یورپ کی مسلم دشمنی، حلال فوڈ نشانہ پر

عالم کفر اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جن باتوں کی وجہ سے خائف ہے‘ان میں ایک بڑی وجہ اسلام کی حلال کردہ اشیاء بھی ہیں۔ حرام اشیاء کے مضرصحت ہونے کے بارے میں جدید سائنس اسلام کی حقانیت پرمہرتصدیق ثبت کرچکی ہے مثلاً خنزیر کواﷲ تعالیٰ نے قرآن میں حرام قراردیا ہے تو جدید سائنس بھی یہ ثابت کرچکی ہے کہ خنزیر میں انسانی جسم کونقصان پہنچانے والے جراثیم کاذخیرہ تمام جانوروں سے زیادہ ہے۔ یورپی اطباء کی تحقیق کے مطابق خنزیر نہ صرف450 سے زائد مہلک وبائی امراض کی زرخیزچراگاہ ہے بلکہ وہ ان میں سے 57 مہلک وباؤں کوانسان تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ خنزیر کے مضر صحت ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیاہوسکتاہے کہ آج دنیامیں ’’سوائن فلو‘‘ کے نام سے جو بہت بڑی وباء دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ دراصل یہ بیماری خنزیر کی وجہ سے پھیل رہی ہے جواسلام میں حرام ہے لیکن مغرب کوبہت محبوب ہے۔

جب تک کسی کھانے میں خنزیر کی کسی چیزکی آمیزش نہ ہو‘ اہل مغرب کو مزا ہی نہیں آتا۔ برگر سے لے کر سویاں‘ ٹافیاں‘ لپ اسٹکس اورٹوتھ پیسٹ تک سب میں خنزیر کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور شامل ہوتاہے۔ ڈبوں پرجن غذاؤں کے اجزاء کی بجائے صرف ایک کوڈ ’’ای ‘‘ نمبر دیاہو‘ان سے مراد عموماً خنزیر کے اجزاء ہوتے ہیں۔آج اس خوراک کانتیجہ پوری دنیا بالخصوص عالم مغرب بھگت رہاہے۔ شراب کے مضر صحت ہونے کے بارے میں بھی پورا عالم کفرمتفق ہے۔ البتہ صرف اس قدر اختلاف ہے کہ شراب کی کم مقدار سے کچھ نہیں ہوتا‘حالانکہ ڈرائیونگ اور زندگی کے بعض دیگراہم امور کے دوران شراب کی معمولی مقدار پینے پراہل یورپ نے خودہی پابندیاں لگارکھی ہیں اور یوں وہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں کہ شراب کی معمولی مقدار بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی کہ زیادہ ۔اس کی معمولی مقدار کوجائز سمجھنا توایسے ہی ہے جیسے کوئی ایک حدتک جوئے‘ چوری‘ ڈاکے اور قتل وزنا کو جائز سمجھ لے‘ حالانکہ ان برائیوں کی مکمل ممانعت کی اصل حکمت ہی یہ ہے کہ اگران کومعمولی سطح پر بھی کرلیا جائے توپھرانسان کوان کی لت پڑجاتی ہے اور پھرعمومی طورپران سے چھٹکارا ممکن نہیں رہتا۔

اسی طرح ذبیحہ کے اسلامی طریقے کی سائنسی افادیت بھی آج مسلّم ہے۔ مردہ جانوروں کا گوشت یاصرف جھٹکا کیے ہوئے جانوروں کاخون پوری طرح ان کے جسم سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اس کے نتیجے میں جانور کاگوشت پکانے پرہی کالاہوجاتاہے۔ گنداخون اندررہ جاتاہے جوپھربیماریوں کاسبب بنتاہے۔غرض اسلام کی حلال اشیاء کی افادیت کی سائنس بھی آج گواہی دے رہی ہے اوراسی وجہ سے حلال اشیاء عالم کفر میں بھی آج سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کی فروخت سب سے زیادہ ہورہی ہے۔ اس کااندازہ صرف اس سے لگائیں کہ دنیابھرمیں خنزیر کے گوشت کی سالانہ تجارت 2.5بلین ڈالر ہے جبکہ یورپ کاصرف ایک ملک فرانس میں17بلین ڈالر کی حلال گوشت کی مارکیٹ ہے۔

اس وقت دنیا میں حلال مارکیٹ کی شرح نمو تقریباً 20 فی صد سالانہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ حلال فوڈ غیر حلال فوڈ کے مقابلے میں صحت کے لئے مفید ہے‘ اس لئے امریکہ ،یورپ ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ کے غیر مسلموں میں بھی حلال فوڈ کی کھپت بڑھتی جارہی ہے۔

