کراچی کاامن بحال کرنے میں فوج کا کردار

 سیٹھ محمد ذیشان کراچی کے رہائشی ہیں ۔وہ آج سے کوئی تیس برس قبل کسب ِمعاش کے لیے جنوبی پنجاب سے ہجرت کرکے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے یہاں آکر پچاس روپیے دیہاڑی سے اپنے مختصر سے خاندان کا پیٹ پالنا شروع کیا۔پھر رفتہ رفتہ محنت اورلگن سے ترقی کے زینے عبور کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ایک بہت بڑے گودام اورایک عالیشان جنرل اسٹور کے مالک بن گئے۔سیٹھ محمد ذیشان کی زندگی یوں ہی ہنستے بستے گزررہی تھی کہ اچانک ایک دن ان کو جان لیواصدمہ لاحق ہوا۔ان کے چھوٹے بیٹے ندیم ذیشان کو بھتہ خوراغواکرکے لے گئے اوراس کی جان بخشی کے لیے پچاس لاکھ تاوان کی پرچی گھر میں پھینک گئے ۔سیٹھ محمدذیشان کو جرائم پیشہ لوگوں کی طرف سے پہلے بھی پرچیاں ملتی رہتی تھیں لیکن ان میں ڈیمانڈاتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی جتنی اس بار تھی،اس وجہ سے انہوں نے ادائیگی نہیں کی ۔بھتہ خوروں نے مطالبہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے سیٹھ محمد ذیشان کے بیٹے کو اغوا کیا اور ڈیمانڈبھی ڈبل کر دی۔سیٹھ محمد ذیشان بیٹے کی بازیابی کے لیے علاقے کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں کے پاس گئے مگر کوئی راہ نکلی اور نہ تسلی ملی ،مد د کے لیے تھانے گئے تو پولیس والوں نے مقدمہ ’’نامعلوم ‘‘افراد کی فہرست میں ڈال کر چلتا کیا۔تھک ہار کرسیٹھ ذیشان نے بھتہ خوروں سے رابطہ کی کوشش کی تاکہ ڈیمانڈ کم کراکر بیٹے کو گھر لے آئے تو انہوں نے مطالبہ پورا نہ کرنے پر اس کو اور اس کے بیٹے کو قتل کرنے کی دھمکی سنا دی۔یہ دھمکی سن کر سیٹھ ذیشان کوہارٹ اٹیک ہوگیا۔ ہسپتال جاکر کچھ افاقہ ہوا توانہوں نے اپنا جنرل اسٹور سیل کرنے کے لیے رابطے شروع کردیے تاکہ بھتہ خوروں کی ہوس پورے کرسکے ۔ ابھی رابطے چل ہی رہے تھے کہ اگلے دن صبح ندیم ذیشان کی بوری بند لاش سیٹھ ذیشان کے گھر کے دروازے پر پڑی ہوئی ملی ۔نوجوان بیٹے کی لاش دیکھ کر سیٹھ ذیشان کو دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوااور اس کے بیوی لخت جگر کی خون سے لت پت لاش دیکھ کر قومے میں چلی گئی ۔

یہ افسوسناک واقعہ کوئی دو تین سال پرانا نہیں اور نہ ہی یہ من گھڑت داستان ہے بلکہ یہ دو کروڑ سے زائد اورپاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں محنت مزدوری کرنے والے ایک معصوم شہری کے ناحق خون کی تازہ ترین خبر ہے ۔کراچی میں گزشتہ کئی سالوں سے بھتہ خوری ،ٹارگٹ کلنگ ،اغوا برائے تاوان ،سرعام چوری ڈکیتی ،گھروں میں گھس کر چاردیواری کی حرمت پامال کرکے لوگوں کو لوٹنا عادت اور رواج بناہواہے ۔جس سے نہ صرف یہاں کے بسنے والے بلکہ پورے ملک میں بسنے والے اٹھارہ کروڑ سے زائد افراد ایک خوف اور ایک قسم کی بے چینی میں مبتلاہیں۔عوام کی بڑھتی ہوئی یہ بے چینی رفتہ رفتہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے ایک خطرہ بنتی جارہی ہے ۔اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام ابھی تک دونوں خواب غفلت میں محو ہیں ۔اس غفلت کا نتیجہ ہے کہ آئے روز پاکستان طرح طرح کے مسائل میں جکڑتا جارہاہے ۔کبھی سرحدوں پربڑھتی کشیدگی کا مسئلہ سر اٹھاتاہے تو کبھی ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کی گونج سے پورا ملک چیخ اٹھتا ہے ،کبھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے روڈ بلاک کیے جاتے ہیں تو کبھی مہنگائی ،بیروزگاری کی وجہ سے کاروباربند رکھے جاتے ہیں،کبھی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کے در پر کشکول اٹھاکر سدا لگانی پڑتی ہے تو کبھی اپنوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحد ہ سے انویسٹی گیشن کراوانے کے لیے کروڑوں روپیے خرچ کیے جاتے ہیں۔

