یہ حملہ کہیں فسطائیوں کی سازش تو نہیں؟

ایک ایسے وقت میں جب کہ مظفر نگر فساد کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں اور اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ دوسری جانب نیو یارک میں ہندو پاک کے وزرائے اعظم کی خوشگوار ملاقاتوں کا دور دورہ ہے۔ جموں و کشمیر میں دہشت گر دانہ حملے ہوگئے جن سے زخمی مادر وطن کے بھرتے زخموں میں اور زخم لگ گئے۔ جواں ہمت ہندوستان کا حوصلہ توڑنے کی یہ کتنی مذموم کوشش ہے۔

یہ حملے کس نے کیے‘کیسے کیے گئے اور ان کا ہدف کون تھا؟ نفرتوں کے سوداگر میڈیا نے اسے کھول کھول کر بتلادیا ہے ۔ ایک نام نہاد ’شہدا بر گیڈ‘ بھی پیدا کر دیا اور وزیر داخلہ کے بیا ن کے مطابق سرحد پارسے حملہ آورو ں کی دراندازی بھی ثابت کر کے ملک بھر کے فسطائی ذہنیت کے لوگوں میں زہر بھر دیا۔ انسانوں کے خلاف بھر ا جانے والا یہ زہر اتنا شدید ہے کہ بنا کاٹے اور ڈسے ہی انسان اس سے زخمی ہورہے ہیں ۔ ان حملوں کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کو اس طرح دیکھا جارہا ہے جیسے انھوں نے کو ئی جرم عظیم کیا ہو۔ انھیں کوسا جارہا ہے اور طعنے دیے جارہے ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھا ئی جارہی ہیں۔ سر راہ ان پر جملے کس کر انھیں ہراساں کیا جارہا ہے اور دوسری جانب میڈیا مسلسل اس طرح کی زہر افشانی کر کے لوگوں کوحقیقت سے گمراہ کر نے کی کوشش کر رہا ہے ۔

ان حملوں کی سچا ئی اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہ بی جے پی اور فسطائی جماعتوں کی کارستانی ہے جو نہیں چاہتیںکہ ہندوستان ۔ پاکستان اورکشمیر میں امن کا کبوتر پرواز کرے اسی طرح امن کی آشا الفاظ کے دائروں سے نکل کر حقیقت بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان حملوں کی مذمت کرنے سے پہلے بی جے پی کے صدرراج ناتھ سنگھ نے شریف۔ منموہن ملاقات کا بائکاٹ کر نے کا اعلان کیا ہے اور وزیر اعظم سے پر زور الفاظ میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے ملاقات نہ کر یں ۔ اسی طرح ’مسٹر پھینکو ‘ کے لقب سے مشہور نریندر مودی نے بھی بیان داغا کہ یوپی اے کی برخاستگی کے بعد ہی سر حد محفوظ ہوسکتی ہے۔ حالانکہ این ڈی اے دور حکومت کی شہادتیں موجود ہیں کہ اس وقت سرحد کتنی محفوظ تھی او رکارگل سانحہ این ڈی اے کے دور میں نہیں کسی اور دور میں پیش آیا تھا۔!

اس دعو ے کی دلییلیں اور بھی ہیں۔ ابھی تک سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ کا معاملہ سرخیوں میں ہے جس نے بی جے پی اور آرایس ایس کے اشارے پر عمرعبد اللہ کی حکومت کا تختہ پلٹ کر نے کا منصوبہ بنایا تھا۔ چلئےیہ بات گئی گذری ہو ئی ۔ دوسری دلیل یہ ہے : بتا یا جارہا ہے کہ ان حملہ آوروں نے ہندوستانی فورسس کی وردی پہنی ہو ئی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ وردیاں انھیں کس نے فراہم کیں؟ اسی سے ملتے جلتے یہ سوالات بھی کھٹکتے ہیں کہ ان لوگوں نے کٹھوعہ ‘ہری پور اور سانبا کے علاقوں کی عین پہچان کیسے کی؟ وہ کون آٹووالا تھا جو ان کو کٹھوعہ کے پولیس اسٹیشن لایا ؟ کٹھوعہ تھانے پر حملہ کر نے کے معاً بعد آگے جانے کے لیے انھیں کس نے ٹرک فراہم کیا اور کہاں سے آناًفاناً میں ان کے پاس اتنا اسلحہ آگیا کہ وہ 12یا 15گھنٹوں تک گولی باری کر تے رہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات جب تک حاصل نہیں ہوجاتے یہ معاملہ ڈور کے لچھے کی طرح الجھا ہی رہے گا اور ایک لایحل معمہ بنا رہے گا ۔

