلات اور بنگلے ہیں لیکن گھر نہیں ہے، تیز رفتار سفر ہے ڈسپوزبل ڈائیپرز ہیں، اخلاقیات کی تباہی ہیں راتوں کو جاگتے ہیں، اوور ویٹ جسم ہیں، اور ہر طرح کی دوائیاں ۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں شوروم کی کھڑکیوں میں بہت کچھ ہیں لیکن اسٹاک خالی ہیں، یہ ٹیکنالوجی کا وہ دور ہے جس میں ایک لمحہ میں آپ کچھ پڑھنا چاہو تو پڑھ لو ورنہ ایک کلک کے ذریعے اسے مٹا دو ۔

لیکن یہ یاد رکھیں کہ کچھ وقت ان کو بھی دیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ نہیں رہیں گے، ان سے محبت کے چند جملے کہیں جو آپ کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں، کیونکہ کل یہ ننھے منے بچے جوان ہونگے انہیں خوشی سے گلے لگائیں، یہی آپ کا مستبقل ہیں۔ کیونکہ یہ واحد خزانہ ہے جو آپ کے پاس ہے اور جس میں آپ کا کچھ خرچ بھی نہیں ہو رہا ،یاد رکھیں ان لوگوں کا سہارا بنیے جو بوڑھے ہیں، ان سے محبت کیجئے ان سے بات کیجئے انہیں وقت دیجئے ۔ کیونکہ یہ سدا آپ کے ساتھ نہیں رہیں گئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 389249 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More