دینی و دنیاوی معاملات

انسان اللہ کی وہ بہترین مخلوق ہے جس کے لئے دنیا بنائی گئی ہے دنیا میں انسان کو محض گھومنے پھرنے اور سیر و سیاحت یا عیش و آرام کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا بلکہ انسان کی تخلیق کا خاص مقصد ہے اور اس مقصد کو پانا ہی انسانیت کی معراج ہے دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا بہت سے معاملات سے واسطہ رہتا ہے اور انسان کے لئے ان معاملات کو بخوبی نبھانا بھی ضروری ہے اگر انسان اپنے ان معاملات کو بخوبی نہیں نبھاتا تو یہ انسان کا اپنے انسانیت کے درجے سے کم تر درجہ پانے والی بات ہے

انسانی زندگی کے معاملات دینی اور دنیاوی معاملات پر مشتمل ہیں یعنی انسانی زندگی میں دینی و دنیاوی دو طرح کے معاملات کا عمل دخل ہے اور ان معاملات کو خوبی سے نبھانا ہی انسان کی ذمّہ داری اور ان ذمّہ داریوں سے بہ احسن خوبی عہدہ براہ ہونا ہی انسانیت کا شرف بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دینی معاملات کیا ہیں دنیاوی معاملات کیا ہیں اور ان دونوں معاملات میں انسان کیونکر توازن قائم رکھ سکتا ہے یا دنیا میں رہتے ہوئے ہر دو معاملات سے کس طرح بخوبی عہدہ براہ ہو سکتا ہے

دین اور دنیا دو الگ الگ موضوعات نہیں ہیں بلکہ دین اور دنیا کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا اور ہر دو معاملات میں توازن قائم رکھنا ہی دنیا داری ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دینی معاملات محض عبادات اور ذکر و فکر کرنا یا روحانی تربیت کے لئے مشقت کرنا ہی دینداری جبکہ اپنے اور اپنے افراد خانہ کے آرام و آسائش اور دیگر ضروریات کے پورا کرنے کے لئے یا پھر ظاہری نمود و نمائش کا سامان آرائش جمع کرنے کے لئے جسمانی مشقت کرنا ہی دنیا داری ہے یہ بلکل غلط تصّور ہے

جہاں تک دنیا داری کا تعلق ہے تو دنیا داری اچھی چیز ہے جب انسان دنیا میں آیا ہے تو دنیاوی معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانا اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ہر اس انسان کی ذمّہ داری ہے جو دنیا میں آیا ہے لیکن دنیا دار ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے محض دنیا داری میں ہی لگے رہیں اور دین و مذہب یا روحانی تربیت کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے

اسی طرح دینی معاملات میں عبادات اور اپنے خالق کا ذکر اور خالق کائنات کی مخلوق کی فکر دینی معماملات کے زمرے میں آتے ہیں جس طرح دینی معمالات کی ادائیگی انسان کے لئے ازحد ضروری ہے اسی طرح عبادات اور ذکر و فکر بھی انسان کے لئے اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں جس قدر دنیاوی معاملات
دین کے لئے دنیا اور دنیا کے لئے دین کو چھوڑ دینا سراسر غلط رویہ ہے

دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کے انسان نے دنیا داری کے جھمیلوں مین خود کو اسقدر الجھا لیا ہے کہ اس کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ دن رات کے پہروں میں سے کچھ وقت اس ذات کریمی کے ذکر و عبادت کے لئے ہی نکال لے جس نے اسے دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے کچھ پل اپنے خالق کے حضور سربسجود ہو کر چند لمحے اپنے آپ سے ہی ملاقات کر لے یا اپنی روحانی تربییت کے لئے ہی کچھ وقت نکال سکے

جو لوگ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے دنیا داری کو نبھاتے ہیں حقیقت میں وہی دیندار ہوتے ہیں جبکہ محض دینداری کا لبادہ اوڑھ کر اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے بےپرواہ و بے نیاز افراد نہ تو دیندار ہوتے ہیں اور نہ ہی دنیا دار اسی بات سے اندازہ لگا لیں کے ترک دنیا داری دینداری نہیں ہے

دنیا داری کو اگر دینی تعلیمات کے مطابق نبھایا جائے تو اس سے زیادہ اور کیا اچھّی بات ہو سکتی ہے کہ رب بھی راضی اور رب کے بندے بھی راضی اللہ تعالی نے انسان کو دین کے مطابق دنیا داری نبھانے کا حکم دیا ہے اللہ کی کتاب قرآن مجید میں درج دنیاداری کے قوانین کے مطابق دنیا اور معاملات دنیا کو نبھانا ہی دین اور دنیا میں توازن قائم رکھنا ہے

کلام پاک میں انسان کے لئے عبادات اور روحانی تربیت پر مبنی آیات کا تناسب اخلاقی و معاشرتی معاملات کے مقابلے میں بہت کم ہے اخلاقیات کا بلواسطہ تعلق بیک وقت انسان کی مادی زندگی سے بھی ہے اور روحانی سے بھی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان عبادات اور ذکر و فکر کی روش چھوڑ کر مکمل طور پر محض دنیاوی معاملات کی گتھیاں سلجھانے میں ہی لگا رہے بلکہ عبادات اور ذکر و فکر بھی انسان کے لئے اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں جس قدر دیگر دنیاوی معاملات حاصل کلام یہ ہے کہ قران کریم کی تعلیمات کی روشنی میں مذہب اور معاملات معاشرت کے جو اصول و قوانین بیان کئے گئے ہیں ان کے مطابق دین و دنیا کے معاملات کو نبھانا ہر انسان کے لئے ضروری بھی ہے اور اسی میں انسانیت کی بھلائی بھی ہے

لہٰذا دینی و دنیاوی معاملات میں توازن قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ دنیا کے آرام و آسائش چھوڑ کر جاتے وقت آپ یہاں سے خالی ہاتھ نہ جائیں بلکہ ابدی آرام و آسائش کا سامان بھی ساتھ ہی لیکر جائیں کہ دنیاوی مال و منال تو دنیا کے چھوٹتے ہی چھوٹ جائے گا اور آخرکار دنیا کو چھوڑ دینا ہی ہر انسان کا اٹل مقدر ہے جبکہ دین کی رو سے روحانی تربیت جو انسان کو دینی و دنیاوی ہر دو معاملات میں توازن رکھنا سکھاتی ہے وہی آخرت کا اثاثہ ہے اس اثاثے کو کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے نہ دیں کہ یہی آخرت کے آرام و آسائش کا ذریعہ ہے

اللہ تعٰالٰی ہم سب کو اپنے دینی و دنیاوی معاملات انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 458333 views Pakistani Muslim
.. View More