قارئین کر ام !آپ کہیں گے کہ میں پاگلوں جیسی باتیں کررہا ہوں۔ یہ معاملہ تو صاف ہے اور اس میں الجھاﺅں کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کا حق ہے آپ کہیں ‘میڈیا کی غلط بیانیوں پر یقین کیجیے اور پھر دوسرے دن کسی اور مسئلے میں الجھ جائیے یہی آج کا دستو ر ہے اور یہی آج کا چلن مگر مادر ہندوستان کا بدن جو چھلنی ہوا جارہا ہے اور اس کے سینے پر لگنے والے زخم ناسور بن چکے ہیں ان کا بھی تو کچھ مداوا کیجیے۔ بھارت ماں کا کرب اور درد بھی تو محسوس کیجیے۔ اس کی تار تار ہوتی عزت کا بھی خیال کیجیےاور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مادر ہندوستا ن کو اس حالت میں پہنچانے والے اصل مجرموں کا پتالگایا جائے گا۔ وہ کوئی اور نہیں آر ایس ایس ‘وشو ہندو پریشد‘ بجرنگ دل‘شیو سینا‘بی جے پی اور اس جیسی نام نہاد و گمنام جماعتیں ہیں ۔ یہ امن کی دشمن جماعتیں جونک کی طرح چمٹ کر مادر ہندوستان کا خون چوس رہی ہیں اور دیمک کی طرح اس کی عظمت کو مٹا رہی ہیں ۔ جگہ جکہ جھگڑا فساد اور خون خرابہ کر کے سر زمین ہند کو لال کر رہی ہیں۔ مظفرنگر اور اس سے قبل اتر پردیش میں بر پا ہونے والے تمام فساد ات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسلمانوں نے کوئی مندر نہیں توڑا مگر انھوں نے چھوٹی بڑی کتنی مسجدیں شہید کر دیں۔ مسلمانوں نے اس وطن کے لیے خون بہایا مگر یہ اسے چھین رہی ہیں ۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ آج نہ یہ دلت ہیں اور نہ بر ہمن‘ شودر ہیں نہ ویشیا بلکہ صرف اورصرف فسطائی ‘فرقہ پرست ‘زہریلے ناگ اور معصوم انسانوں کے خون کے پیاسے ہیں ۔ مظفر نگر میں جن لو گوں نے فساد بر پا کیا اور اسی قبیل کے تھے جنھوں نے بی جے پی( جس میں اعلا ذات کے ہندﺅوں کا ہی داخلہ ممکن ہے) کے اشارے پر مظفر نگر جلا دیا ۔

جموں کشمیر کے حالیہ حملوں میں بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کا ہاتھ ہونے سے کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ میڈیا اور ’بے خبر‘ لیڈران کی باتو ں پر مت جائے بلکہ اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ عقل سلیم کا استعمال کیجیے آپ کو سچائی کا اندازہ ہوگا-

جموں و کشمیر کے حالیہ حملوں میں فسطائی طاقتو ں کا ہاتھ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اکثر جب ہندوپاک اپنے جھگڑے مٹا کر قریب آئے ہیں اور گلے ملنے کی کوشش کی ہے تو کبھی کنٹرول لائن پہ ‘کبھی پنجاب میں ‘کبھی ممبئی میں یا پھر کبھی کسی اور مقام پر انھوں نے ایسی ہی شرمناک حرکتیں کی ہیں جن سے دونوں ممالک قریب آتے آتے دور ہو گئے ۔ حالیہ دنوں جب کہ ہندو پاک کے وزرائے اعظم باہم ملاقات کر نے والے ہیں او ر دونوں ممالک کو درپیش مسایل و چیلنجوں پر تبادلہ خیال کر نے والے ہیں پھریہ مذموم رسم انجام دے دی گئی ۔

