نئی جوڈیشل پالیسی اور عوام

آج کل ملک میں نئی جوڈیشل پالیسی پر بہت کام ہورہا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے کرتا دھرتا خصوصاً چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار چودھری صاحب اس کے لئے دن رات کام کررہے ہیں جس کے لئے وہ تعریف و توصیف کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ نئی جوڈیشل پالیسی کے مطابق مقدمات کو بےجا طول دینے سے احتراز ایک ضروری امر ہے۔ اگر پاکستان کی ماتحت عدلیہ جس میں سول کورٹس، سیشن کورٹس، خصوصی عدالتیں و ٹریبونلز وغیرہ آتے ہیں کا جائزہ لیا جائے تو اس طرف بھی چیف جسٹس صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ ان میں عملہ کی کمی کا سامنا ہے اور انہوں نے حکومت سے بھی کہا ہے کہ عملہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے عدلیہ کی مدد کی جائے۔ ہمارے خیال میں بھی جب تک ماتحت عدلیہ میں عملے کی کمی رہے گی نئی جوڈیشل پالیسی پر کماحقہ عملدرآمد ہونا قطعی طور پر ناممکن ہوگا۔ سول کورٹس جہاں کہ سب سے زیادہ کیسز فائل کئے جاتے ہیں وہاں ججز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر صرف لاہور کی مثال سامنے رکھی جائے تو سول کورٹس میں بلامبالغہ لاکھوں کیسز زیر التواء ہیں اور روزانہ سینکڑوں نئے مقدمات کی رجسٹریشن ہورہی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں ججز کی تعداد انتہائی کم ہے اور ایک جج کے پاس اوسطاً ڈیڑھ سو سے دو سو تک کیسز روزانہ سماعت کے لئے پیش ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے پچاس فیصد کیسز ایسے مان لئے جائیں جن میں کارروائی کے لئے عدالتی عملہ ہی کافی ہوتا ہے، یعنی ایسے مقدمات جن میں صرف نوٹس ہونا ہوتا ہے یا کسی فریق کو جواب دعویٰ وغیرہ داخل کرنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کم از کم پچاس فیصد کے قریب ایسے مقدمات ہوتے ہیں جو جج صاحب کی ذاتی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، اگر ہم ایک جج کے پاس روزانہ کے پچھتر مقدمات بھی تصور کرلیں تو بھی وہ اگر سارا دن کام کرے تو 15 سے 20 مقدمات میں ذاتی توجہ دے سکتا ہے اور اگر بہت بھی کوشش کرے تو یہ تعداد 25 تک ہوسکتی ہے، مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک جج 75 میں سے 25 مقدمات کو روزانہ نپٹائے تو بھی 50 مقدمات روزانہ کے حساب سے ایک جج کے پاس زیر التواء مقدمات کا ڈھیر لگتا رہتا ہے، جبکہ نئے فائل ہونے والے مقدمات الگ سے ہیں، اسی طرح کی حالت باقی عدالتوں یعنی سیشن کورٹس اور خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا حل صرف اور صرف ماتحت عدلیہ میں ججوں کی تعداد کو بڑھا کر ہی نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سائلین جو کورٹ فیس کی مد میں ایک بڑی رقم حکومت کو اور فیس کی مد میں وکلاء کو ادا کرتے ہیں، عدالتوں کے اندر ان کے بیٹھنے کا خاطر خواہ کوئی انتظام نہیں ہوتا، ان کو پینے کے لئے ٹھنڈا پانی دستیاب نہیں ہوتا اور سارا دن وہاں گزارنے کے لئے کھانے کے لئے انتہائی مہنگے داموں اشیاء خریدنا پڑتی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو ان تمام امور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں عدالتی نظام کو اوورہال اور ٹھیک کرنے کا ایک سنہری موقع عطا کیا ہے انہیں اس سے فائدہ اٹھا کر اس ملک کے غریب عوام کی دعائیں بھی سمیٹنا چاہئیں اور اللہ کے یہاں اپنے لئے اجر و ثواب بھی لکھوانا چاہئے۔

ہماری چیف جسٹس صاحب سے ایک اور مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی بستے ہیں جو انتہائی غریب بھی ہیں اور مظلوم بھی لیکن ان کے کسی قسم کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں اور چیف صاحب کو بطور قاضی القضات ان کو بھی عدل اور انصاف فراہم کرنا ہے۔ وہ لوگ ایسے ہیں جو اس ملک کے بالکل عام شہری ہیں لیکن ان کے بھی بہرحال انسانی حقوق ہیں، وہ لوگ وہ ہیں جن کو کبھی بجلی کی قیمت میں اضافہ کر کے ادھ موا کیا جاتا ہے تو کبھی پیٹرول کی قیمت میں.... کبھی گیس کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں تو کبھی باقی اشیائے صرف کے۔ بے مہار مہنگائی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے شیر خوار بچوں تک کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، چیف جسٹس صاحب! یہ ایسے لوگ ہیں جو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ساری ساری رات نہ سونے کی وجہ سے چڑچڑاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی چڑچڑاہٹ ٹینشن کا سبب بنتی ہے اور ٹینشن لڑائی جھگڑے کا....! وہ لوگ جو اپنی روزی روٹی کو چھوڑنا، احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنا، کاروبار بند کر کے ہڑتال کرنا ”افورڈ“ نہیں کرسکتے تھے، وہ بھی آپ کی بحالی کے لئے جلوسوں، جلسوں اور ریلیوں میں بڑی تعداد میں اسی لئے اپنی جان ہتھیلی پر لئے شریک ہوتے تھے کہ ان کو آپ کی صورت میں ان تمام مسائل کا نجات دہندہ نظر آتا تھا۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، جو بجلی چوری نہیں کرتے بلکہ اس کا استعمال ترک کردیتے ہیں، جو کہیں ڈاکہ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو ختم کر ڈالتے ہیں، جو رشوت نہیں دیتے، لڑائی جھگڑا نہیں کرتے بلکہ اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں....! چیف جسٹس صاحب ! یقیناً آپ نئی جوڈیشل پالیسی کی تدوین اور اس کے نفاذ میں بہت مصروف ہیں، اعلیٰ عدلیہ سے مقدمات کا بوجھ بھی کم کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ اور بھی معاملات آپ کی توجہ کے متقاضی ہیں کہ اس خاموش اکثریت کو بھی آپ سے عدل مل جائے، انصاف مل جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ بوجوہ پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں اور این آر او پر از خود اختیارات کے تحت کارروائی نہیں کررہے لیکن لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور بدامنی کے خلاف تو کارروائی کرسکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2009 کی دوسری سہ ماہی میں صرف لاہور اور گردو نواح میں خواتین کو زندہ جلانے کے 122 واقعات کے مقدمات درج کروائے گئے ہیں، اس کے خلاف تو کارروائی ہوسکتی ہے، ان کے مجرموں کو تو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ پولیس آئے دن کسی نہ کسی بے گناہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، چند دن واویلا ہوتا ہے ، ایک آدھ پولیس والا پکڑا جاتا ہے اور پھر دوبارہ راوی چین ہی چین لکھنا شروع کردیتا ہے۔ جناب افتخار چودھری صاحب! ججز بحالی تحریک کے مخالفین کا پراپیگنڈہ زور پکڑتا جا رہا ہے، وہ نوجوان وکلاء سے سوال کرتے ہیں کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز بحال ہوچکے، عدالتی نظام سمیت کہاں کہاں تبدیلی آئی ہے؟ کیا پولیس نے اپنا قبلہ درست کرلیا ہے؟ عالمی منڈی میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں، اب کہاں ہیں وکلاء اور چیف جسٹس صاحب؟ وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی ٹوٹے ہوئے جوتے اور عورتوں کی لڑائی کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے اور کہاں ہیں سوﺅموٹو ایکشنز؟ محترم چیف جسٹس صاحب! قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے، آپ نے بھی پنجاب بار کونسل کے لاہور کے کنونشن میں وکلاء اور قوم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا جس کو پوری دنیا نے میڈیا کے ذریعہ دیکھا تھا اور سنا تھا کہ پٹرولیم کمپنیوں اور اوگرا کی من مانیاں نہیں چلنی چاہئیں، اگر عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہوں تو اس کا فائدہ عوام کو بھی ملنا چاہئے، جناب والا! لوگ محو انتظار ہیں کہ کب آپ ان کو ’ریلیف“ دیتے ہیں، کب آپ ان کے دکھوں کا درماں کرتے ہیں، کب آپ از خود اختیارات کے تحت کارروائی کر کے پیٹرول، بجلی، گیس اور دیگر زندگی گزارنے کے لئے ضروری چیزوں کی قیمتیں کم کراتے ہیں، کب آپ لوڈ شیڈنگ ختم کراتے ہیں....! جناب والا! کچھ کرلیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور کسی کے بھی بس میں کچھ نہ رہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.