پاکستان میں سعودی قوانین؟

غریب ہونا ایک ایسی چیز ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا ۔یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس کے خاتمے کے اسباب بھی اﷲ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے۔غریب لوگ ہم جیسے لوگوں سے کہیں زیادہ محنتی اور عقل مند ہوتے ہیں لیکن جیب یاگھر میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف مجبور اور بے بس ہوتے ہیں بلکہ حکام بالا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار بھی ہوتے ہیں۔غربت کا مکمل اور درست علاج اﷲ تعالیٰ ہی کے پاس ہے لیکن صاحب استطاعت انسان اگر چاہے تو غریب بھی کافی با اعتماد اور خوش حال زندگی گزار سکتا ہے۔اس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک راستہ زکوٰۃ کا بتایا ہے اور دوسرا بہترین طریقہ ہے کہ آپ کسی کی خفیہ مدد کر دیں۔اتنی تمہید کا اصل مقصد محض یہی بتانا تھا کہ ہمارے ملک میں غریب لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ان سے کہیں زیادہ تعداد ملک اور عوام کو لوٹنے والے افراد کی ہے۔

ہمارے ملک میں ماسوائے چند آمروں کے بعد تقریباً ہر پانچ سال بعد نئی جمہوری حکومتیں قیام میں آئیں لیکن عوام کی قسمت پر لگے تالوں کی کنجیاں نہیں کھلیں۔کبھی عوام آٹے ،چینی ،گھی اور آئل کے بوجھ تلے ملیا میٹ ہوئی تو کبھی ڈالرکے تیزی سے بڑھتے ہوئے قد نے عوام کو اپنے رعب میں دبائے رکھا۔کبھی لوڈشیڈنگ نے عوام کے کاروبار زندگی متاثر کئے تو کبھی گیس ،پٹرول کی کمی اور مہنگائی نے چولہے سرد کئے۔عوام نے تقریباً ہردور حکومت میں بارہا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا لیکن عوام کے ساتھ ساتھ ملکی خزانہ بھی غیروں کے قرضے میں پھنستا ہی چلا گیا۔ملکی قرضہ جتنا بڑھا مہنگائی میں اضافے کی شرح اتنی ہی تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔پاکستان جہاں مسائل کے انبار پچھے ہوئے ہیں وہاں دہشت گرد بھی ایک بہت بڑا مسلہ ہیں۔ہماری حکومت نے ملی یک جہتی سے جہاں دہشت گردوں سے مذاکرات کا سوچا تھا وہیں پر ان ظالموں نے ہمارے حساس ادارے کے دو آفیسرز اور ایک جوان کو بارودی سرنگ سے شہید کرکے یکسر حکومت سمیت عوام کو شش و پنچ میں ڈال دیا ہے۔اب ہماری حکومت اس بات پر ضرور توجہ دے گی کہ طالبان کے تمام تر مطالبات ہر گز تسلیم نہ کئے جائیں کیونکہ طالبان بھی تو ہمیں نا قابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ابھی ہمارے شہداء کے یہ زخم تازے تھے کہ لاہور میں ایک معصوم اور ننھی کلی کو کسی غلیظ ،جانور صفت انسان نے بری طرح مسل دیا۔سانحہ لاہور ہماری پوری قوم کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے۔ہم لوگ کتنے ظالم اور نڈر ہوگئے ہیں کہ جس کی یہ ایک ادنیٰ مثال ہے کہ کسی کی معصوم بچی کو نہ صرف اس کے گھر سے اٹھایا گیا بلکہ اس کو دن دیہاڑے اپنی ہوس کا نشانہ بھی بنایا گیا۔کسی کو کان کان خبر نہ ہوئی اور سی سی ٹی فوٹیج کے باوجود ہسپتال عملہ بھی ذمہ دار شخص تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔حالانکہ ہر اچھے ہسپتال میں مریضوں کو لانے لیجانے والوں راستوں پر لگے کیمروں کی نہ صرف نگرانی ہوتی ہے بلکہ مشکوک افراد کی پکڑ دھکڑ بھی ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں مریض کو ایڈمٹ کرانے والے تک کا ڈیٹا محفوظ کیا جا تا ہے۔