اسی قبیل کا ایک موقع اور ملا حظہ کیجیے۔ جب ہندوستان میں برسو ں بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کھیلنے کے لیے آنے والی تھی اس وقت بال ٹھاکر ے نے حسب عادت اس کی پرزور مخالفت کی تھی۔ وہ تو اچھا ہو ا کہ کرکٹ منعقد ہونے والی تاریخو ں سے پہلے ہی وہ دوسری دنیا میں چلے گئے۔ پاکستانی ٹیم آئی اور1۔4سے مقابلہ جیت کر وطن واپس ہو گئی ۔ اس کامیابی نے ان فسطائی جماعتوں کے تن بدن میں آگ لگا دی اور ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگا۔ اس کے معاً بعد ’انڈین ہاکی فیڈریشن‘ نے انڈیا ہاکی لیگ کا انعقاد کیا جس میں پاکستان سمیت متعدد ملکوں کے کھلاڑیوں کو دعوت دی گئی ۔ ہاکی لیگ کے انعقاد میں تھوڑا ہی وقت باقی تھا کہ ان کے اشارے پر کنٹرول لائن پر اپنے ہی ساتھیوں کے سرکاٹ کرفوج نے مشہور کر دیا کہ پاکستان کے دراندازوں نے ہہ مذموم حرکت کی ہے۔ پھر کیا تھا دونوں ممالک کے سدھرتے حالات و تعلقات میں پھر تلخی آگئی۔ ہندوستان کے تیور سخت ہو گئے۔ اس حادثے کی چوطرفہ مذمت ہو ئی اور فوری کارروائی کرتے ہو ئے وزارت کھیل نے پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت کالعدم کردی ۔ حکومت ہند کایہ اقدام ان جماعتوں کو اس قدر بھایا کہ انھوں نے عالم خوشی میں نئی دہلی میں پاکستانی سفیر اور ہائی کمشنر سلمان بشیر پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ چونکہ یہ حملہ ا ن لوگوں نے کیا تھا جنھیں اس ملک میں سب کچھ کر نے کی اجازت ہے اس لیے حکومت ہند نے اس کی نہ تو مذمت کی اور نہ پاکستان سے اس مذموم حرکت پر معافی مانگی ۔

اس کے بعد وقفے وقفے سے یہ کھڑاگ پھیلایا جاتا رہا اور اتر پردےش سمیت ملک کے متعدد حصوں میں حالات کشیدہ ہوتے رہے یا وہاں فرقہ وارانہ فسادات ہو گئے ۔

شاید یہ سیاست کا حصہ ہے کہ ہر ملک میں کو ئی نہ کوئی ایسی جماعت ہونی چا ہیے جو حکمراں جماعت کے لیے سیاسی مسایل پیدا کر تی رہے۔ اس کی بدولت حکمراں جماعت آپریشن کر تی رہے اور ملک پر بیرونی خطرات کا شاخسانہ بنا کر باشندگان وطن کو بے وقوف بناتی رہے۔ ہندوستانی حکومت اور اپوزیشن بی جے پی اس روایت کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ انھوں نے سیاست کی راہ میں قدم قدم پر بارود بچھا رکھا ہے جو ذراسی چنگاری دکھانے پر عظیم تباہی لاتا ہے۔ اسے یہ لوگ سیاست کہتے ہیں۔ انسانوں کی جانیں جاتی ہیں اوریہ اسے حکمت کہتے ہیں۔ اس سیاست میں زیادہ سے زیادہ خون بہانے والی حکومت یاافراد کے سینے تمغوں سے سجائے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمیشہ سے یہ بات مسلّم ہے کہ انسان کی جان سے قیمتی کو ئی اور چیز نہیں ہے‘نہ حکومت ‘نہ سیاست اور نہ جماعتیں۔ لیکن افسوس! ان ناسمجھوں کے لیے کیا کیا جائے جن کے ہاتھوںمیں ہندوستانی عوام کی تقدیر دے دی گئی ہے اور وہ اسے سنوارنے کے بجائے تکلیف دہ بنا تے جارہے ہیں ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56669 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More