پیسے پورے لئے ،ڈگری بھی پوری دو

کہتے ہیں پرانے وقتوں میں طالب علم اور نوجوان ایک طاقت سے لیس ہوا کرتے تھے، جامعات ہوں یا کالجز انہیں اپنے حقوق کے حصول کیلئے کوئی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تھی، سینڈیکیٹ میں ایک نمائندہ طالب علموں کا بیٹھتا تھا اور وہ ویٹو پاور کا حامل ہوا کرتا تھا اور طلبہ کے مستقبل کیلئے کئے جانیوالے فیصلوں میں اس کی رائے کو اولیت دی جایا کرتی تھی اور اگر کہیں اسکے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی تو طلبہ کی ایک فوج ظفر موج اپنے حق کو حاصل کرنے میدان میں اترتی بھی تھی اور طاقت کا لوہا بھی منوایا کرتی تھی لیکن یہ سب داستان ہماری اس نسل نے صرف سنی ہے پرانی دیومالائی داستانوں کی طرح ، ایک دفعہ کے ذکر اذکار کی طرح اس کہانی کو ہم سنا کرتے ہیں اورآج کل اکثر بڑے دانشور کہلائے جانیوالے لکھاریوں کی جانب سے جیسے محمد بن قاسم کو سندیس بھیجے جاتے ہیں ویسے ہی کبھی کبھار کہیں اخبارات میں ہمیں اس طاقت کی بحالی کیلئے بھی مایوس کن سا کوئی بیان نظر آجاتا ہے جسے دینے والا خود بھی شاید غور سے نہیں پڑھتا صرف اسلئے کسی صحافی سے بھجوا دیتا ہے کہ دیکھنے اور سننے سے قاصر عوام کو اخبار پر غلطی سے نظر پڑھ جانے پر تو یہ معلوم ہو جائے کہ ہم بھی طلبہ اور نوجوانوں کی قیادت کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہو جایا کرتا ہے کہ الیکشن کا دور دورہ ہو جائے، لوگ الیکشن کی مہم میں مگن ہوں اور کہیں دور سیارے سے آئے ایک سیاسی لیڈر صاحب جن کا دیدارانہی ایک یا دو مہینوں میں ہی نصیب ہوتا ہے جگہ جگہ تقاریر کرتے نوجوانوں کو روزگار دینے کے وعدے، تعلیم اور علاج سمیت دیگر بیش بہا دعوؤں کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اس دیومالائی طاقت کی کہانی کودہرانے کے ساتھ ساتھ انہیں وہ طاقت پھر سے دلوانے کے اعلانات بھی کر جاتے ہیں پھر انکی یادداشت کھو جایا کرتی ہے کیوں کہ اب پھر سے انکا ٹھکانا اپنے اسی سیارے میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہ کبھی محمد بن قاسم آتا نظر آیااور نہ ہی طالب علموں کی وہ دیومالائی طاقت انکے ہاتھ لگتی دکھائی دی۔

حاکم اعلیٰ کو اب معلوم پڑھ چکا ہے کہ اقتدار کے مزے لینے کیلئے بھی رشوت کا سلسلہ ہی چلا دیا جانا چاہیے، چونکہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں ہی مجرم ہوتے ہیں اور خبر تو دشمن کے سب ٹھکانوں کی ہو ہی جاتی ہے لیکن شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے، سو اس فارمولے پر عملدرآمد کچھ زیادہ ہی آسان معلوم ہوا اور صاحب بہادر نے طالب علموں کو علم کی دولت سے مالا مال کرنے، حقوق کی جدوجہد کو استوار کرنے یا پھر اتنا ہی کے مستقبل میں سیاسی میدان کیلئے کچھ سیکھنے تک کا اختیار چھیننے کے عمل کو طوالت دیتے ہوئے کچھ نئے کمائی کے اڈے کھولنے شروع کر دیئے، ایک اڈے سے کم کمائی ہوتی ہے اس لئے ہر شہر ہر گلی میں ایک اڈہ ہونا چاہیے جس سے کمائی بھی ہو اور رشوت دینے کا سلسلہ بھی چل نکلے تاکہ کوئی مخبری کرنے کی صورتحال تک بھی نہ ہی پہنچ سکے بلکہ کوئی غریب اگر یہ گستاخی کر ہی ڈالے تو سارے حصے دار اس ملکی، قومی، علاقائی اور پتہ نہیں کون کون سے مفادات اور پراجیکٹس کے ضائع ہونے اور قومی نقصان کے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے غداری کے ارتکاب سے بچنے کی تلقین سے اسے چپ کرا دیا جائے، صاحبانِ بہادر کو بھی معلوم پڑ چکا ہے کہ پیسے اور ووٹ دونوں شکار ایک تیر سے صرف اسی صورت ممکن ہو سکتے ہیں کہ علم کی فروخت کے سلسلے کو عام کیا جائے اور اسی سلسلے پر وہ کاربند بھی ہیں، جس کے اثرات ہمیں نظر بھی آرہے ہیں، ایک جامعہ کی موجودگی میں اسکے رقبے پر ہمیں فخر ہوا کرتا تھا چاہے وہ پورے پاکستان کی جامعات کی تیسری کلاس کی درجہ بندی میں بھی آخری نمبروں میں براجمان تعلیمی معیار کو عیاں کر رہی تھی، اب اس ایک جامعہ کی آل اولاد پانچ کی تعداد میں ہو گئی ہے جنکی درجہ بندی اب شاید آنیوالے بیس تیس سال میں بھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی فہرست میں کہیں نظر نہ آئے لیکن ایک فائدہ تو ہے کہ ہمارے ووٹر بہت سارے روزگار پر لگ چکے ہیں، والدین اپنے بچوں کے حسین مستقبل کے خواب لئے ڈھیروں روپے خرچ کر رہے ہیں، صاحبانِ بہادر اس سارے عمل کو اپنے سیاسی تدبر سے تعبیر کرتے رہے ہیں لیکن اب والدین کو ایک دھچکا اس وقت لگا جب یہ معلوم پڑا کہ انکے خرچ کئے ہوئے پیسوں سے انکے بچوں کو کاغذ کا ایک ایسا ٹکڑا ملے گا جس کی کہیں کوئی وقعت نہیں، وہ ڈاکٹر بس نام کے کہلائیں گے کوئی جانور انہوں نے قریب سے دیکھا ہی نہیں تو علاج کیا خاک کریں گے۔