نئی دہلی کے امریکن سینٹر سے شائع ہونے والے میگزین سپین( SPAN)کے ایک مضمون کے مطابق حلال اشیاء کے گاہکوں میں صرف مسلمان نہیں، عیسائی اور یہودی بھی شامل ہیں۔ یہودی اس لئے کہ وہ بھی ذبیحہ (کوشر) کھاتے ہیں۔ غیر ذبیحہ نہیں اور عیسائی اس لئے کہ اب حلال غذاؤں کی اہمیت ان کی بھی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ مثلاً جدید سائنس نے بتادیاہے کہ حرام جانوروں مثلاً سور (خنزیر) اور جھٹکا کئے ہوئے جانوروں کے گوشت میں صحت کے لئے کیا کیا نقصانات چھپے ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں حلال فوڈ کتنا محفوظ( Safe) ہے۔ معروف صحافی مرزا اختیار بیگ نے لکھا ہے کہ ورلڈ حلال فورم کی حالیہ تحقیق کے مطابق بین الاقوامی سطح پر 2009ء میں حلال فوڈ کی مارکیٹ 632ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ حلال انڈسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کی کل حلال مارکیٹ ایک ٹریلین (دس کھرب) ڈالر سے لے کر بیس کھرب (دو ٹریلین)ڈالر سالانہ تک کی ہے۔ یورپ میں حلال مارکیٹ کا بزنس تقریباً چھیاسٹھ ارب ڈالر ہے۔ تنہا برطانیہ میں چھ سو ملین ڈالر کا حلال گوشت سالانہ فروخت کیا جاتا ہے۔صرف امریکی مسلمان تقریباً تیرہ ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر صرف کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک ہرسال چوالیس ارب ڈالر کا حلال فوڈ امپورٹ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں حلال فوڈ کا سالانہ کاروبار اکیس ارب ڈالر ہے۔ انڈونیشیاء ہر سال ستر ارب ڈالر کا حلال فوڈ امپورٹ کرتا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حلال فوڈ بالخصوص حلال بیف (گائے کا گوشت) کی عالمی مانگ پورا کرنے والے مسلم ممالک نہیں‘ غیر مسلم ممالک ہیں۔ مثلاً انڈونیشیاء کو سب سے زیادہ حلال بیف (یعنی گائے کا گوشت) آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ برآمد کرتے ہیں۔ صرف برازیل ایک ملین (دس لاکھ) حلال منجمد چکن‘ ایک سو سے زیادہ ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہی برازیل تین لاکھ میٹرک ٹن حلال بیف سعودی عرب ، مصر اور ایران کو ہر سال برآمد کرتا ہے۔ ہر سال فرانس سے ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن حلال چکن سعودی عرب‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات ، یمن اور دوسرے مسلم ممالک کو برآمد کئے جاتے ہیں۔ امریکہ دنیا میں بیف کاتیسرا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اور اس کے ذریعے برآمد کئے جانے والی فوڈز (Foods)میں حلال بیف کی برآمدات 80فی صد ہیں یعنی امریکہ صرف بیس فی صد غیر حلال (یعنی حرام) فوڈ سپلائی کرتا ہے۔نیوزی لینڈ دنیا میں بیف کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے البتہ اس کی حلال بیف کی برآمدات صرف چالیس فی صد ہیں۔ (یعنی نیوزی لینڈ ساٹھ فی صد جھٹکا بیف برآمد کرتا ہے) تو ظاہر ہے کہ دنیا میں حلال فوڈ کی مارکیٹ میں یہ روز افزوں فروغ اس وجہ سے ہے کہ اب جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ حلال فوڈ صحت کے لئے مفید ہے‘ اس لئے غیر مسلموں میں بھی دن بہ دن اس کی مانگ بڑھتی جارہی ہے۔اب ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بڑے پیمانے پر حلال فوڈ کی تجارت کررہی ہیں اور اُن کی سب سے بڑی مارکیٹ عرب ممالک ، فرانس اور برطانیہ ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کی بھی کئی کمپنیاں آگے آرہی ہیں اورحلال فوڈ کی اسی مقبولیت سے مغرب کامتعصب عیسائی طبقہ اب زبردست جلن اور حسد میں مبتلا ہورہا ہے۔ رائٹر کی (19فروری2010ء)کی ایک خبران کے اسی رویے کی عکاس ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

