خوشی سے زیادہ غم کی فکر کرو

چوبیس ستمبر شام پانچ بجے مجھے گھر سے یہ اطلاع ملی کہ کراچی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں اس وقت حسب معمول ہمارے یہاں بجلی غائب تھی جب بجلی آئی تو ٹی وی پر یہ خبر چل رہی تھی کہ بلوچستان کے علاقے آوارن میں زلزلے کے نتیجے میں کم و بیش پینتیس قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔آواران کا نام آتے ہی مجھے یاد آیا کہ یہ وہی شہر تھاکہ جب ہم تربت کیلئے کبھی سفرکیا کرتے تھے تویہاں رات میں کھانے کیلئے رکتے تھے نہایت ہی پسماندہ ترین علاقہ آواران جس کی کل آبادی قریباً دو لاکھ کے لگ بھگ ہے یہ بلوچستان کا وہ واحد ضلع ہے کہ جہاں دوسرے اضلاع کے مقابلے میں زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اس کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں اب تک بیشتر علاقے بجلی کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں اور بلوچستان میں طویل قحط سالی کے دوران سب سے زیادہ یہی ضلع متاثر ہوتا ہے ۔

اس پسماندہ علاقے میں زلزلہ یقیناً کسی قیامت سے کم نہیں کہ جہاں پہلے ہی لوگ کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہوں۔آخری اطلاعات آنے تک زلزلے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد بھی تین سو سے تجاوز کرچکی ہے ۔گوادر کے سمندر میں ایک بیس سے چالیس فٹ اونچے جزیرے کا نمودار ہونا ہمارے لئے اتنے معنی نہیں رکھتا کہ جتنی ہمارے لئے آوارن میں آنے والے زلزلے سے ہونے والا نقصان ہے جزیرہ تو سمندر میں نمودار ہوا اور شاید یہ کل پھر سمندر برد ہوجائے ۔لیکن جو تباہی سینکڑوں کلومیٹر آباد زمین پر آئی وہ اصل توجہ کی منتظر ہے کہ کیسے زلزلہ متاثرین راتیں گزار رہے ہوں گے وہ لوگ جو کل تک اپنے گھروں میں سوتے تھے کیا بیت رہی ہوگی ان دلوں پر جن کے پیارے زلزلے کی نذر ہوئے ۔۔کیا ماحول ہوگا وہاں کیسا غم کا سماں ہوگا۔۔۔وہ بچے جو کبھی اپنی گلیوں میں کھیلا کرتےتھے آج اپنی گلیوں سے ملبے اٹھارہے ہیں۔ایک طرف غم اور آنسوئوں کا یہ سمندر تودوسری طرف وہ لوگ جو اپنے فائدے کی فکر میں لگ گئے ہونگے اور اب تو ان لوگوں کی دکانیں بھی سج گئی ہونگی جو محض دکھاوے کیلئے کھولی جاتی ہیں ۔۔۔
Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 11499 views i am journalist.. View More