استاتذہ کے تقدس کی داستان گورنرہاؤس پہنچ گئی

سوچ رہاتھا کہ کالم کاکیااور کیسے عنوان باندھوں اسی کشمکش میں پڑے کئی دن بیت چکے ہیں بالآخر ہمت اس لئے کررہا ہوں ایک استاد ماہر تعلیم کی عزت وناموس کامسئلہ ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی شعبہ اردو کے صدرڈاکٹر شفیق عجمی نے جون2013ء میں شعبہ کی جونیئر لیکچرار عائشہ سلیم کو اپنے دفتر میں ہنگامہ آرائی اور بدزبانی کرنے پر مذکورہ لیکچرار کے خلاف وائس چانسلر صاحب کو مس کنڈکٹ کیس بھیجا مگر اس پرکوئی ایکشن لینے کی بجائے صدرشعبہ ڈاکٹر شفیق عجمی کے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کردی کیونکہ موصوفہ نے ایک درخواست دے دی کہ ڈاکٹر شفیق عجمی نے مارچ 2011ء کو میراہاتھ پکڑا تھااس کے علاوہ کوئی وجہ تحریر نہ فرمائی گئی اب سمجھ سے بالاتر بات یہ ہے کہ اگر اس جونیئر لیکچرار کے ساتھ کوئی نازیباحرکت ہوئی تھی تو اس کے خلاف تقربناَََ 2سال پہلے یعنی واقعہ رونما ہونے کے ساتھ ہی کسی کارووائی کے لئے درخواست یا ایف آئی آر درج کیوں نہ کروائی گئی اس کی ایک وجہ تویہ سمجھ آتی ہے کہ کوئی شریف عورت کیونکر اپنی عزت کو خود ہی اچھال دیتی مگر 2سال کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ بھی جب ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا باقاعد کیس وائس چانسلر صاحب کو بھیجااس کے بعدکیامجبوری پیش آگئی کی مندمل زخم کو پھر ہراکردیا گیا اور اس صنف نازک کی ہمدردی میں وائس چانسلر صاحب کو کیوں اتنی تیزی دکھانا پڑی اداروں کے سربراہ تو اپنے ہاں کا م کرنے والے وابستہ افراد کے ماں باپ بھی تو ہوتے ہیں انہوں نے کیوں نہ سوچا کی دونوں ٹیچرز کو بلا کر معاملہ رفع دفع کر ادیتے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ادارے اور ایک استاد کے وقار کا مسئلہ ہے دونوں جانب سے ایسی حرکتیں زیورتعلیم سے آراستہ کرنے والے استاتذہ کو زیب نہیں دیتی مگر صاف نظرآرہاہے کہ وی سی صاحب بھی نظریں لگائے بیٹھے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کے خلاف کوئی معاملہ لے کر تو آئے پھر دیکھتے ہیں کیا ہو تا ہے ڈاکٹر شفیق عجمی کو میں ذاتی طوربچپن سے جانتا ہوں ۔انہوں ایک آفیسر کی نوکری کو خیرباد کہہ کر ایڈہاک لیکچرار شپ اختیار کی انکی پہلی تعیناتی گورنمنٹ ڈگری کا لج پسرور میں بطور اردو لیکچرار ہوئی1984ء میں انہوں نے بینک سے صرف اس لئے استعفیٰ دیدیا کہ وہ تعلیم کو زیادہ عزت والا شعبہ سمجھتے تھے اور ان کے دل میں مز ید تعلیم حاصل کرنے کا جنون بھی تھا جو انہوں 2008ء میں پی ایچ ڈی کرکے پورا کیا ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جوانہیں حقیقت میں شفیق، مشفق سمجھ کران کی عزت کرتے ہیں اور جب ریٹائرمنٹ کی مدت پوری ہونے میں پانچ سال باقی رہ گئے ہیں تو ان کیخلاف ایک ایساکیس کھڑا کردیا گیا ہے جس کی صفائی دیتے ہوئے بھی بندے کو شرم محسوس ہوتی ہے کیا وہ اپنے گھروالوں بچوں شاگردوں کے سامنے اپنی رسوائی اور پسپائی دیکھ کر بکھرنہیں ہونگے کیونکہ ہمارے اس معاشرے میں ساری ہمدردیاں عورت کو ہی ملتی ہیں مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی کہانی کا مفہوم صحیح معنوں میں اب سمجھ آیا ہے کہ جب ایک بھیڑیا بھیڑ کے بچے کو شکار کرنے کیلئے جواز بناتاہے کہ تم نے میر اپانی گندا کردیا ہے بھیڑیاکیاکیا الٹے سیدھے بہانے تلاش نہیں کرتا کہ وہ بھیڑ کے بچے کو شکار کرلے اسی طرح کا یہ بھی کیس ہے کی فلاں وقت تم نے میرے ساتھ یہ کیا تھا سوچنے والی بات ہے کہ 2سال میں محبت کی پینگیں پروان چڑھیں یا سر ے سے کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا اسی طرح کی ایک اور کاروائی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے خلاف بھی سامنے آگئی ہے جس پر گورنر پنجاب نے انکوائری کمیٹی بنادی ہے گورنر صاحب کا خمبرتواسی مٹی سے اٹھا ہے مگران کو معلوم نہیں ہو گا کہ کہا ں ہر جگہ کس قسم کی سیاست گھر کرچکی ہے مخالفین کو زیر کرنے کے لئے کس کس قسم کے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے جاتے عہدے حاصل کرنے کیلئے اخلاق باختگی کا بھی مظاہر ہ کرنا پڑے تواس سے گریز نہیں کرتے چلو ان واقعات سے گورنر صاحب کو ایک ایکٹویٹی تو مل گئی ہے سابق گورنر میاں اظہر سکول کے بچوں کو گورنرہاؤں بلوا کر ایکٹویٹی حاصل کرتے تھے جبکہ چوہدری سرور یونیورسٹی کے استاتذہ کو یہاں دیکھ کر سر گرمی حاصل کریں گے کیونکہ گورنر صاحب کویہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پاکستان میں کسی بھی جرم یا ڈرامے کی ایک سیریل چلتی ہے یا چلائی جاتی ہے انتظارکریں اس طرح کے مزید واقعات بھی سامنے آنے والے ہیں جن سے کافی عرصہ محروم رہنے والاگورنر ہاؤں پھر سے خبروں کی زنیت بنے گا ۔گورنمنٹ کا لج میں اور کیاکیا ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا میں اپنے کالم کی سیریل نہیں بنانا چاہتا بہرحال گورنر صاحب کوسنجیدگی کے ساتھ ایسے معاملات کو دیکھنا چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے والے معماران وطن کو ایک نئی سمیت نہ مل جائے میری نظر میں تو اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ مدعی اور مدعالیہ کے ساتھ انکوئری کرنے والے تمام ارکان سے قرآن پاک پر حلف لیا جائے کہ انہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو قانون واخلاق کے زمرے میں آتی ہو یا جس سے جانبداری کا پہلو نکلتا ہو دعاگو ہوں کہ کم ازکم استاتذہ تو ایسی سیاست کا حصہ نہ بنیں کہ آپ معماران قوم کے روحانی باپ ہیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 33 Articles with 19027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.