حقو ق اﷲ اور حقوق العباد کے بغیر صالح معاشرے کی تشکیل ناممکن امر

اس دور میں بچے والدین کے حقوق سے ناواقف ہے تو والدین بچوں کے حقوق سے ناآشنا
اولاد کے حقوق سے والدین کی ناآشنائی:ایک لمحۂ فکریہ

آج کی اس مغرب پرست دنیا میں جہاں اولاد حقوق والدین سے غافل ہے والدین بھی اولاد کے حقوق سے نا آشنا ئی کی وجہ سے تساہلی کا شکار ہیں جس کی بناء پر ہر گھر جنت نشاں کی بجائے جہنم کدہ کی تصویر بناہوا ہے۔عہدِ رواں میں جہاں اولادوالدین کے حقوق سے غفلت کی بناء پر رب تعالیٰ کی نا راضی کا شکار ہو رہے ہیں وہی والدین بھی مزید اپنے بچوں کو بلائے عقوق میں مبتلا کرکے خود عتابِ الٰہی کے مستحق بن رہے ہیں۔ان حالات میں اولاد کو چاہیے کہ وہ والدین کے حقوق ادا کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھے اور والدین کو چاہیے کہ اولاد کے حقوق کو بحسن وخوبی انجام دیں۔شاہکارِدستِ قدرت مصطفی جانِ رحمت ﷺ سے ایک شخص نے دریافت کیا،یا رسول اﷲ ! میں کس کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کروں؟فرمایا’’ والدین کے ساتھ‘‘۔اس نے عرض کیا وہ تو فوت ہو چکے ہیں تو فرمایا:’’ اپنی اولاد کے ساتھ کہ جیسا حق ماں باپ کا حق ہے ایسا ہی اولاد کاہے‘‘۔(کیمیائے سعادت،ص:۳۵۹)اولاد کی تربیت پر بڑا اجرو ثواب ہے اس کے بڑے فضائل ہیں چنانچہ رسول اﷲ ﷺ نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:’’ما نحل والد ولد ا افضل من ادب حسن‘‘کسی والد کا اپنے لڑکے کو بہترین ادب سکھا دینا اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں۔(ترمذی عن عمروبن سعید)ایک جگہ اور فرمایا’’کوئی آدمی اپنے بچے کو ادب سکھائے یہ روزانہ آدھا صاع مساکین پر صدقہ کرنے سے افضل ہے‘‘۔(ترمذی عن جابر بن سمرۃ)اور عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ہم نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ ہمیں والدین کا حق تو معلوم ہو گیا اولاد کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایاکہ تم اس کا اچھا نام رکھواوراسے اچھا ادب سکھاؤ۔

