پاکستان میں” دہشت گردی اُم المسائل کا استِعارہ“بن گئی ہے

اُوس چاٹِ پیاس تو نہیں بجھاکرتی،مگرتسکین ضرورمل جاتی ہے... !

اَب کوئی میری یہ مانے یانہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ” دہشت گردی اُم المسائل کا استِعارہ “ بن گئی اور اَب جِسے جڑسے اُکھاڑے بغیرہماری ترقی اور خوشحالی کسی بھی صُورت ممکن نہیں اوراِس کے ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ کسی پیاسے کی اُوس چاٹِ پیاس تونہیں بجھاکرتی ہے مگر اِسے تسکین توضرورمل جاتی ہے،آج ہماری موجودہ حکومت نے مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جتنااور جوکچھ بھی کیاہے،آج اِس کی مثال اُس پیاسے کی طرح ہے ، جو کئی دنوں سے پیاساہے،اور یہ اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے، مگراِسے اِس کی پیاس بجھانے کے لئے پانی تو نہیں ملاہے،البتہ ...اِس نے اُوس چاٹ کرتسکین ضرورحاصل کرلی۔

اور ایساہی کچھ مُلک میں امن و سکون کی پیاسی ہماری حکومت کے ساتھ بھی ہواہے جب گزشتہ دنوں مُلک میں ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس کی شکل میں اِسے اُو س ضرور مل گئی ہے، جِسے چاٹ کر ا ِس نے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش بھی ضرورکی ہے، اوراِس نے اِسی کے سہارے مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے اورمُلک میں دائمی امن و سکون اور بھائی چارگی کے قیام کے لئے اپنی جدوجہد کی بھی شروعات کردی اور اِس کانفرنس کے مشترکہ نکات کی روشنی میں مُلک میں امن و چین کی تلاش میں اپنے قدم آگے بڑھانے کی پیشقدمی بھی کرنی چاہی اور اپنی امن کی پیاس بجھانے کی بھی کوشش کی ، جِسے مُلکی اور عالمی سطح پربھی بے حد سراہایاگیا۔

مگر شایدمُلک میں امن کے دشمنوں اور معصوم انسانوں کے قاتلوں اور اِن کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والوں کو حکومت کی یہ امن کی پیشکش پسندنہیںآئی اور اُنہوں نے حکومت کی جانب سے بھائی چارگی اور اُخوت ومساوات کی بنیادوں پر کئے جانے والے ہر مثبت اقدام کو اپنے پیروں تلے کچل کررکھ دیااور اپنی اُسی مرغی کی ایک ٹانگ والی ضدپر آڑکراتناکچھ کردیاکہ آج میرے مُلک کا ہر فردیہ سوچنے اور کہنے پر مجبورہوگیاہے کہ”بھلایہ کون سے لوگ ہیں اور یہ کس مٹی اور کس ہڈی کے بنے ہوئے ہیں ...؟کہ جوکسی بھی حوالے سے کسی کی بات سُننے اور اپنی ضد سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کوتیار ہی نہیں ہیںاور یہ غلط رہ کربھی خود کو درست اور صحیح العقل گردانتے ہیں، اورحکومت کی ہر اچھی اور مثبت پیشکش کو بھی ٹھکراکربس اپنی ہی ضدپر آڑے ہوئے ہیں اور قتل وغارت گری کا بازارگرم رکھے ہوئے ہیں“اَب ایسے میں آج میرے مُلک کے ہر فردکو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ حکومت کی طالبان سے مذاکرا ت کے ذریعے مُلک میں امن و سکون کی پیشکش کو تحریک طالبان کس کے اشارے پر مستردکررہے ہیںاور کیوں یہ کہہ رہے ہیں ...؟کہ”جنگ حکومت نے شروع کی وہی اِسے ختم کرے گی،ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے، فوج پرحملے جاری رکھیں گے،“تحریک طالبان کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی اورماضی کی اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کوبھلاتے ہوئے،اِس سرزمینِ پاکستان کی بقاوسلامتی کے خاطر ایک دوسرے کو معاف کرناہوگا،کیوں کہ آج دشمن ہمیں آپس میں لڑواکرہماراشیرازہ بکھیردیناچاہتاہے، اور ہم کو کمزروکرکے ہمیں ایک ایک کرکے نیست ونابود کردیناچاہتاہے، آج ہمیں اپنی غلطیوں کو بھلاکرایک ہوناہوگا، اور امن و سکون کی متلاشی اپنی دھرتی کو گلُ وگلزاربناناہوگا،بس ہمیں آپس میں ایک دوسرے کو معاف کرناہوگا۔اور دشمن کی ہر سازش کو ناکام بناناہوگا،اَب جس کے لئے گیندتحریک طالبان کے کوٹ میں ہے۔

