NUSTکا قابل تحسین اقدام ،تمام تعلیمی اداروں میں نافذ ہونا چاہیے

نسٹ یونی ورسٹی انتظامیہ نے لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے احکامات جاری کیے کہ وہ جینز نہیں پہن سکیں گی لباس مکمل مشرقی راویات کا عکاس ہونا چاہیے ۔ تو نام نہاد این جی اوز اورنظریہ پاکستان کے خلاف چیخنے والوں کو نجانے کیوں تن بدن میں آگ لگ گئی ،انگلش اخبارات میں کارٹون چھپ کر بہ ظاہر تو اس اقدام کو برا بھلا کہا گیا لیکن اصل میں کارٹون بنانے اورچھپنے والوں کی اسلام دشمنی واضح تھی ۔تعصب پسند سوچ کے حامل گرو احتجاج کر رہے ہیں کہ یونی ورسٹی نے یہ غلط رُول جاری کیا۔ میرا سوال ہے کہاں گئی آزادی رائے؟ہر ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا قانون نافذ کر سکیں ،تعصب پسند سوچ کے حامل ہم جنس پرستی کوفروغ دینے کے لیے آگے آگے ہوتے ہیں ،اغیار کے ٹکروں پر پلنے والے ان افراد سے ذرا پوچھے تو سہی آخر پورے کپڑے پہنے سرپر دوپٹہ اوڑھنے میں کیا غلط ہے؟دنیا بھر کی خواتین اس بات کا برملا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئیں کہ عورت ڈھانپی ہوئی ہو تو وہ ہوس زدہ نظروں سے بچ سکتی ہے ۔ایک ریسرچ کے مطابق یورپ کے زیادہ تر خواتین کا دائر اسلام میں داخل ہونے کی بنیادی وجہ اسلام تحفظ ، عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ زندگی گذارنے کافلسفہ بہترین انداز میں بتلاتا ہے،مگر جو ملک اسلام کے نام پربنا ہو وہاں کس طرح اسلام کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں قابل افسوس ہے۔تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین سے ہونے والی چھیرچھاڑ،ریپ کے واقعات کی بنیادی وجہ ان کا لباس،چال چلنا ہے،ڈاکٹر ذاکر نائیک نیا ایک سوال کرنے والے کو بڑے خوب صورت انداز میں سمجھاتے ہوئے جواب دیا کہ اگرایک لڑکی جینزاور دوسری برقع میں جارہی ہو تو مرد کی نظر فطرتاً کس پر پڑی گی اور برے خیالات کس پر جنم لیں گے ؟ یونی ورسٹی انتظامیہ کاموقف ہے کہ بہت سی لڑکیوں کو نازیبا کپڑوں میں آتے دیکھا گیا جس پر ہم یہ اقدام کرنے پر مجبور ہوئے۔ا فسوس تو اس بات کا ہے کہ نسٹ انتظامیہ پر ہر طرف سے طنز اور غصے کی بوچھاڑ ہو رہی ہے لیکن ان کے اقدامات کو سراہنے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کھل کر انتظامیہ کہ قابل تحسین اقدام کو سراہنا چاہیے ، ان کو یہ احساس دلائیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس مسئلے کو قرآن و حدیث کے روسے پرکھتے ہیں عورت کے لباس کے حوالے سے اسلام نے بہت سختی کی ہے کیوں کہ لباس عورت کی خوبصورتی ظاہر کرتا ہے، اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے، اگر وہ ایسے لباس پہنے جو اسے زیب نہیں دیتا تو وہ اپنی شخصیت کو خود بگاڑتی ہے۔ عورت چست لباس پہنتی ہے تو وہ گناہ گار نظروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے جو دونوں کو عذاب کی طرف لے جاتیں ہے۔ حدیث مبارکہؐ ہے۔ حضرت محمدؐ نے فرمایا!

’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میری بہن اسماءؓ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا اے اسماءؓ عورت جب بالغ ہو جائے تو درست نہیں اس کے جسم کا کوئی حصہ ماسوائے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے نظر آئے‘‘ (ابوداؤد)

اسلام نے کتنی سختی سے ایک بالغ لڑکی کیلئے حکم دیا ہے بالغ ہونے کے بعد اسے محتاط رہنے کی تاکید کی ہے تاکہ وہ بُری نظروں سے بچ سکے اگر وہ باریک لباس پہنیں گی تو ظاہر سی بات ہے وہ بُری نظروں میں آئیں گی۔ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے کا باعث بنے گی۔ آج تو غیر مسلم خواتین نے نقاب اُوڑھ لیے ہیں وہ کہتی ہیں کہ اس پر فتنہ کے دور میں ہمیں یہ کرنا پڑتامگر مشرقی عورت سوچھتی ہے کہ وہ بیاشا باسو یا انجلینا جولی والا لباس پہن کر خوبصورت لگے گی ،تو وہ اس بڑی بھول ہے ۔ہم اسلام کے احکامات اور مشرقی روایات کو مکمل نظر انداز کر چکے ہیں۔ ہمارے ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے بھی بے ہودہ مغربی روایات کو فروغ دے رہے ہیں۔ اب چاہیے تو اس پاکستانی ایکٹر، ماڈل کو تھا کہ وہ لباس ایسا پہنیں کہ جو مشرقی روایات کے دائرے میں ہو اسلام کے منافی بھی نہ ہو لیکن وہ شہرت اور پیسہ کے چکرمیں اتنی گم ہو گئی کہ تمام احکامات اور روایات کو پس پشت ڈال دیا، اگر آج ہمارے ڈرامے، شو وغیرہ میں مشرقی روایات کو ایک بار پھر سے اجاگر کیا جائے تو کافی بہتری آ سکتی ہے۔ ایک اوراہم مسئلہ جو تیزی سے زور پکڑتا جا رہا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے حضرت محمد صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!

