کامیاب شادی

آج کل ہمارے معاشرے میں بچوں کی شادی کے بارے سے اکثر والدین پریشان ہیں اور جب اﷲ اﷲ کرکے ان کے بچوں کی شادی ہوجاتی ہے تو والدین اور زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں جو کہ باعث تشویش ہے میری یہاں پر والدین سے مراد لڑکی اور لڑکے کے والدین ہیں۔

ہمارے مسلمان معاشرے میں ساس اور بہو کا کوئی جھگڑا نہیں ہے یہ مسائل ہندو معاشرے کے ہیں جیسا کہ آپ اکثر انڈین ڈراموں میں دیکھتے ہیں آج کل ہمارے معاشرے میں انڈین ڈراموں کوبہت دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے چاہے وہ ساس ہو یا پھر بہو اور حد یہ ہوگئی ہے کہ مرد حضرات بھی اس میں دلچسپی لینے لگے ہیں ان کی یہ دلچسپی باعث تشویش ہے کیونکہ یہ دونوں ساس اور بہو اس کا بہت گہرا اثر لیتے ہیں اور اپنی زندگی میں ایک ڈرامے کو عملاً کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں معاملات بگڑتے جاتے ہیں اور نتیجتاً حالات مزید سے مزید خراب تر ہوتے جاتے ہیں اور بلاآخر نوبت علیحدگی اور پھر طلاق تک آجاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں اکثر ازدواجی زندگی میں مشکلات کا بڑا حصہ والدین کی لڑائیوں کا ہوتا ہے والدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں ہوتے ہیں اگر لڑکے کے والدین نے لڑکی کے والدین کے بارے میں کچھ غلط بیانی سے کام لیا ہوتا ہے تو لڑکی اپنے والدین کا دفاع کرتی ہے بالکل اسی طرح لڑکا بھی اپنے والدین کا دفاع کرتا ہے اور پھر لڑکی اور لڑکا اپنے اپنے والدین کا دفاع کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں جس کے اچھے نتائج نہیں نکلتے ۔اکثر گھرانوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی شدہ بچوں کی ازدواجی زندگی میں جو مشکلات ہیں وہ بالکل بیکار اور فضول باتوں پرمبنی ہوتی ہیں مثلاً شوہر بیوی سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ شادی کے بعد اس کا اور اس کے گھر والوں کا خیال رکھے گی اور گھر کی تمام ذمہ داریوں کو نبھائے گی جبکہ لڑکے کی والدہ صاحبہ کا یہ کہنا ہوتاہے کہ میں اس گھر کی مالکن ہوں یہ گھر میرا ہے اس کے تمام معاملات میری مرضی سے چلیں گے یہ بالکل صحیح بات ہے لیکن میرا لڑکے کی والدہ صاحبہ سے یہ سوال ہے کہ :-
اگر یہ گھر آپ کا ہے تو وہ جو بہو اپنے گھر لائی ہیں اس کا گھر کہاں ہے اس کا کون سا گھر ہے جس کی وہ مالکن ہے کیا آپ اپنے لیئے اور اپنے گھر والوں کے لئے کوئی غلام لائی ہیں یا کوئی نوکرانی لائی ہیں جو آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی خدمت کرے جبکہ وہ ہی لڑکے کے والدین اپنی بیٹی کے لئے یہ نہیں چاہتے جو وہ اپنی بہو سے اُمید کرتے ہیں اور یہ دوہرا معیار ہمارے معاشرے میں تباہی کا سبب بن رہا ہے اور جو آج کل شادیوں سے زیادہ طلاقیں ہورہی ہیں جبکہ ہمارے مذہب میں یہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرو و ہی چیز دوسروں کے لئے پسند کرو۔

اگر تما م والدین ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو اس میں ا ن کا ہی فائدہ ہے اور ہمارے بچوں کی ازدواجی زندگی میں خوشیاں ہونگی کیونکہ ہمارے بچوں کی اگر ازدواجی زندگی میں پریشانیاں ہونگی تو ہم بحیثیت والدین بھی پریشان رہیں گے چاہے وہ لڑکی کے والدین ہو ں یا پھر لڑکے کے ۔بحیثیت شوہر لڑکے کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہونا چاہئے اور بحیثیت بیوی لڑکی کو اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کاعلم ہونا چاہئے شوہر اور بیوی کو کسی دوسرے کی باتوں یا مشوروں پر عمل نہیں کرنا چاہئے کیوں نہ وہ ان کے اپنے والدین ہی ہوں ان کو اپنے تمام معاملات اپنی باہمی صلاح و مشورے سے کرنا چاہئیں اور بیوی کو اپنے شوہر اور بچوں کا سب سے پہلے خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہ اس کی پہلی ذمہ داری ہے اگر بیوی اپنے ساس اور سسر کا خیال نہ رکھے تو یہ اس کا اختیار ہے جبکہ شوہر زبردستی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کرنے کا حکم نہیں دے سکتا اگر بیوی خود اپنی مرضی سے اپنے ساس اور سسر کی خدمت کرتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ہر بیوی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیں اس میں اسی کا بھلا ہے بحیثیت بیوی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ شوہر کی عزت کا خیال کرے اور اس کے گھر اور مال کی حفاظت کرے اور اس کے بچوں کی اچھی پرورش کرے کیونکہ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہوتی ہے بحیثیت بیٹا اور شوہر لڑکے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے اور ان کی ضروریا ت کا خیال رکھے اورساتھ ہی اپنی بیوی اور بچوں کی تمام ضروریات کا بھی خیال رکھے ۔

اگر والدین اپنے بچوں کی شادی کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی شادیوں سے پہلے ہی ان کو علیحدہ گھر دیں یا پھر ان کے معاملات میں بیجا دخل اندازی نہ کریں اور اپنی اور ان کی ذمہ داریوں اور حقوق کو سمجھیں اگر تمام والدین اور بچے اپنی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں علم رکھیں گے تو ہر مشکلات سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود ہی پریشان ہیں اور ان کے بچے بھی مشکلات اور پریشانیوں میں زند گی گز ار رہے ہیں ۔

بحیثیت والدین آپ اپنے بچوں کی شادیوں کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی اپنی اپنی تمام ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ ایک اچھی اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں اگر ہمارے بچے خوش رہیں گے تو والدین بھی خوش رہیں گے کیونکہ بچے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں ۔ہمارے بچوں کی شادیوں کو کامیاب بنانے میں ہمارے معاشرے کے ہر فرد کا حصہ ہونا چاہئے۔چاہے وہ خاندان والے ہوں یا دوست احباب ہوں ۔ویسے زیادہ کردار والدین کا ہی ہوتا ہے ۔اور ا یک کامیاب شادی بنانے میں عملی طور پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ آج یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کل اسی مقام پر ہونگے جو آج ان کے والدین جس مقام پر ہیں۔

میری تمام بچیوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ صبر ،شکراور برداشت سے کام لیں ہر چیز حاصل کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے آپ کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے ۔جلد بازی سے اکثر نقصان کے سواہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔کوشش یہ کریں کہ آپ کے گھر میں سکون ہو اور گھر ایک حقیقی جنت بن جائے ۔میری یہ دعا ہے کہ اﷲکرے ہمارے بچے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائیں اور اﷲہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنی ازدواجی زندگی کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)۔
Rasheed Ahmed
About the Author: Rasheed Ahmed Read More Articles by Rasheed Ahmed: 36 Articles with 66290 views Software Engineer Qualifi. Master in Computer Science (MCS). .. View More