اَب ایسے میں آج میرے مُلک پاکستان کے زمینِ حقائق کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ میرامُلک اپنوں کی نادانی اور پرائے کی چالاکی سے دہشت گردی کی لگائی گئی آگ میںجس طرح سے جھلس رہاہے، اِس تکلیف نے میرے مُلک کے ہرفردکو سیاست کے رموزسکھادیئے ہیں گو کہ آج جن حالات سے میرامُلک گزررہاہے، اِس نے ہرشخص کو سیاستدان بنادیاہے، کیوں کہ میراتعلق بھی اِن لوگوں میں سے ہے، جو موجودہ حالات سے گزررہے ہیں ، اِس لئے میں بھی خود کو سیاست کا ادنیٰ ساہی صحیح مگر آپ ہی کی طرح کا ایک اناڑی سا کھلاڑی ضرور سمجھنے لگاہوں، اگرچہ سیاست کی باتیںکرنااور بات ہے اور سیاست پر لکھناانتہائی ذمہ داری کا کام ہے، مگر میرے لئے سیاست پر باتیں کرناآسان کم مگر اِس پرلکھناقدرے آسان ہوگیاہے، تب ہی میر ے کالم کے اکثر عنوانات حالاتِ حاضر کے تناظر میں ہی ہوتے ہیں، اور میرے کالم کا عنوان ہی ” تمثیلِ سیاست “ ہے ۔

جبکہ موجودہ حالات میں جب کبھی میں مایوس ہوتاہوں تو مجھے اکثراگلے ہی لمحے یہ احساس زندہ رہنے کی تمنابڑھادیتاہے کہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان میں ہوں،وہ اِس لئے کہ مجھ میں اِنسانوں سے ہمدردی اور محبت کا جذبہ زندہ ہے مگر میرے اِس ہی معاشرے میں بہت سے ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو اِنسانوںکے سب سے بڑے دشمن کے روپ میں سرگرمِ عمل ہیں، کیوںکہ آج اِن کے نزدیک اِن کے عزائم کی تکمیل اور ضدپر آڑے رہنے کی وجہ سے اِنسان کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے بھی کم ہوکررہ گئی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اِنسان کو مارنے اور اِس کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کامشغلہ ڈھونڈلیاہے،اور آج اِن کا یہی مشغلہ میرے اور آپ کے معاشرے میں فسادالفلارض کی وجہ بن رہاہے، ایسے لو گ جو اِنسانوں کازمینِ خداپر ناحق خون بہاکر خود کو شیطان کا چیلاثابت کررہے ہیں اور اِنسانوں کاخون پی کراپنی احساسِ محرومی کی پیاس بجھارہے ہیں ،اور بے مقصد کی ضدکی تسکین چاہ رہے ہیں... کیاایسے لوگوں کے لئے زمینِ خداکو تنگ کردینے والاکوئی نہیں ہے ...؟نہیں ایسی بات نہیں ہے ، آج بھی میرے معاشرے میںکڑوروں ایسے اچھے اِنسان موجودہ ہیں جو شیطان کے چیلوں اور مٹھی بھر قاتلوں کوعبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لئے بے چین ہیں ، مگراَب وقت آگیاہے کہ اَب اچھے اِنسانوں کو یک مٹھ ہوکر باہر نکلنا ہوگااورایسے لوگوں سے زمینِ خداکو پاک کرکے اِن سے اپنا زندہ رہنے کا حق چھین لیناہوگا،جواپنی ضدپرآڑکرسرزمینِ پاکستان میں فسادبرپارکررہے ہیں،اَب دیکھئے وہ وقت کب آتاہے جب ہم میں سے اچھے لوگوں کا گروہ نکلے گا، اور زمینِ خداپر شیطان کے چیلوں اور معصوم اِنسانوں کے مقدس خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو واصلِ جہنم کرکے اپنی سرزمینِ پاک کو اِن فسادالفلارض سے پاک کردے گا۔اَب ایسے میں ہمیں اپنے معاشرے کے اُن اچھے لوگوں کی ہر حال میں حوصلہ افزائی کرنی ہوگی جوہم سب کی بھلائی کے لئے باہر نکل کر اچھائی اور اُمیدکی کرن کو ڈھونڈنے کے لئے بیقرار ہیں۔

بہرحال..!آج میرامُلک پاکستان جن سنگین مسائل سے دوچارہے، اِن میں دہشت گردی سرِ فہرست ہے، آج جِسے میں اُم المسائل کہوں تو کوئی بُرانہیں ہوگا، یعنی ہمارے سارے مسائل کی ماں دہشت گردی ہے،آج جس کی وجہ سے ہم ہر طرح کے مسائل سے دوچار ہیں،موجودہ حکومت کو اِس بات کا شدت سے احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس نے مُلک سے دہشت گردی جیسی ڈائن جس کے لئے میں نے مُلک میں پہلی بار” اُم المسائل “کا استِعارہ استعمال کیا ہے اِس سے جان چھڑانے کے لئے یہ حقیقی معنوں میں سرگرمِ عمل ہے۔

اگرچہ اَب تک حکومت کی جانب سے مُلک سے ہرطرح کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کی گئیں کوششوں پر قوم کو اعتماد کا اظہارکرناچاہئے اور آج اُمیدرکھناچاہئے کہ موجودہ حکومت مُلک سے ہرطرح کی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جتنے بھی نرم و سخت اقدامات کررہی ہے اِس کے بہترنتائج ضرورنکلیں گے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 894073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.