وہ جو منزلوں کو رلا گیا

وہ جو منزلوں کو رُلا گیا!!!
محمد عمر فاروق ڈیروی۔ شادن لُنڈ
بیسوی صدی عیسوی میں کہ جب امت مسلمہ کی تاریخ رک سی گئی تھی۔ امت امت کی صدائیں ،لسانیت و قومیت کی چٹانوں تلے دب گئی تھیں،خلافت کی جگہ جمہوریت کا فراڈلے چکا تھا، باطل قوتوں نے اسلام کے وجود کو کھرچنا شروع کر دیا تھا۔ لشکر کفار وجودِ مسلم کو بے آسرا جان کر نوچ رہا تھا۔ مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں کی آہوں پر سینہ سپر ہونے کی بجائے گانوں پہ سر دھن رہے تھے۔ مظلوم کی چیخوں کو اس کی قسمت کا لکھا قرار دے کر اس کے حال پہ چھوڑ دیا گیاتھا۔ تب۱۹۷۹ میں، ایک شخص اٹھا۔ شہزادوں کی سی زندگی کو لات ماری۔پر تعیش محلات کو چھوڑا اور سنگلاخ پہاڑوں میں آبسا۔ عشرت میں جی رہا تھاتواس کے ذاتی ہیلی کاپٹر تھے۔ فجر مدینہ میں، ظہر مکہ میں تو عصر بیت المقدس میں پڑھاکرتا تھا۔امت کے لیے جاگا تو سنگلاخ راستوں کا مسافر ٹھہرا جس میں قدم قدم پر مشکلات کسی عفریت کا روپ دھارے اس کے مقابل ٹھہریں تھیں۔

افغانستان میں جہاد کیا تو اپنی صلاحیتیں صرف مجاہدین کی کمان تک محدود نہیں کیں،لڑا اور اگلے مورچوں میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سعودیہ میں حرم پاک کی توسیع ہو رہی تھی۔ صف اوّل کے مجاہد کی صلاحیتیں میدانِ جہاد میں تو تھیں ہی، وہ باکمال سول انجنئیر بھی تھا۔ وہ کچھ دن گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں جنت ڈھونڈتاتوکچھ دن اللہ کے گھر کی توسیع میں صرف کرتا۔ یہاں تک کہ دنیا کی سپر پاور بے بسی کے عالم میں افغانستان سے نکل گئی۔ بھلا دنیا کی سپر پاور، اللہ کے شیروں پہ حاوی ہو جاتی؟۔ وہ مسلمانوں کے دلون میں بس کر واپس سعودیہ آگیا تھا۔

۱۹۹۰ شروع ہوا تو امریکی فوجیں محافظ کا لبادہ اوڑھے سرزمین ِ عرب جا پہنچیں۔ محبتِ رسول ﷺ میں سرشار شخص ،محمد ﷺ کے شہر میں غلیظ لوگوں کو کیسے برداشت کر پاتا؟۔ وہ حکمرانوں سے ملا۔انھیں بتایا کہ بھیڑیا شیر کی کھال میں بھی بھیڑیاہی رہتا ہے۔ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے دشمنوں کو محمد ﷺکے شہر میں نہیں برداشت کر سکتا۔ دنیا سے ڈرنے والے حکمرانوں نے امریکی فوجوں کی بجائے اسے ملک بدر کر دیا۔ ۱۹۹۲ میں وہ مکہ مدینہ کے دفاع کے جرم میں مکہ مدینہ سے ہی دور کیا جا رہا تھا۔

۱۹۹۰ کا ہیرو، ۱۹۹۲ میں جلا وطن ہو کر سوڈان پہنچا۔ وہ فارغ رہنے کو مسلمانون کی توہین سمجھتا تھا۔ اسی لئے سوڈان میں اس نے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام کیا۔ اس نے اربوں روپے ا س پہ لگائے ۔کچھ ہی عرصے میں سوڈان میں زرعی انقلاب آگیا۔ بن لادن کے کھیت سونا اگلنے لگے۔ انھی دنوں اس نے سربیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے جدوجہد کی۔ اب وہ عالم ِ کفر کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ وہ جان گئے تھے کہ یہ وہی مٹی ہے جس سے کبھی صلاح الدین ، نورالدین، ٹیپو سلطان، سید احمد شہید کی تخلیق ہوئی تھی۔ ۱۹۹۵ میں عالمی دباو پر سوڈان نے مزید میزبانی سے معذرت کر لی۔ عالمی دنیا کی مخالفت کے لئے صر ف اسلام سے محبت کا جرم کافی تھا۔ اب آزاد انسانوں کے لئے غلام دنیا تنگ ہو چکی تھی۔ وہ آزاد جینے کی خواہش رکھنے والوں کی تلاش میں نکلا اور افغانستان چلا آیا۔

