ایسا تھا میرا کراچی

سندھ محبتوں اور بھائی چارے کی سرزمین ہے یہاں نفرتیں کبھی پنپ نہیں سکتیں۔ ہمارے دشمنوں نے یہاں جو آگ معصوم لوگوں کے دلوں میں لگائی تھی، وہ تیزی سے خلوص و محبت میں بدل رہی ہے ۔ سندھ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ برصغیر میں اسلام نے سب سے پہلے اس کے دروازے پر دستک دی اور اسے ’’باب الاسلام‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ محمد عثمان جامعی نے کیا خوب کہا:
رہیں سلامت میرے مولیٰ اجرک کے گْل بوٹے
اس کا کوئی تار نہ نکلے ، رنگ ذرا نہ چْھوٹے
بچھی رہے ساری دھرتی پر نیم کی ماں سی چھاؤں
لالو کھیت کی گلیاں ہوں یا دادو، تھر کے گاؤں
سندھی کے میٹھے لفظوں میں پریم کا راگ سنائیں
سندھ کے باسی سچّل کی اردو میں نغمے گائیں
رہے مہکتا پیڑوں پر میٹھے سندھڑی کا بُور
ریت پہ رم جھم برسے برکھا، تھر میں ناچے مور
کراچی۔ منی پاکستان

ہم وطنِ عزیز کو جدھر سے بھی دیکھنا شروع کریں اُدھر سے ہی خوبصورت نظر آئے گا۔ چلیے ہم کراچی سے آغاز کرتے ہیں ۔ اَمر جلیل نے اپنے شعور کی آنکھ کراچی میں کھولی تھی ،وہ اس شہر کی پوری داستان اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں ۔وہ بتاتے ہیں: ۱۹۱۶ء میںمیرے والد بمبئی یونیورسٹی سے پڑھ کر لوٹے تو اپنے آبائی شہر روہڑی جانے کے بجائے کراچی میں رک گئے ۔ محکمۂ تعلیم میں ملازمت کرلی۔ اس طرح میں بہ ہوش و حواس ۱۹۳۶ء سے اس شہر کراچی میں ہوں۔ رتن تلاؤ پرائمری سکول سے لے کر کراچی یونیورسٹی تک میں نے تعلیم اسی شہر میں حاصل کی ہے۔

میرا بچپن ،میرا لڑکپن اسی شہر میں گزرا ہے۔ اسی شہر میں ، میں جوان ہوا تھا اور اسی شہر میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔اس شہر کے گلی کوچوں میں میری یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ تب یہ شہر کوئی اتنا بڑا شہر تو ہوتا نہیں تھا۔کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری پر ختم ہو جاتا تھا۔ ٹکری کا مطلب ہے چھوٹی سی پہاڑی۔اس پہاڑی پر اب قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔یہ ہوتا تھا میرا شہر کراچی۔اس شہر کو عقیدت سے لوگ شہرِ قائد اعظم کہتے تھے پھر نہ جانے کب اور کیسے قائد اعظم سے لفظ اعظم حذف کردیا گیا اور یہ شہر ،شہر قائد اعظم سے شہر قائد کہلانے لگ گیا۔

میں جب بھی شہر میں ہنگاموں ،قتل و غارت گری، دہشت گردی،چوری اور لوٹ مار کی خبریں سنتا ہوں، تب مجھے میرا شہر کراچی شدت سے یاد آتا ہے۔میرا شہر کراچی جو کہ کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری پر ختم ہوجاتا تھا۔ ٹکری کے ایک طرف ہندو بزنس مین کی کوٹھیاں اور دوسری طرف کراچی کو سجانے بسانے اور دیدہ زیب بنانے والے پارسیوں کی کوٹھیاں ہوتی تھیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح کراچی کی سینٹرل جیل شہر سے دو اڑھائی میل دور ہوتی تھی۔ اگلے وقتوں میں تپ دق کو چھوت کی بیماری سمجھا جاتا تھا لہٰذا اوجھا سینی ٹوریم کے نام سے تپ دق کا ہسپتال شہر سے بارہ تیرہ میل دور ہوتا تھا۔اب اوجھا سینی ٹوریم کراچی یونیورسٹی کے ہمسائے میں ہے اور جیل شہر کے بیچوں بیچ آگئی ہے۔