’’فرانس میں پورے ملک میں پھیلے ہوئے ریسٹورنٹ کے ایک گروپ نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان گاہکوں کی ضرورت کے پیش نظر وہ اپنی آٹھ برانچوں میں ’’حلال گوشت‘‘ مہیاکریں گے۔ فرانس کے دائیں بازوکے ایک انتہاپسند لیڈرنے فوری طورپر ردِّعمل میں بیان جاری کیا ہے کہ 350برانچوں کے اس ریسٹورنٹ نے ہم فرانسیسیوں پر’’اسلامی ٹیکس‘‘ عاید کردیاہے۔ ساتھ ہی ایک سوشلسٹ میئرنے کہاہے کہ غیرمسلموں کے خلاف اس تعصب کووہ عدالت میں لے جائیں گے۔

قومی شناخت کے حوالے سے برقعے پر پابندی کے بعدحلال گوشت کے اس ایشو کا آغاز ان دنوں ہورہاہے جبکہ فرانس میں الیکشن میں صرف چند دن باقی ہیں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم مرین لی پن (Marine lepen) نیشنل فرنٹ کے نائب صدر نے الزام عایدکیاہے کہ گاہکوں کو مجبورکیاجاتاہے کہ وہ حلال گوشت خریدیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ان اسلامی تنظیموں کوٹیکس اداکریں جوتصدیق کرتی ہیں کہ گوشت اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔‘‘

قارئین کرام! دیکھئے فرانس کے متعصب صلیبی طبقے کے بیانات میں اسلام کے خلاف کس قدر زہربھراہواہے۔ برقعہ‘داڑھی اور مساجدکے مینار تواس بہانے برداشت نہ ہوئے کہ یہ ان کی مغربی ثقافت کاچہرہ تبدیل کرتے ہیں۔اب لے دے کے وہاں کے مسلمانوں کے لیے صرف ایک حلال فوڈ بچی تھی لیکن اب مسلمانوں کواس سے بھی محروم کرنے کے لیے سازشوں کے نئے تانے بانے بننے شروع ہوگئے ہیں اور عجیب وغریب منطق یہ بگھاری جارہی ہے کہ فرانس میں دکانوں پر حلال اشیاء بیچناگویا فرانسیسیوں پرٹیکس عائد کرناہے‘ حالانکہ’’حلال فوڈ‘‘یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں میں بھی یکساں مقبول ہے۔ سائنس بھی ان کی افادیت ثابت کرچکی ہے لیکن یہ صرف اسلام کے ساتھ تعصب اور دشمنی کانتیجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی مخالفت میں اپنا بھی نقصان کرناچاہتے ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو کیسی سنہری تعلیم دی ہے کہ
’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں بے انصافی پرمجبورنہ کرے۔‘‘ (المائدہ:8)

کاش!اس عظیم الشان ہدایت پرمغرب کامتعصب طبقہ بھی عمل کرے اور مسلم دشمنی میں کم ازکم اپنانفع نقصان توفراموش نہ کریں ۔ یہ کہنا کہ فرانس میں ’’حلال فوڈ‘‘ کو فروخت کرناایسے ہی ہے جیسے فرانسیسیوں پرٹیکس عایدکرنا‘بڑی عجیب بات ہے۔ فرانس کے متعصب صلیبیوں کوحقائق سے اس قدر آنکھیں بندنہیں کرلینی چاہئیں یاوہ شایددنیا کوہی بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ جوکہیں گے‘ دنیا اسے ہی مان لے گی۔ دن کورات کہیں یارات کودن‘ لوگ آنکھیں بند کرکے ان کی ہربات مان لیں گے۔ فرانس کایہ متعصب عیسائی طبقہ کیابتاسکتاہے کہ فرانس پرحکومت مسلمانوں کی ہے یا غیر مسلموں کی بلکہ وہ بتائیں کہ پوری دنیا میں حکم مسلمانوں کاچل رہا ہے یاغیرمسلموں کا۔ فرانس کے مظلوم مسلمان توپردے کے خلاف فرانسیسی حکومت کے حکم کوتبدیل نہیں کراسکے تووہ بھلا فرانسیسیوں کو حلال گوشت کھانے پرکیسے مجبورکرسکتے ہیں اور فرانس میں حلال گوشت بیچنا ٹیکس کیسے ہوگیا؟ یہ تو حلال گوشت کی مسلمانوں اور غیرمسلموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے جس سے آپ جل بھن کر کباب ہورہے ہیں۔ یہ مسلمان تو ابھی آپ پرنہ کوئی ٹیکس لگاسکتے ہیں‘نہ لگارہے ہیں۔ صرف یہ اسلام کی تعلیمات کی حقانیت ہے جواپناآپ سب سے منوا رہی ہے۔
Ulfat Akram
About the Author: Ulfat Akram Read More Articles by Ulfat Akram: 12 Articles with 9225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.