کچی یا پکی۔۔۔ کون سی سبزیاں بہتر

السلام علیکم
سبزیاں معدنیات اور وٹامن کا خزانہ ہیں۔ یہ انسان کو بھرپور غذائیت فراہم کرتی ہیں۔ بہت سی سبزیاں کچی یا پکا کر کھائی جاتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سبزیاں کچی کھانا بہتر ہے یا پکا کر انھیں تناول کیا جائے۔ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ بعض سبزیاں پکانے سے ان کے کچھ معدن یا وٹامن ضائع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ سبزیاں پکانے سے الٹا اثر ہوتا ہے۔ یعنی ان کے معدن یا وٹامن پکانے سے بڑھ جاتے ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی کچھ عام سبزیوں کا تذکرہ پیش ہے جنھیں کچی یا پکا کر کھانا بہتر ہے۔

پیاز:
اسے کچی کھانا بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پیاز پکائی جائے تو اس کا ایک اہم غذائی مادہ الیسن (Allicin) ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ مادہ انسان میں شکم سیری کا احساس پیدا کرتا اور بھوک مارتا ہے۔

ٹماٹر:
اسے پکانا بہتر ہے۔ دراصل ٹماٹر پکا کر کھانے سے اس میں شامل غذائی مادہ، لائکوپین (Lycopene) کی زیادہ مقدار ہمارے جسم میں جذب ہوتی ہے۔ یہ مادہ ہمیں سرطان (کینسر) اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

ساگ:
اس دل پسند سبزی کو بھی پکا کر کھانا مفید ہے۔ یوں انسانی جسم کو زیادہ کیلشیم، فولاد اور میگنیشم جیسے اہم معدن ملتے ہیں۔

چقندر:
یہ کچا کھانا چاہیے۔ چقندر پکایا جائے، تو اس کا 30 فیصد فولیٹ وٹامن ضائع ہو جاتا ہے۔یہ وٹامن ہمارے دماغ کو تقویت دیتا ہے۔

کھمبیاں (مشروم) :
اسے پکا کر کھائیے۔ دراصل کھمبیوں کو کسی بھی طریقے سے پکائیے، اس میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ معدن ہمارے بدن کے عضلات مضبوط بناتا ہے۔

کرم کلّہ(بند گوبھی):
اسے کچا کھانا مفید ہے۔ کرم کلّہ پکایا جائے، تو اس میں شامل ایک خامرہ (انزائم)، مائروسیناسی (Myrosinase) ختم ہو جاتا ہے۔ یہ خامرہ ہمارے نہایت اہم عضو جگر پر حملہ آور ہونے والے زہریلے مادے اور جراثیم کومارتا ہے۔

سرخ مرچ:
سرخ مرچیں کھا کر ظاہر ہے، بڑی مرچیں لگتی ہیں، مگر انھیں کچا کھانا مفید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں 375 سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے زیادہ پکایا جائے تو ان میں شامل وٹامن سی ضائع ہو جاتاہے۔
غذائیں جنھیں استعمال نہ کیجئے :
انسان عموماً ذائقے کے باعث کوئی غذا پسند نہیں کرتا۔ لیکن ہم اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بعض غذائیں مختلف وجوہ کی بنا پر مضر صحت ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی غذائوں کا تعارف ہے۔ ان کی بابت پڑھیے اور آیندہ انھیں سوچ سمجھ کر استعمال کیجئے۔

ڈائٹ سوڈا:
ڈائٹ سوڈا سمیت تمام بوتلیں، گولیاں، ٹافیاں، چیونگم اور دیگر بہت سی بازاری میٹھی اشیا مصنوعی مٹھاس (Artificial sweeteners) رکھتی ہیں۔ مصنوعی مٹھاس کی مختلف اقسام ہیں مثلاً سراکیوز، اسپارٹیم، نیوٹیم وغیرہ۔ یہ سبھی اقسام دراصل کیمیائی مادے ہیں۔ کئی تجربات اور تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ کیمیکل انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔

ڈبا بند غذائیں:
کئی ادارے مختلف غذائیں ٹن کے ڈبوں میں فروخت کرتے ہیں۔ انھیں مختلف کیمیائی مراحل سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ طویل عرصہ خراب نہ ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ڈبوں کے استر کی رال (Resin linings)
میں ایک مصنوعی ایسٹروجن کیمیائی مادہ، بیسفینول-اے (Bisphenol-A) شامل ہوتا ہے جو اِنسان کو مختلف امراض میں مبتلا کرتا ہے۔ ان میں تولیدی بیماریوں سے لے کر امراض قلب، ذیابیطس اور موٹاپا قابل ذکر ہیں۔ یہ مادہ خصوصاً مردوں میں نامردی پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گلاس کی بوتلوں یا گتے کے ڈبوں میں بند غذائیں تو پھر ٹھیک ہیں، ٹن کے ڈبے میں بند غذا سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔

گندم کا آٹا:
شاید آپ نہ جانتے ہوں، ایک سو سال پہلے کی گندم موجودہ دور کی گندم سے بہت مختلف تھی۔ وجہ یہ ہے کہ 1950ء کے بعد ماہرین نے گندم کے بیجوں میں کئی جینیاتی تبدیلیاں کر ڈالیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اگائی جا سکے۔ ان تبدیلیوں نے فصل تو بڑھا دی لیکن گندم میں موجود غذائیت کا قدرتی توازن ختم کر ڈالا۔

یہی وجہ ہے کہ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ گندم کا آٹا کئی بیماریاں جنم دینے کا سبب بن چکا۔ ان میں نظام ہضم کے امراض مثلاً شکمی عارضہ (Celiac) اور سوزش آنت، تیزابی جذر (Acid Reflux)، موٹاپا، دمہ اور جلد کی بیماریاں شامل ہیں۔

لہٰذا اگر خدانخواستہ آپ ان میں سے کسی بیماری میں مبتلا ہیں توچند ہفتے گندم کے آٹے سے پرہیز کیجیے۔ اگر افاقہ محسوس کریں تو سمجھ جائیے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ آٹا ہی بیماری کا باعث تھا۔

مکئی:
پچھلے دس پندرہ برسوں کے دوران امریکا سمیت کئی ممالک میں یہ عجوبہ دیکھنے کو ملا کہ شہد کی مکھیاں کم ہو گئیں۔ محقق تشویش میں مبتلا ہو کر یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ وجوہ کیا ہیں۔ دوران تحقیق انکشاف ہوا کہ مکئی کی فصل بھی مکھیاں ختم کر رہی ہے۔

دراصل گندم کی طرح مکئی کے بیجوں میں بھی وسیع پیمانے پہ جینیاتی تبدیلیاں لائی جا چکیں۔ مدعا یہ ہے کہ پودے میں کیڑے مارنے والی صلاحیتیں پیدا ہو جائیں ۔ بعض اقسام کے بیجوں میں ایسی جینیاتی تبدیلیاں لائی گئیں کہ وہ کیڑے مار ادویہ کے بھاری اسپرے میں بھی پھل پھول سکیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ کیڑے مار ادویہ کے کیمیائی مادے عموماً مکئی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی مادے پھر مکھیوں ہی کو نہیں مارتے بلکہ انسان بھی آلودہ مکئی کھا کر بیمار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا مکئی وہی بہتر ہے جو کیڑے مار ادویہ سے پاک کھیت میں کاشت کی جائے۔

چاکلیٹ کون سی بہتر؟
ماضی میں چاکلیٹ کو غیر صحت بخش غذا سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے خصوصاً بچوں کو اس مفید شے سے دور رکھا جاتا۔ لیکن پچھلے چند سال میں جدید سائنسی تحقیق نے انکشاف کیا کہ کوکا بیج (جن سے چاکلیٹ بنتی ہے) ضد تکسیدی مادے (Antioxidants) اور معدنیات مثلاً میگنیشم کثیر مقدار میں رکھتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی پتا چلا کہ چاکلیٹ میں موجود دو مرکب تھیوبرومائن اور فینی تھیلمائن ہمارے جسم میں کیمیائی مادہ، سیروٹونین کی افزائش کرتے ہیں۔ واضح رہے، یہی کیمیکل ہم میں خوشی و مسرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