اس واقعہ پر جہاں پورے ملک میں ہائی لیول پر احتجاج ریکارڈ کرایا جا رہا ہے وہیں پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے تازہ ترین بیان میں یہی کہا ہے کہ ’’ 5سالہ بچی سے زیادتی کرنے والے درندے نہ صرف انسانیت بلکہ پوری قوم کے مجرم ہیں۔ دلخراش واقعے میں ملوث ملزموں کی جلد ازجلد گرفتاری کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اور درندہ صفت ملزموں کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گاتاکہ مستقبل میں ایسے انسانیت سوز واقعات کا سدباب کیاجاسکے۔انسانیت سوز واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتار ی میں کوئی غفلت پائی گئی تو متعلقہ پولیس افسروں کو ہر گزمعاف نہیں کروں گا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اس واقعے کی آڑ میں کسی بے گناہ کو ہر گز تنگ نہ کیا جائے بلکہ ا صل ملزموں کو پکڑا جائے ،انہوں نے کہاکہ اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے ،کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا افسوسناک واقعہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘

اطلاعات کے مطابق پولیس کی تفتیشی ٹیمیں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزموں کی شناخت میں مصروف ہیں اور اس ضمن میں بعض مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیاہے - علاوہ ازیں ہسپتال میں کمسن بچی کو علاج معالجے کی ہر ممکن سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

قارئین ذرا سا محسوس کریں کہ یہ جس کی لخت جگر ہے اس کے کیا حالات ہونگے ۔ہمارے نونہال اور بچے کیا اتنے غیر محفوظ ہو گئے ہیں کہ ان کو کوئی بھی ہماری نظروں کے سامنے غائب کرے دے اور پھر ان کی زندگیوں سے کھیلتا پھرے۔احقر نے بارہا کالم لکھے کہ ہماری ہر حکومت کو ملکی سطح پر ہر گھر کے ہر فرد کا درست اور اپ ڈیٹڈ ڈیٹا لیکر مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جس طرح حساس اداروں کے ملازمین کی مقامی پولیس اور سیکورٹی اداروں سے سیکورٹی چیک کرائی جاتی ہے بالکل اسی طرز پراگر پورے ملک میں موجود ہر فرد کی سیکورٹی چیک کی جائے تو یقینا مجرم اور مشکوک افراد کو حوالہ جات پہنچانے میں بہت مدد ملے۔کرائے پر رہنے والے اور باالخصوص بیٹھک میں رہنے والے کنوارے افراد کا ڈیٹا بھی لینا نہایت ضروری ہے اور مالک مکان یا مالک بیٹھک کا کرائے دار کے شناختی کارڈ سمیت ضروری دستاویزات کے معاہدے کو لازمی قرار دینا بھی ضروری ہے۔ایک نظر کے لئے اسی معصوم کا واقعہ ذہن میں لائیں تو آپ سب کی آنکھیں ضرور کھلیں گے کہ اس واقعہ میں ملوث فرد ضرور اسی قسم کے ماحول میں رہتا ہوگا جس کو معصوم بچی کے ساتھ ’’کھلواڑ‘‘ کو بھرپور موقع میسر آیا۔

ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں پر اگر بلا تفریق سعودی عرب کی طرح کے سخت اسلامی قوانین نافذ کر دیئے جائیں تو یقین کریں ہم سارے پاکستانی نہ صرف راہ راست پر آ جائیں بلکہ ہمارے حکمران بھی ایماندارہوں اور ایمانداری کو پرموٹ کریں۔یہاں جب چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے،جب دست درازوں کو سر عام سنگسار کیا جائے گا اور قاتلوں،دہشت گردوں کو جب سر عام پھانسی ہوگی تو پھر دیکھنا کہ پاکستان کتنا کامیاب ملک ہوگا۔پھر ہمارے نونہال ملکی ترقی میں کتنے معاون ہونگے ۔ذرا تصور کریں یہاں کی مائیں ،بیٹیاں اور بہنیں کتنی امن پسند زندگی بسر کر سکیں گے۔یہاں جھوٹے ،چور،مکار،جعلساز اور زناخور منہ چھپاتے پھریں گے ۔جب اغواء برائے تاوان والوں کو سر عام کوڑے مارے جائیں گے توپھر دیکھنا کہ جرائم کی شرح کتنی تیزی سے کم ہوتی ہے۔جب بے ایمان اور ملاوٹی دکانداروں،تاجروں کی سرکوبی ہوگی تو پھر دیکھنا کہ مہنگائی کا جن کہاں غائب ہوتا ہے۔میاں صاحب بسم اﷲ کریں ساری قوم آپ کے ساتھ ہے۔

Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 60130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.