مندرجہ ذیل سطور میں ہم دنیائے سنیت کے عظیم المرتبت تاجدار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اﷲ علیہ کی تحریر کے چند گوشے پیش کرینگے ۔آپ نے اولاد کے حقوق کے متعلق مکمل ایک رسالہ بنامـ’’مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد‘‘(والدین پر اولاد کے حقوق کے بارے میں راہنمائی کی قندیل)تحریر فرمایا۔آپ نے فرمایا’’اﷲ عزوجل نے اگرچہ والد کا حق ولد پر نہایت اعظم بتایایہاں تک کہ اپنے حق کے برابر اس کاذکر فرمایاکہ: حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا(القران الکریم)مگر ولد کاحق بھی والد پر عظیم رکھا ہے کہ ولد مطلق اسلام ،پھر خصوص جوار،پھر خصوص قرابت،پھر خصوص عیال ،ان سب حقوق کا جامع ہو کر سب سے زیادہ خصوصیت خاصہ رکھتا ہے اور جس قدر خصوص بڑھتا جاتا ہے حق اشد و آکہ ہوتا جاتا ہے۔مذکورہ رسالہ سے چند نکات مندرجہ ذیل ہیں۔(۱)سب سے پہلا حق وجود اولاد سے بھی پہلے یہ ہے کہ آدمی اپنا نکاح کسی رذیل قوم سے نہ کرے کہ بری رگ ضرور رنگ لاتی ہے(۲)دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچہ پر نانا ماموں کی عادات کا بھی اثر پڑتا ہے(۳)جب بچہ پیداہو فوراََ سیدھے کان میں اذان،بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان وام الصبیان سے بچے(۴)چھوہارہ وغیرہ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈالے کہ حلاوت اخلاق کی فال حسن ہے(۵)ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے،دختر کیلئے ایک پسر کیلئے دو کہ اس میں بچے کا گویا رہن سے چھڑانا ہے(۶)سر کے بال اتروائے(۷)بالوں کے برابر چاندی تول کر خیرات کرے(۸)سر پر زعفران لگائے(۹)نام رکھے(۱۰)برا نام نہ رکھے کہ بد فال بد ہے۔(۱۱)عبداﷲ ،عبدالرحمن ،احمد،حامدوغیرہ با عبادت و حمد کے نام یا انبیاء واولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام رکھے کہ موجب برکت ہے خصوصََا نام پاک ’’محمد‘‘کہ اس مبارک نام کی بے پایہ برکت بچہ کی دنیا و آخرت میں کام آتی ہے(۱۲)پیار میں چھوٹے لقب بے قدر نام نہ رکھے کہ پڑا ہوا نام مشکل سے چھوٹتا ہے(۱۳)بچے کو پاک کمائی سے روزی دے کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتا ہے(۱۴)نیا میوہ پھل پہلے انہیں کو دے کہ وہ بھی تازے پھل ہیں نئے کو نیا مناسب ہے(۱۵)بہلانے کے لئے جھوٹا وعدہ نہ کرے بلکہ بچے سے بھی وعدہ وہی جائز ہے جس کو پورا کرنے کا قصد رکھتا ہو(۱۶)اپنے چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو برابر و یکساں دے،ایک کو دوسرے پر بے فضیلت دینی تر جیح نہ دے(۱۷)سفر سے آئے تو ان کے لئے کچھ تحفہ ضرور لائے(۱۸)بیمار ہو تو علاج کرے(۱۹)زبان کھلتے ہی اﷲ اﷲ پھر پورا کلمہ طیبہ سکھائے(۲۰)جب تمیز آئے ادب سکھائے ،کھانے ،پینے،ہنسنے،بولنے،اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں،ماں باپ،استاذ اور دختر کو شوہر کے بھی اطاعت کے طرق وآداب بتائے۔(۲۱)قرآن مجید پڑھائے (۲۲)بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے(۲۳)عقائدواسلام وسنیت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی وقبول حق پر مخلوق ہے اس وقت کا بتایا ہوا پتھرکی لکیر ہوگا (۲۴)حضور اقدس رحمت عالم ﷺکی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے(۲۵)سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردے(۲۶)علم دین خصوصاوضو،غسل ،نماز وروزہ کے مسائل ،توکل،قناعت،زہد،اخلاص،تواضع،امانت داری،صدق، عدل ، حیا، سلامت صدورولسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل حرص وطمع ،حب دنیا ،حب جاہ،ریا،عجب،تکبر،خیانت،کذب،ظلم، فحش،غیبت ،حسد،کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے(۲۷ )مگر زنہار زنہاربری صحبت میں نہ بیٹھنے دے کہ یارِبد مارِبد سے بد تر ہے(۲۸)نہ ہر گز ہرگز بہادردانش،مینابازار،مثنوی غنیمت وغیرہا کتب عشقیہ و غزلیات فسقیہ دیکھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورۂ یوسف شریف کا ترجمہ نہ پڑھایا جائے کہ اس میں مکر زنان کا ذکر فرمایا ہے،پھر بچوں کو خرافات شاعرانہ میں ڈالنا کب بجا ہو سکتا ہے(۲۹)جب دس برس کاہو نماز مار کر پڑھائے(۳۲)اب جو ایسا کام کہنا ہو جس میں نافرمانی کا احتمال ہو، اسے امر و حکم کے صیغہ سے نہ کہے بلکہ برفق ونرمی بطور مشورہ کہے کہ وہ بلائے عقوق میں نہ پڑ جائے۔(حوالہ: فتا وٰی رضویہ ،جلد؍۲۴،ص ؍ ۴۵۱ تا ۴۵۳)اﷲ پاک سے دعا ہیکہ والدین کو ولد کے اور اولاد کو والدین کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔امین
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 673323 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More