ایک تجربے میں شدید تھکن کا شکار مرد و زن کو آٹھ ہفتے تک 1.5 اونس سیاہ چاکلیٹ کھلائی گئی۔ اس چاکلیٹ کا 85 فیصد حصہ سیاہ چاکلیٹ پر مشتمل تھا۔ آٹھ ہفتے بعد تقریباً سبھی بالغوں نے تھکن میں کمی کی خوش خبری سنائی اور ان کا وزن بھی نہیں بڑھا۔

یاد رہے، چاکلیٹ کے طبی فوائد سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سیاہ چاکلیٹ تناول کی جائے۔ مِلک چاکلیٹ کھانے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اس میں شامل دودھ ضد تکسیدی مادوں کو بدن میں جذب نہیں ہونے دیتا۔ نیز چاکلیٹ میں ہائیڈروجنیٹڈ تیل بھی موجود نہیں ہونا چاہیے۔ مزید براں دن میں ایک اونس سیاہ چاکلیٹ کھانا کافی ہے، یوں مطلوبہ طبی فائدے مل جاتے ہیں۔

وٹامن ڈی کے غذائی ماخذ:
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بالغوں کو روزانہ 400 آئی یو (انٹرنیشنل یونٹ) جبکہ بچوں کو 200 آئی یو کی ضرورت ہوتی ہے۔ چند برس کے دوران آنے والی تحقیقی رپورٹوں نے اس حیاتین کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ کیونکہ وہ آشکارا کرتی ہیں کہ یہ حیاتین ہمارے نظام مامون کو طاقتور بناتا اور کئی بیماریوں سے بچاتا ہے۔
وٹامن ڈی سب سے زیادہ دھوپ میں ملتا ہے۔ انسان 20 سے 25 منٹ دھوپ میں رہے، تو اسے وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار مل جاتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ دھوپ میں اتنا عرصہ نہیں رہ پاتے۔ لہٰذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ غذائوں سے یہ حیاتین حاصل کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وٹامن ڈی بہت کم غذائوں میں ملتا ہے۔لہٰذا وہ فہرست طعام میں شامل نہ ہوں، تو انسانی جسم میں اس حیاتین کی کمی ہو جاتی ہے۔ ذیل میں انہی غذائوں کا تعارف پیش ہے جن میں یہ قیمتی حیاتین خاطر خواہ مقدار میں ملتا ہے۔

کاڈلیور آئل:
یہ تمام غذائوں میں حیاتین کا سب سے بڑا منبع ہے۔ کاڈ لیور آئل (Cod lever oil) کا صرف ایک چمچ ہمیں مطلوبہ وٹامن ڈی سے دو سو فیصد زیادہ مقدار مہیا کرتا ہے۔ مزید براں یہ تیل انسانی صحت کے لیے مفید چکنائی، اومیگا-3 فیٹی ایسڈز بھی رکھتا ہے۔

سالمن اور ٹونا مچھلیاں:
یہ دونوں روغنی (oily) سمندری مچھلیاں بھی اپنے گوشت میں وٹامن ڈی اور اومیگا-3 فیٹی ایسڈز کا کثیر خزانہ رکھتی ہیں۔ اگر آپ کی جیب بھاری ہے، تو ان مچھلیوں کو روزمرہ غذا میں شامل رکھیے۔

دودھ:
گائے کا دودھ قدرتاً وٹامن ڈی رکھتا ہے۔ اس کی ایک پیالی دودھ میں 100 آئی یو وٹامن ملتا ہے۔ (یاد رہے، بھینس کے دودھ میں یہ حیاتین نہیں ملتا)۔

انڈا:
ایک انڈے کی زردی میں 21 آئی یو وٹامن ڈی موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس کی سفیدی خاصی مقدار میںپروٹین رکھتی ہے۔ اپنی خصوصیات کے باعث انڈا عمدہ غذا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hakeem Zia Sandhu
About the Author: Hakeem Zia Sandhu Read More Articles by Hakeem Zia Sandhu: 17 Articles with 46398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.