عید الاضحی کے احکام

جب قربانی ایک ایسی عبادت ہے اوردین اسلام کے عظیم شعائر میں سے شعارہے جس میں ہم اﷲ تعالی کی توحید اوراپنے اوپر اﷲ تعالی کی نعمتوں اوراپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کی اپنے رب کی اطاعت فرمانبرداری کی یاد دہانی کرتے ہیں اوراس میں بہت ہی زیادہ خیروبرکت ہے ۔ توپھر مسلمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کا اہتمام کرتے اوراس کی شان وشوکت کی تعظیم کرے ۔ اسی چیز کومدنظر رکھتے ہوئے ذیل میں اس عظیم اسلامی شعائر کے متعلق کچھ اہم معلومات زکر کی جارہی ہیں۔

عید الاضحی کی نماز کے بعد سے ایام تشریق کے آخری دن تک ( تیرہ ذی الحجہ کی شام تک ) چوپائیوں ( اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری ) میں سے کوئی ایک اﷲ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے۔ اس علاقہ جہاں پر قربانی کرنے والا رہائش پذیر ہو، قربانی کی نیت سے جانورذبح کرنے کو اضحی یا قربانی کہا جاتا ہے۔ اﷲ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : تو اﷲ تعالی کے لیے نماز ادا کر اورقربانی کر۔ ( سورہ کوثر)۔

اکثر اہل علم کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ( اور بعض علماء کرام نے اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ اصل میں تویہ قربانی زندہ شخص اوراس کے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کے وقت کے اندر مطلوب ہے اور قربانی کرنے والے کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ زندہ یا فوت شدگان میں سے جسے چاہے اس کے ثواب میں شریک کرلے۔ فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنے کا تواس میں یہ ہے کہ اگر فوت ہونے والے شخص نے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تواس کے ایک تہائی مال سے قربانی کرنی واجب ہوگی یا پھر اگر اس نے اپنی وقف کردہ چیز میں قربانی بھی رکھی ہوتوپھر بھی اس وقف سے قربانی کرنا واجب ہوگی۔ لیکن اگر فوت ہونیوالے شخص نے نہ تووصیت ہی کی اورنہ ہی وقف میں قربانی کرنے کا کہا ہو اورانسان فوت شدگان کی جانب سے قربانی کرنا چاہے تویہ بہتر ہے اوراسے میت کی جانب سے صدقہ شمار کیا جائے گا ، لیکن سنت یہ ہے کہ انسان اپنے اہل وعیال میں سے زندہ اورفوت شدگان کواپنی قربانی میں شامل کرے اورذبح کرتے ہوئے کہے کہ اے اﷲ یہ میری اورمیرے گھر والوں کی جانب سے ہے اور ہر میت کی جانب سے علیحدہ علیحدہ قربانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے بہتر اورافضل ہے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود قربانی ذبح فرمائی اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم افضل اوراولی وبہتر کام ہی سرانجام دیتے تھے ، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد رحمہم اﷲ کا مسلک یہی ہے۔

امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اﷲ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ، تواس طرح بکرا ودنبہ ، مینڈھے کی قربانی اونٹ یا گائے میں حصہ ڈالنے سے افضل ہے ، اورامام مالک رحمہ اﷲ تعالی کہتے ہیں ، مینڈھے کی قربانی افضل ہے اوراس کے بعد گائے اوراس کے بعد اونٹ کی قربانی افضل ہے ، کیونکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دومینڈھے ذبح کیے تھے اورنبی صلی اﷲ علیہ وسلم افضل کام ہی کرتے تھے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی امت کی خیر خواہی کرتے ہوئے اولی اختیار کرتے تھے اورامت کومشقت میں ڈالنا پسند نہیں فرماتے تھے ۔ گائے اور اونٹ کے سات حصے ہوتے ہیں لھذا مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پراس میں سات اشخاص شریک ہو سکتے ہیں۔

جابر رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کی جانب سے اونٹ اورسات ہی کی جانب سے گائے ذبح کی تھی۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ہمیں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اورگائے میں سات سات افراد شریک ہوجائیں۔

عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا جانور کا ذبح صدقہ تو ہوگا مگر وہ قربانی میں شمار نہیں ہوگا۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بھی نماز عید کی ادائیگی سے قبل قربانی کرلی اسے چاہیے کہ وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اورجس نے ذبح نہیں کی وہ اﷲ تعالی کا نام لے کر ذبح کرے ۔ ( صحیح مسلم حدیث نمبر 3621 )۔

جابررضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحی کی نماز ادا کی اورجب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تودو مینڈھے لائے گئے اورآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں ذبح کرتے ہوئے کہا: بسم اﷲ واﷲ اکبر، اے اﷲ یہ میری جانب سے اورمیری امت میں سے قربانی نہ کرنیو الے کی جانب سے ہے۔

قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے اور دیگر صفائی کے کام مکمل کرلے اور قربانی کے بعد ان کو کاٹے۔

قربانی کے لئے جانور کے لئے بھی کچھ شرائط شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ قربانی کا جانور مطلوبہ عمر کا ہونا ضروری ہے۔ دودانتا ( دودانت والا ہونا ) مینڈھا چھ ماہ اوربکرا ایک سال ، اورگائے دوس سال اوراونٹ پانچ برس کا ہونا ضروری ہے۔ عیوب و نقائص سے مبرا ہو یعنی اس میں کوئی عیب نہ پایا جائے ۔ کیونکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے :ـ ’’چار قسم کے جانورقربانی کے لائق نہیں ہیں، آنکھ کی بیماری والا جانور جس کی بیماری واضح ہو ، بیمارجانور جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور کمزور جانور جس کا گودہ ہی نہ ہو) ۔ (صحیح الجامع حدیث نمبر 886) اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے عیوب ہیں جن کی بنا پرقربانی کرنا مکروہ ہے لیکن قربانی کرنے میں ممانعت نہیں بنتے ۔
جیسے کٹے ہوئے سینگ اور کان والے، پھٹے ہوئے کان والے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ قربانی کرنا اﷲ تعالی کا تقرب ہے اوراس کے قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کی جاتی ہے اوراﷲ تعالی بہت ہی پاکیزہ ہے اور وہ پاکیزہ چیز کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں فرماتا۔

قربانی کا وقت نماز عید اورخطبہ کے بعد سے لیکر ایام تشریق کے آخری دن کے سورج غروب ہونے تک ہے ، نہ کہ نماز عید اورخطبہ کے وقت کے داخل ہونے کے بعد بلکہ نماز عید کی ادائیگی اور خطبہ سننے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ذی ا لحجہ کی تیرہ 13 تاریخ کے غروب شمس تک رہتا ہے۔ تیرہ تاریخ ہی ایام تشریق کا آخری دن ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان ہے : ’’ جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کرلی وہ قربانی دوبارہ ذبح کرے ‘‘۔ (صحیح بخاری )

حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کا قول ہے : ’’عیدالاضحی اوراوراس کے تین دن بعد قربانی کرنے کے ایام ہیں‘‘۔

عید سے قبل گھر سے کچھ نہیں کھانا چاہئے، البتہ اگر کھالیا جائے تو اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں ہے۔ بریدہ رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم عید الفطر میں کھانے کے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن قربانی کرنے سے قبل نہیں کھاتے تھے۔

قربانی ذبح کرنے میں افضل تو یہ ہے کہ قربانی کرنے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ، لیکن اگر وہ نہیں کرسکتا وہ اس کے لیے کسی دوسرے سے ذبح کرنا بھی مستحب ہے۔

قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ابن مسعود اورابن عمررضی اﷲ تعالی عنہم کہتے ہیں کہ : ’’قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے ، ایک تہائی کھانے کے لیے اور ایک تہائی تحفہ اورہدیہ دینے کے لیے ، اورایک تہائی صدقہ کرنے کے لیے۔
Ulfat Akram
About the Author: Ulfat Akram Read More Articles by Ulfat Akram: 12 Articles with 9171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.