ایک شہید کی داستاں

میں نے انجینرنگ پاس کرنے کے بعد پہلی نوکری جو کی وہ پاکستان کے خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کی تھی - جو راکٹ تیار کرنے کا واحد ادارہ تھا - اس میں انٹرویو ہوا اور میں با آسانی منتخب بھی ہو گیا - انجینرنگ کا امتحان پاس کرنے کے دو ماہ کے اندراندر -

لیکن اس کے باوجود میرا دل افسردہ تھا - ایک کسک - ایک خلش - ایک چبھن سی تھی

جس نے مجھے کامیاب کرایا تھا وہ تو ٹھیک ایک سال، گیارہ ماہ قبل اس جہاں کو چھوڑ کر اللہ کے یہاں چلا گیا تھا - اس کا نام محمد مسعود تھا - وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا-

میرا اس سے کیا تعلق تھا؟

وہ پاکستان کے شرقی صوبے سے تھا -اور مین افغانستان کے قریب واقع شہر کوئٹہ سے حصول علم کے لئے لاہور پہنچا تھا - لیکن جانے کیا بات تھی وہ میرے قریب آتا گیا ہونہار ایسا تھا کہ جس چیز کا مطالعہ کرتا -پاتال کی گہرائی تک رسائی حاصل کرکے تمام اہم امور معلوم کر لیتا تھا -ذہین ایسا کہ ایک مرتبہ پڑھ لے تو تمام کی تمام باتیں ذہن نشین -میزائیل اور راکٹ اس کی ریسرچ کا بنیادی بنیادی موضوع تھے -

وہ چاہتا تھا کہ پاکستان اس میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہے- چنانچہ انجینرنگ یونیورسٹی لاہور میں اس نے عملی طور پر راکٹ بنانے کا ارادہ کیا -اور یہی سال آخر میں اس کی ریسرچ کا موضوع تھا - طرح طرح کی کتابیں اس نے جمع کر لیں - مختلف پیریاڈیکل منگوانے لگا

مجھ سے اس کی واقفیت زیادہ نہ تھی لیکن دو یا تیں ملاقاتوں ہی اس نے میزائیل سازی کی ساری باتیں ، اس کے آڑنے کے اصول ،اس کے اوپر ہوا کی رفتار کے مختلف اثرات ، اور ان سے نبرد آزما ہونے کے طریقوں سے آگاہی کرادی - زمین سے زمین کو کو بھیجے جانے والے راکٹ -زمین سے فضاء میں جانے والے راکٹ ، ایک اسٹیج والا راکٹ /دو اسٹیجوں والا راکٹ سب کچھ اس نے مجھے گھلا کر پلادیا - یوں ہم قریب آتے گئے - میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا کہ جس روز میں فضاء میں راکٹ چھوڑوں گا اس روز تم ضرور انا - میں نے حامی بھر لی -

اور جب میں وہاں پہنچا تو وہاں تباہی ہی تباہی تھی -اس کے کاغذات ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے - بیٹری کی تاریں الجھی ہوئی نظر آئیں - راکٹ کے خول کے ٹکڑے پھیلے ہوئے تھے - اور اس سے زیادہ ہیبتناک منظر ----اف میرے اللہ --- جسم کے ٹکڑے -- تھے

وہ راج شاہی میں اول آنے والا طالب علم -- وہ تحقیق کرنے والا دماغ ، وہ کتابوں کے صفحات کو دیکھنے والی آنکھیں ، وہ لیکچر کو نوٹ کرنے والے ہاتھ ، وہ ملک کے مستقبل کو چاند سے آگے لے جانے کے خواب دیکھنے والا -راکٹ کے اندر کسی فنی خرابی کے سبب راکٹ کے پھت جانے پر اللہ میان کے پاس چلا گیا تھا - جسم کا ایک ٹکڑا دور سڑک کے پار مٹی مین لت پت پڑا تھا - میں نے اسے اٹھایا اور اس کے جسم کے قریب کردیا -

یہ اسی کے لیکچر تھے جو انٹرویو میں میری کامیابی کا باٰٰعث بنے تھے - لیکن میری کامیابی کو دیکھنے کے لئے وہ موجود نہ تھا -

لیکن جانے کیوں جب بھی سپارکو کا راکٹ اڑتا -اس کے دھوئیں میں اس کا چہرہ نظر آتا - خوشی کا اظہار کرتے ہوئے - مسرت سے مبارک باد دیتے ہوئے --پاکستان کو -----اس کے انجیئنروں کو -

اللہ اس شہید کی روح کو اپنے رحمتوں سے سرشار کرے آمین - یارب العالمین
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 335620 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More