طالبان کی حکومت آئی تو اسلامی نظام دنیا کے اس حصہ پر نافذہوگیا۔ امن و امان اور عدل و انصاف کی بے نظیر مثالیں قائم ہوئیں۔ افغانستان کی تعمیر ِ نو ہونے لگی ۔ ایسا لگتا تھاکہ افغانستان کا انفرا سٹرکچر کچھ ہی دنوں میں خود بخود کھڑا ہو جائے گا۔ایک عظیم تعطل کے بعد ایک اسلامی گھر بن رہا تھا۔ مسلمانوں کے زخم مندمل ہونے لگے تھے۔ ایک مرتبہ پھر اسلام کو پاسبان مل رہے تھے۔ بھلا کفار یہ کب برداشت کرتے۔۔ ۱۹۹۸ میں نیروبی اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے ۔ اس شخص نے ان سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ مگر طاقت کے رکھوالے بھلا دلیل سے کب مانتے ہیں۔ انھوں نے بغیر کسی ثبوت کے افغا نستان میں اس پر کروز میزائل برسائے ۔ جس میں وہ بال بال بچا۔ سوڈان میں اس کی دوا ساز فیکٹریوں پر میزائل برسائے گئے کہ وہاں خطرناک ترین ہتھیار تیار ہو رہے ہیں۔ پھر ۲۰۰۱ میں نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا تو بغیر کسی ثبوت کے وہی مورد ِ الزام ٹھرایاگیا۔

کچھ ہی دنوں بعد بد مست ہاتھیوں کی ایک فوج افغانستان کی سرزمین پہ چڑھ دوڑی۔ بظاہر ہدف وہی ،مسلمانوں کا درد رکھنے والا، مسلمانوں کو جگانے والا شیرببر۔ اللہ کے دشمنوں نے اس کے سر کی قیمت ۲۵ ملین ڈالر رزکھی۔ انھیں کیا پتہ کہ خدا جنت کے بدلے میں اسےپہلے ہی خرید چکا ہے۔مصلحت پسندوں نے اسے سرنڈر کرنے کو کہا ۔ مگرجہاد کے نام سے کانپنے والے کاہلوں کو کیامعلوم کہ جس نے ٹینکوں کی گھن گھرج اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں جنت کی حوروں کے نغمے سنے ہوں، دنیا کی عیش و عشرت ان کے سامنے بے معنی ہو جایا کرتی ہے۔ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں کے خلاف لڑتا رہا۔ موت کے تعاقب میں وہ کئی بار اول محاذ پربھی لڑامگر موت فرار ہو جاتی۔ وہ ببر شیر کی طرح دشمنوں پر ٹوٹ پڑتا۔ آسمانی بجلی بن کران کے کیمپ خاکستر کر دیتا تھا۔ ’سلاڈین ‘ (صلاح الدین ) کہہ کر اپنے بچوں کو ڈرانے والی یورپین مائیں اب اس کا نام لے کر ڈرا رہی تھیں۔

پھرایک دن آیا جس کا اسے بہت انتظار تھا۔ جس دن آسمان اس کے لئے سج رہاتھا۔ فرشتے اس کے استقبال کے لئے قطاریں بنا رہے تھے۔ حوریں نغمہ گاگا کر اس کااستقبال کر رہیں تھیں۔ زمین اس کے فراق میں مری جارہی تھی کہ آخر ہر جانے والا اسی کے پاس آتا ہےاور ادھر! امریکی ہیلی کاپٹر نمودار ہورہے تھے۔وہ تیار ہوگیا۔ مقابلہ کرتا رہا ۔ اس نے دشمن کے تیس سے زائد جوانوں کو مارا اور ایک ہیلی کاپٹر گرایا۔ اور بالآخر اسے چیونٹی کے کاٹنے جتنی تکلیف ہوئی اور وہ اس خدا کے پاس پہنچ گیاجس کے لئے اس نے سارے دکھ جھیلے تھے۔ خدا نے اس کی خودداری کی لاج رکھی تھی کہ اس نے مر کر بھی زمین کا احسان نہیں لیاتھا۔ اس کی لاش کو سمندر برد کر دیا گیا تھا۔ دنیا کے کیلنڈر میں آج مئی کی ۲ تاریخ تھی۔ بالکل وہی تاریخ ، جب اس کا ایک استاد، ٹیپو سلطان اپنے رب کے پاس پہنچا تھا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے! آمین بھرے گلشن میں جن پہ انگلیاں اٹھیں وہی غنچے ؎
فرشتوں کی کتابوں میں چمن کی آبرو ٹھہرے
 

محمد عمر فاروق ڈیروی
About the Author: محمد عمر فاروق ڈیروی Read More Articles by محمد عمر فاروق ڈیروی: 3 Articles with 2100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.