’’مردوں کا عطر وہ ہے جس کی خوشبو ظاہر ہو اور رنگ پوشیدہ ہو اور عورتوں کا عطر وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو مگر خوشبو پوشیدہ ہو‘‘ (ترمذی)

اب انصاف خود کیجئے کہ آج عورت وہ Sent استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے جس کی خوشبو جہاں سے گزرے 1 گھنٹے تک وہاں سے آتی رہے چلتے وقت اپنے چاروں طرف لوگوں کو محسور کرتی رہے۔ حدیث مبارکہ ہے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!

’’دوذخ میں ایسی عورتیں ہونگی جو دنیا میں بظاہر لباس پہنے ہونگی مگر درحقیقت ننگی ہوں گی اپنے کندھوں کو ہلا ہلا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی ایسی عورتیں جنت میں نہ جائیں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آ رہی گی‘‘ (مسلم)
مولانا مفتی محمد اسماعیل نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے!
’’جب سرنگا ہوا تو آنکھوں سے حیا بھی گیا اور شخصیت کا وقار بھی وہ بازار میں نکلے یا دفتر جائے دوسروں کی نظروں کا نشانہ بنے کی خواہش میں فل میک اپ کرتی ہے۔ اس کا چست لباس، کھلے ریشمی بال اور اٹھکیلیاں کرتا ہوا پرکشش جسم، بھوکی نگاہوں کو جنسی اشتعال دلانے کا سامان مہیا کرنا ہے، وہ جہاں سے گزرتی ہے شیطان کی ایجنٹ (نمائندہ) بن کر دعوت نظارہ دیتے ہوئے للچائے ہوئے دلوں پر چال و جمال کے چرکے لگاتی جاتی ہے اسے یہ حق کس نے دیا؟ اسے آزادی کا یہ مفہوم کس نے سمجھایا؟ اسے خاندانی عزت وقار تباہ کرنے کے بعد پوری صنف نازک کو بے غیرتی کی یوں سرعام دعوت دینے کا حوصلہ کس نے دیا؟ یقیناً ہم مردوں نے ہم باپ، ہم بھائی، ہم شیر، ہم بیٹے ہی اسکے ذاِہ دار ہیں‘‘۔

چند سطروں کے اندر اسماعیل صاحب نے بہت وسیع بات کی ہے۔ اگر ان کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ یہی ہے کہ عورت کو تحفظ نسواں جیسا بلوں نے فحاشی کی طرف راغب کیا لیکن سرپرست سوئے رہے اسلام سے ہٹ کر اگر میں عیسائیت کے حوالے سے عورت کی آزادی کا جائز لو تو مجھے ایسی آزادی عیسائیوں کی مقدس بائیبل سے بھی نہیں ملتی یعنی عیسائی مذہب بھی عورت کو فحاشی بُرائی سے روکتا ہے۔ جیسا کہ ۔ اسی طرح عورتیں حیا دار لباس سے شردم اور پرہیز گاری کیساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گونڈھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی لوشاک سے بلکہ نیک کاموں سے جیسا خدا پرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے عورت چپ چاپ کمال تابعداری سے سیکھنا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں سورۃ المائدہ آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں!

’’آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا‘‘

ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات کے پیچھے لباس کا کافی عمل دخل ہے نسٹ یونی ورسٹی کے اس اقدام کوسراہتے ہوئے تمام کالجزاور یونی ورسٹی میں سرکاری طور پر نافذ کرنا چاہیے۔میاں محمد نواز شریف نے ایک مذہبی شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں ان کے گھر کا ماحول بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے وہ اسلام پسند اور مشرقی راویات کے پاسدار ہیں،ان کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد سرکاری طور پر کالجوں ،یونی ورسٹیوں کے بعد ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ایسے لائحہ عمل طے کرنے کے بعد لاگو کریں کہ ہمارے معاشرے میں نظریہ پاکستان اور مشرقی راویات کی عکاسی نظر آئے۔انفردی سطح پر خواتین کو ایک لمحے کے ضرور سوچنا چاہیے کہ کونسا رستہ فلاح کی جانب جاتا ہے ۔اسلام نے عورت کو تحفظ دیا اس کو معاشرے میں رہنے کے بہترین گر سکھائے آج کی عورت جب خدا کی طرف سے جاری کردہ احکامات کو نظر انداز کرتی ہے تو اس دنیا میں بھی اس کی سزا پاتی ہے جو دنیا والوں کے عورت پر تشدد ،زنابالجبر کی صورت میں عیاں ہے۔اس کالم کے بعد طنز کے تیروں کی بوچھاڑ ہو گی ،کہ میں نے صرف عورتوں کے حوالے سے بات کی مردوں کی طرف سے ہونے والے تشدد اور برائیوں پر کچھ نہ لکھا انشا ء اﷲ کسی نشست پر اس پر بھی بات ہو گی۔

Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 50955 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More