یہ سب اور اس جیسے سینکڑوں دیگر مسائل صرف ہماری غفلت اور سستی کی وجہ سے بڑھتے جارہے ہیں ورنہ مجا ل ہے کہ بھارت یوں سر عام ہمیں جنگ کی دھمکیاں دیں اور ہم مذاکرات کے کشکول اٹھائے ہمدردی اور امن کی بھیک مانگتے پھریں؟مجال ہے کہ آئے روز یوں نہتے معصوم شہریوں پر امریکہ آگ برسائے اورہم صرف ’’ڈرون حملے پاکستان کے مفاد میں نہیں‘‘کا ڈھنڈورا پیٹتے رہیں؟مجال ہے کہ کراچی لہولہو ہو اور ہم مفادات کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں؟۔یہ ہماری کوتاہی اور بد دیانتی ہی تو ہے کہ ہم آج تک کروڑوں روپیے خرچ کرنے کے باوجود ملک میں کسی ادارے سے صحیح معنوں میں استفادہ کرسکے ،نہ ٹھیک طرح سے اپنے خون پسینے کی کمائی کا حق وصول کرسکے ۔ہمارے ہاں پولیس ،فوج ،رینجرزکی تعداد لاکھوں میں ہے اور انٹیلی جنس ادارے اور ان میں کام کرنے والے اہلکار بھی ہزاروں میں ہیں اور اسی طرح ملک میں عدل وانصاف فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر سُوسرِعام خون بہہ رہا ہے ،شہریوں کے مال ودولت کوباآسانی لوٹا جارہاہے ،جرائم پیشہ عناصر کھلے عام وارداتیں کررہے ہیں،محنت مزدوری کرکے حلا ل روزی کمانے والوں کو بھتے کی پرچیاں تھمائی جارہی ہیں!

ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم تبصرے ،باتیں اور بلند وبانگ دعوے توکرتے ہیں مگر عملاً کچھ نہیں کرتے ۔آپ کراچی کی بدامنی کے حوالے سے گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت کی کارکردگی دیکھ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ حکمرانوں نے کراچی کے امن بحال کرنے میں کتنی کوششیں کیں اور کس قدر دلچسپی لی۔پی پی دور ِ حکومت میں رسمی طور پر کچھ کاروائی ہوئی ،محدود سطح پر آپریشن بھی کیا گیا اور ٹارگٹ کلر بھی پکڑے گئے لیکن وہی اپنوں کی وفاداری اورمفادپرستی آڑے آگئی جس کی وجہ سے یہ آپریشن روک دیاگیا اور جرائم پیشہ لوگوں کو بند گلی سے یا تو فرار کروا دیا گیا یا جیلوں میں شاہانہ مہمان بنا دیا گیا۔آج اگر کراچی میں فوج کو حالات سنبھالنے کے لیے دعوت دی جارہی ہے تویہ دعوت جرائم پیشہ، مفاد پرست اور رشتہ داریاں نبھانے والوں اور بندربانٹ کرنے والوں کو موت سے بھی زیادہ سخت لگ رہی ہے اوروہ اسی وجہ سے پکار پکار کر ’’جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے ‘‘کے نعرے لگارہے ہیں۔دوہرا معیار اپنانے والوں کو لال مسجد آپریشن اورسوات آپریشن کے وقت کیوں سانپ سونگھ گیاتھا ۔کیااس وقت وفاقی دارالحکومت میں نہتے معصوم بچے بچیوں کو گولیوں سے بھوننا اور دنیا کے سامنے یوں درویش صفت علماء وطلباء کو بدنام کرکے ان کی شناخت کو مسخ کرنا جمہوریت کے منہ پر طمانچہ نہیں تھا ؟۔حیرت ہے! ہمارے سیاستدانوں پر کہ جب بات عوام کی مفاد کی آئے توہر طرف سے ایک شور وغوغا برپا ہوجاتاہے لیکن جب بات اپنے مفاد کی ہو تو پھر ایم کیو ایم ہو یا پیپلزپارٹی یا اے این پی یا کوئی اور ہر کسی لیے فوج کو دعوت دینا درست قرار پاتاہے ۔آپ 12مئی کے عام انتخابات کا جائزہ لے لیں کہ کس کس نے فوج کی نگرانی میں پولنگ کروانے کے لیے پاپڑ بیلے اور کس نے فرار کے لیے ہاتھ مسلے ؟۔

کراچی کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ٹارگٹڈ آپریشن انتہائی ناگزیر ہے خواہ وہ فوج کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے۔ کسی بھی ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان مال اور آبرو کو تحفظ فراہم کرے ۔اس تحفظ کے لیے اگر ریاست بھی داؤپر لگانا پڑے تو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ،کیوں کہ عوام ہے تو ریاست ہے ،عوام کے بغیر ریاست کا وجود ناممکن ہے ۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے عین وقت پر کراچی کا دورہ کرکے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے ۔وزیراعظم کی یہ آمد کراچی کے امن بحالی میں ایک مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے اگر وہ حالات کے مطابق فیصلے کریں اور ٹارگٹڈ آپریشن میں گرفتار ہونے والے جرائم پیشہ عناصر کوبلاتفریق کیفر کردار تک پہنچاسکیں،ورنہ یہ آپریشن اور یہ آمد تاریخ کے جھروکوں میں گم ہوکر ایک المناک داستان رقم کرے گی جس کے زخم شاید کبھی مندمل نہ ہوسکیں۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 34319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.