تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا ہے۔

سوشل نٹ ورک ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ جن میں ایک بڑی تعدادایسے جاہل لوگوں کی ہےجومنطق دلاہل نام کی چیز سے نا واقف ہیں۔یہ لوگ کسی سے بھی اختلافِ رائے پردلیل سے بات کرنے کے بجائے ماں، بہیں کی گالیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔یہ لوگ گالیوں کو ہی اپنا سب سے اہم ہتھیار سمجھتے ہیں۔ معاشرے میں عام طور پرآپ کو تین طرح کے لوگ ملیں گئے ۔ایک وہ جو کسی بھی اچھی یا بری بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔یہ لوگ بے ضرر ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرح سے ان کی خا موشی برے لوگوں کو معاشرے میں برائی پھیلانے میں خاموش مدد فراہم کرتی ہے۔(کیوں کہ ظاہر ہے جب ہم کسی چیز کا راستہ نہیں روکیں گئے۔ تو وہ مزید بڑھتی ہی جائے گئی) دوسری قسم کہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حیثیت کے مطابق برائی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور کسی حد تک برائی کے خلاف اپنی غصے کا ظہار کرنے کے لئے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سخت الفاظ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدزبانی بد کلامی اور گالم گلوچ سے اجتناب کرتے ہیں۔تیسری قسم ان لوگوں کی ہے۔جو صرف برائی ہی نہیں بلکہ ا ختلافِ رائے پر بھی گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔یہ لوگ تہذیب نام سے نا واقف ہوتے ہیں۔ انکی گفتگو سے ان کی تربیت کی جھلک واضع نظر آتی ہے۔کہ کس ماحول میں ان کی تربیت کی گئی ہے۔یہ لوگ معاشرے میں گندے ترین کیڑے کے طور پر کام کرتے ہیں۔جو ہر جگہ اپنے گندے جراثیم چھوڑجاتے ہیں جو دوسرے لوگوں کےٖلئے باعثِ تکلیف ہوتے ہیں۔گالم گلوچ کا سلسہ اکثر دیکھنے کو ملاتا ہے رہتا ہے۔ جو اکثر نا حق ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ گالم گلوچ وہی شخص کرتا ہے ۔ جس کے پاس بات کرنے کے لئے دلیل نہ ہو۔یہ لوگ بنا سوچے سمجھے ہی اپنی منفی سوچ کو دوسروں تک منتقل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ کبھی یہ سوچنے کی کوشش نہیں کریں گئے،کہ کیا لکھا ہے؟ کیوں لکھا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کس لئے لکھا ہے؟ اس کے مطلب کیا ہے؟یہ سب باتیں انہیں سمجھنے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کا کام تو بس اپنے اندر کی گندگی نکال کر باہرے پھیلانا ہوتا ہے۔ ایک دن میری ایک پوسٹ پر ایک صاحب نے کچھ ایسے نا زیبہ الفاظ استعمال کئے ۔الفاظ دیکھ کر غصہ آنا تو فطری بات ہے ۔میں نے کمنٹس سے موصوف کو بین کرنے کا سوچا ۔لیکں پھر مجھے لگا کہ شائد بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی، میں نے ان کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنا وہ تبصرہ ہٹا دیا۔ اور ساتھ میں معذرت بھی کی۔ مجھے لگا کے شائد صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اگلے ہی دن مجھے موصوف کے دو تیں جگہ مزید تبصرے پڑھنے کو ملے۔ وہ بھی پوری طرح گالیوں سے بھرےہوئے تھے۔ کہنے کا مقصد:کہ جب تک ہم مل کر ان لوگوں کے روکنے کی کوشش نہیں کریں گئے یہ مزید گندگی پھیلاتے ہی جائیں گے۔

Muzammil Abbasi
About the Author: Muzammil Abbasi Read More Articles by Muzammil Abbasi: 2 Articles with 1891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.