صوفی ازم ایک حقیقت

میرے کچھ دوست اکثر مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ میں صوفیت کی اس قدر شدت سے کیوں وکالت کرتا ہوں جبکہ بیشتر مسلمان نہ صرف اسے مسترد کرتے ہیں بلکہ اسلام سے انحراف بھی کہتے ہیں۔ لیکن میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ صوفی حضرات اﷲ سے محبت کرتے ہیں اﷲ سے خوف نہیں کھاتے۔ان کے لیے محبت ہی ان کا اصل بنیادی اور مرکزی عقیدہ ہے۔داتا علی ہجویری ؒ،بلھے شاہؒ،بابا غلام فریدؒ جیسے صوفیوں نے ایک مذہب کو دوسرے سے جدا کرنے والی دیواریں گرا کر پیار و محبت کو تمام بنی نوع انساں کے لیے ان کے مذاہب کی بنیاد بنایا۔ ابن عربی نے تو یہاں تک کہہ دیا’’ حبی دینی و شریعتی ‘‘یعنی محبت ہی میرا دین اور میری شریعت ہے۔یہ ان حضرات کے لیے بڑی بامعنی بات ہے جو پوری انسانیت میں یقین رکھتے ہیں اور نفرت پر نہیں بلکہ محبت کی بنیادوں پر انسانی تہذیب کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ محبت نہ صرف رواداری کی جانب لے جاتی ہے بلکہ انتہا پسندی ، شدت پسندی اور خارجی سچ کی بنیادوں پر تحریکوں کو بھی پسپا کرتی ہے۔جو شخص پوری انسانیت سے محبت کرتا ہے ہمیشہ داخلی فکر و سوچ اختیار کرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ خارجی گروہ کی اجارہ داری نہیں ہو سکتا۔اس حیثیت سے صوفی اپنی کثرتی سوچ کے باعث کہیں زیادہ جمہوری ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اﷲ نے ہی رنگا رنگی پید ا کی ہے اور ہمیں اﷲ کی تخلیق کے طور پر رنگا رنگی کا احترام کرنا چاہیے۔وہ شخص جومسلکی یا نظریاتی سوچ کا حامل ہے وہ اختصاص اور امتیاز میں یقین رکھتا ہے اور تنوع کو حقیر گردانتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک رنگا رنگی کسی ایک گروہ کی سچائی کی اجارہ داری کے تصور کی نفی کرتا ہے۔اور اگر سچ کی سچائی پر خصوصی اجارہ داری نہیں ہے تو کسی بھی فرقہ کو سچ کا علمبردار یا سچائی کا حامل ہونے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔مزید بر آں صوفیت گہری روحانی فکر پر مبنی ہے اور ہر شخص کے رگ و پے میں رچی بسی اور پنہاں ہے۔روحانیت ایک بحر اور سمندر کی طرح ہے اور تنگ نظر اصول و قواعد ایسے چھوٹے دریاؤں کی مانند ہیں جو ساحلوں سے گھرے ہیں اور ان کا دھارا پہلے ہی سے متعین ہوتا ہے۔اس طرح روحانیت کہیں زیادہ جامع ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے کئی دریاؤں کا سنگم ہے جس میں تمام خصوصیات و خوبیاں بے خودی میں مدغم ہو جاتی ہیں۔اور صرف سمندر باقی رہ جاتا ہے۔ جب مولانا روم سے استفسار کیا گیا کہ ان کی پہچان کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ محبت ،کیونکہ محبت تمام شناختوں کا مجموعہ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت ہے کیا؟اکثر ہم غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جسے ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے پاس ہو۔ حقیقت میں اس قسم کی سوچ محبت کے قطعی منافی ہے۔ ہم جسے چاہتے ہیں ہمیں اس شخص کی عزت و وقار اور اخلاقی بلندی کا احترام کرنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس شخص کو مکمل آزادی دیں۔ جبکہ جہاں اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا جذبہ ہو تو وہاں ہم اس شخص کی آزادی سلب کرتے ہیں۔اس طرح اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ وہ ایک عورت سے محبت کرتا ہے تو وہ اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اسے مکمل آزادی نہ دے اور اس کی دیانتداری کا احترام نہ کرے۔اسی طرح صوفیائے کرام بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر انسانیت سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں محبت اس وقت تک پر خلوص ،صاف ستھری اور اصلی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں خلوص شامل نہ ہو۔اس محبت میں دور دور تک خود غرضی کا شائبہ تک نہ ہو۔ محبت کو خالص بنانے کے لیے تمام نفسانی خواہشات چھوڑنا پڑتی ہیں اسی لیے صوفیائے کرام ترک دنیا کے قائل ہیں۔ اور اس ترک کی اعلیٰ قسم کو ترک ترک بتایا گیا ہے یعنی وہ اپنی محبت کا کوئی صلہ طلب نہ کرے۔ وہ قطعی طور پر برضا و رغبت اور ہنسی خوشی ترک ہونا چاہیے۔

اس طرح ہر صوفی محض اﷲ کی خاطر، جس سے کہ وہ بے پناہ محبت کرتا/ کرتی ہے اپنا مادی آرام و آسائش اور خواہشات نفسانی کو ترک کر دیتا ہے۔سرمد شہید ، جن کا اورنگ زیب نے اس لیے سر قلم کر دیا تھاکہ انہوں نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ(نہیں ہے کوئی سوائے اﷲ کے) پڑھنے سے انکار کر دیا تھا اور صرف لا الہ ( نہیں ہے کوئی اﷲ) پڑھا تھا۔جب ان کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے ان پر تلوار تان کر یہ معلوم کیا گیا کہ الا اﷲ( سوائے اﷲ کے) کیوں نہیں کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں الا اﷲ کیوں کہوں جبکہ ابھی تک میرے دل میں خواہشات کے بہت سے خدا ہیں۔ اس طرح سرمد نے یہ ثابت کیا کہ جب میرے دل میں خواہشات کے اتنے خدا ہیں تو اﷲ سے میری محبت میں خلوص کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ایک سچے مومن یا ایک اﷲ سے محبت کرنے والے کواپنے دل میں بسے خواہشات کے خداؤں سے اپنے دل کو پاک کرکے اپنی تطہیر کرنا ہوگی۔اس طرح خود غرضی کی خواہشات سے آلودہ محبت کی سب سے نچلی سطح ہے اور محبت کی اعلیٰ قسم یہ ہے کہ تمام خواہشات دل سے نکال پھینکی گئی ہوں۔اس طرح صوفی حضرات جو تمام خواہشات کو مار دیتے ہیں محبت کی خالص قسم پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ صوفی اسلام کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں ذاتی خواہشات اور اغراض کی تکمیل اور دفع پریشانی و مصائب کے لیے ان صوفیوں سے فریاد کی جاتی ہے یا ا ن کے وسیلہ سے خدا سے مانگا جاتا ہے۔ لیکن میرا اس شفاعت اور مدد کے لیے التجا کرنے اور ان سے فریاد کرنے کے معاملہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں تو ہر رنگ و نسل اور ذات کے جذبے سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت سے بے غرض و بے لوث اور پورے خلوص ونیت کے ساتھ سچی محبت کرنے کے اصول پر کاربند ہونے کا درس دینے کی وجہ سے صوفیت کو پسند اور قبول کرتا ہوں۔
M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 155335 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More