کیماڑی سے لے کر بولٹن مارکیٹ ،صدر، سولجر بازار، چاکیواڑہ،کینٹ اسٹیشن،گاندھی گارڈن تک پورے شہر کو ٹرام وے کمپنی کی ٹرام سروس نے جوڑ رکھا تھا۔ شہر اس قدر صاف ستھرا اور خوبصورت اینگلو اورینٹل طرز تعمیر سے سجا ہوا تھا کہ کچھ لوگ کراچی کو چھوٹا لندن کہتے تھے۔ کراچی شہر میں صفائی ستھرائی اور دیدہ زیب عمارتوں کا جو حشر ہم نے ۶۳ برسوں میں کیا ہے ، گواہ رہیے کہ ہم لوگ ایک آزاد ملک کے حقدار نہیں تھے ۔ بندر روڈ ،برنس روڈ، صدر اور سولجر بازار کے لاکھوں فلیٹوں اور اپارٹمنٹوں کو ہم نے اُجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بالکونیاں اور گیلریاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ درو دیوار اور کھڑکیاں بے توجہی کا شکار ہوگئی ہیں۔

راستوں اور پارکوں کے نام تبدیل کرکے یاروں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ ہماری یادوں کو دھچکا لگایا ہے۔ پٹیل پارک اور کرکٹ گراؤنڈ کو ولبھ بھائی پٹیل کی متروکہ املاک سمجھ کر یاروں نے اس کو نشتر پارک کا نام دے دیا۔ بندر روڈ پر مولوی مسافر خانے کے سامنے ایک تکونا چھوٹا سا پارک ہوتا تھا جہاں نوجوان صبح شام ورزش کرتے تھے۔ اس پارک کا نام تھا،شِوجی پارک۔ یاروں نے شِوجی کو شیواجی سمجھ لیا جس نے ۲۵ برس تک مہاراشٹر میں اورنگ زیب عالمگیر سے جنگیں لڑی تھیں۔ یار لوگوں نے اس چھوٹے سے شوجی پارک کا نام بدل کر اورنگزیب عالمگیر پارک رکھ دیا ۔ صدر کا جہانگیر پارک نام کی تبدیلی سے اس لیے بچ گیا کہ یار لوگوں کے متھے میں یہ بات نہیں آئی کہ جہانگیر کسی غیر مسلم کا نام بھی ہوسکتا ہے۔

جہانگیر پارک نوجوان کرکٹروں کی نرسری تھا۔ جہانگیر پارک کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے والے کئی کرکٹر ٹیسٹ کرکٹ کھیلے۔ کچھ کھلاڑیوں کے نام آپ بھی سن لیجئے حنیف محمد،مناف،اکرام الابسی، والس میتھائس،خالد وزیر، دلپت، اینتاؤ ڈی سوزا، وسیم باری،انتخاب عالم اور ڈنکن شارپ۔ یار لوگوں نے کرکٹ گراؤنڈ کو اُکھاڑ کر نام نہاد پارک بنادیا۔آپ خود جاکر دیکھیں ۔پارک اب گردونواح کا کچرا ڈالنے کے کام آتا ہے۔ چرسی، ہیروئنی، موالی،جرائم پیشہ اب جہانگیر پارک میں پنپتے ہیں۔

میرے شہر کراچی میں مختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے تھے۔یہاں ہندو رہتے تھے۔ مسلمان رہتے تھے۔ ایرانی رہتے تھے۔ یہودی رہتے تھے، جین اور بدھ مت کے پیرو کار رہتے تھے، وہ سندھی،اردو،ہندی،انگریزی،گجراتی،بلوچی، مراٹھی، فارسی وغیرہ بولتے تھے۔ وہ نہ آپس میں لڑتے، نہ جھگڑتے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا دل سے احترام کرتے تھے۔ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے ، ایسا ہوتا تھا میرا شہر کراچی… یہ تھا کراچی کا ماضی ،آج کا کراچی تو بہت دور دور تک پھیل گیا ہے اور اس کے بارے میں تو آپ اکثر اخبارات میں مضامین پڑھتے ہی رہتے ہیں-

M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26881 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.