چھ سو طلباء و طالبات جو ابھی مستقبل کے تاریک ہونے کا رونا رو رہے ہیں ان میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا اور صرف جانوروں کے علاج کیلئے بننے والے ڈاکٹروں کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہونے والا کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں انجینئر بننے والے بھی مستقبل قریب میں اسی صورتحال سے دو چار ہوں گے ، مزید ایسے شعبے، مضامین سامنے آتے جائیں گے جن کی تعلیم کے حصول کیلئے پیسے خرچنے والے طلباء و طالبات کو مستقبل کی تاریکی کا خطرہ لاحق ہو گا، ہر ایک اپنے طور پر اپنے تئیں احتجاجی تحریک چلائے گا، دھرنے دیئے جائیں گے، ملاقاتیں ہوں گی، قوم کے مستقبل کو بچانے کی دہائیاں دی جائیں گی اور پھر سے اس بھٹی میں نئی پوچ کو جھونک دیا جائے گا ایسا چلتا رہا ہے اور چلتا رہے گا کیوں کہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے نام پر ہم نے اس دیومالائی طاقت کا نام لینے پر ہی پابندی عائد کروا دی، والدین خود علم بیچنے والے ساہوکاروں کے پھیلائے گئے اس پراپیگنڈے کے پوری طرح کائل ہو چکے ہیں کہ شاید جامعات، کالجز میں طلبہ کی سیاسی سرگرمی اور اسکی بنیاد پر پورے خطے کے طلبہ کے ووٹ سے منتخب طلبہ کی قیادت جو اس دیومالائی شکتی کی حامل ہوا کرتی تھی انکے بچوں کی مستقبل کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن عملاً یہ سب کچھ عیاں ہو چکا ہے کہ وہ ایک ڈھونگ ایک بیہودہ پراپیگنڈہ تھا جسے سب نے من و عن تسلیم کرتے ہوئے سرخم کر لئے اور اس فارم پر دستخط کر لئے جو علم بیچنے والے ساہوکاروں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جب چاہیں پیسے بٹورنے کے بعد کسی طالب علم پر علم کا دروازہ ہی بند کر دیں، جب چاہیں غیر قانونی طور پر فیسوں میں اضافہ کر دیں، جب چاہیں پیسے بٹورنے کے بعد ایک کاغذ کا جعلی ٹکڑا ہاتھ میں تھما دیں جس کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم اور روزگار کی ضمانت کے قلیل سے مواقعوں کی اہلیت بھی باقی نہ رہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، وہ والدین جو ابھی اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے سپنوں کی سیج سجائے ان حسین گھڑیوں کے انتظار میں مگن ہیں انہیں قطعاً یہ گوارہ تو نہیں ہو سکتا کہ اپنے بچوں کو ایسی اجازت دیں کہ وہ اپنی برادری سمیت اپنے ساتھ ہونیوالی اس نا انصافی اور علم کے نام پر لوٹ مار کیخلاف اس دیومالائی طاقت جسے طلبہ یونین کہا جاتاہے کہ حصول کیلئے ایک فیصلہ کن معرکے کا حصہ بنیں ، کیونکہ اپنے سیاسی مفادات ، منافعوں اور نوکریوں کے اس گھن چکر میں جن طالب علموں نے اپنے والدین کا سرمایہ ضائع کیا ہے وہ اسی سوچ میں مبتلا ہیں کہ پیسے جب پورے ادا کئے ہیں تو ڈگری بھی تو اصلی ہونی چاہیے۔ لیکن منافعوں اور سیاسی مفادات کے حصول کیلئے علم کی فروخت کے اس جعلی عمل کا شکار ہونیوالے ڈی وی ایم کے طلبہ ، سافٹ ویئر انجینئرنگ سمیت بے شمار طلبہ کوایسے مسائل درپیش ہیں جن کا سد باب پھر اسی دیومالائی طاقت کے حصول کے ذریعے ہی ممکن ہے اور وہی طاقت طلبہ کو اپنا مستقبل تراشنے کا ایسا ذریعہ بھی فراہم کر سکتی ہے کہ جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس کرہ ارض کو انسانوں کیلئے جنت ارضی میں تبدیل کر دیا جائے۔

حارث قدیر
About the Author: حارث قدیر Read More Articles by حارث قدیر: 8 Articles with 4883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.