ایوان صدر کے مکیں کی تعریف میں

ہمارے پیارے ملک کے پیارے صدر، ہونٹوں پر ہروقت مسکراہٹ سجانے والے صدر، بڑے بڑے سیاستدانوں کو حیرت میں ڈالنے والے صدر، شہید بی بی کے شوہر صدر،بس کیا کیا کہوں ان کو ہم سب کے صدر آصف علی زرداری کی مدت صدارت آٹھ ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ یہ پہلے منتخب جمہوری صدر ہیں جو اپنی آئینی مدت پوری کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی سربراہی میں کام کرنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس تحریر میں ہم ان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہ رہے ہیں۔ ان کا تعارف کرانے کی ضرورت تو نہیں۔ تعارف تو اس کا کرایا جاتا ہے جس کو کوئی نہ جانتا ہو۔ ان کو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ تاہم ان کی شخصیت کو چار چاند لگانے کے لیے ان کا تعارف کرادیتے ہیں۔ ان کے لیے کیا یہ کم اعزاز ہے کہ وہ ایک وزیر اعظم کے داماد ہیں ۔ ایسے وزیر اعظم کے داماد ہیں ۔ جس نے اپنی سیاسی پارٹی بنائی۔ اس کا نام پیپلز پارٹی رکھا۔ جس نے عوام کی بنیادی ضروریات کا نعرہ لگایا۔ جس نے ملک کی سیاست کو نیا رخ دیا۔ جس نے قادیانیوں کو اسمبلی سے اقلیت قرار دلوایا۔ جس نے قوم کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ اس کی پارٹی آج بھی اس کے نام پر ووٹ لیتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کو ایک وزیراعظم کے شوہر ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ جس کو دنیا کی سب سے کم عمرترین خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جس نے بھٹو ازم کو زندہ رکھا۔ جس نے قوم کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تھرمل پاور لگائے۔ ہمارے پیارے صدر آصف علی زرداری نے جیلیں بھی کاٹیں ۔ اب وہ ملک کے صدر کے طور پر اپنی آئینی مدت پوری کرکے ایوان صدر کی دیواروں سے اپنا تعلق توڑنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹوکو جب شہید کیا گیا۔ محترمہ کی شہادت کا دکھ تو ہر پاکستانی کو تھا۔ جو ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف تھے وہ سب سے پہلے ان کی میت کے پا س پہنچے۔ تاہم خاص طور پر ان کی سیاسی پارٹی پیپلزپارٹی کے کارکن اپنی لیڈر کی شہادت پر غصے اور غم کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ملک بھر میں شہید بی بی کے قتل کے خلاف احتجاج ہوئے۔ اس احتجاج میں جو نقصان ہوا وہ آج تک حکومت سے پورا نہیں ہوسکا۔ سندھ چوں کہ ان کا آبائی صوبہ ہے اس لیے وہاں کے عوام بھی غصہ اور غم کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ سندھ میں ہی ایک جلسے کے دوران کسی نے نعرہ لگایا پاکستان نہ کھپے۔ اس کے جواب میں صدر آصف علی زرداری جو اس وقت ملک کے صدر تو نہ تھے تاہم اپنی پیپلزپارٹی کے سربراہ ضرورتھے نعرہ لگایا پاکستان کھپے پاکستان کھپے پاکستان کھپے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ نعرہ پھر لگانے سے روک دیا کہ پاکستان نہ کھپے۔ یہ ان کی سیاسی فراست تھی کہ انہوں نے انتہائی غم اور کرب کے ماحول میں بھی ایسا نعرہ لگانے سے روک دیا جو پاکستان کے خلاف تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہوگیا۔ اس سانحہ کے بعد عوام اورپارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ تمام سیاستدان بھی غصہ اور غم کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ سیاستدانوں نے شہید بی بی پر قاتلانہ حملہ کو سیاست اورجمہوریت پر حملہ قرار دیا اور انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ان میں مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف سب سے پیش پیش تھے۔ وہ ان حالات کو الیکشن کے لیے ساز گار نہیں سمجھتے تھے۔ آصف علی زرداری نے یہاں بھی اپنی سیاسی فراست سے کام لیا۔ کہ سیاسی جماعتوں نے یوں ہی انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کیے رکھا۔ ان سیاسی پارٹیوں نے انتخابات میں حصہ نہ لیا تو یہ سیاست کے لیے بھی نقصان دہ ہے جمہوریت کے لیے بھی۔ اس وقت پرویزمشرف ملک کے صدر تھے جو صدر ہونے کے علاوہ آرمی چیف بھی تھے۔ آصف زرادری نہیں چاہتے تھے کہ ملک میں ایسی صورتحال بنے جس سے غیر سیاسی حکومت بننے کی راہ ہموار ہو یا سیاستدانوں کو حکومت سے الگ کرنے کا موقع کسی کو مل جائے۔ اس سانحہ سے سب سے زیادہ متاثر بھی وہی تھے کہ ان کے بچے یتیم ہوگئے تھے۔ انہوں نے نواز شریف کے پاس جا کر انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ ختم کرکے انتخابات میں حصہ لیں۔ اس کے بعد نواز شریف نے انتخابات کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کرکے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ ان کے ساتھ ہی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی جنہوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا ۔ اکثر سیاستدانوں نے الیکشن کا بائیکاٹ ختم کرکے اس میں حصہ لینے کا اعلان کردیا جماعت اسلامی اور چند دیگر سیاسی پارٹیوں نے اپنا بائیکاٹ جاری رکھتے ہوئے انتخابات میں حصہ نہیں لیاتھا۔ جیسا کہ پہلے آپ پڑھ آئے ہیں کہ محرمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد خاص طور پر پیپلزپارٹی کے کارکن غصہ اور غم کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ان کو غم یہ تھا کہ ان کی لیڈر اب ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہوکر منوں مٹی تلے جاکر سو گئی ہے۔ اور غصہ اس بات پر تھا کہ بھرے مجمع میں ان کی لیڈر کو قتل کردیا گیا۔ قاتل غائب ہوگئے اور نشانات اور ثبوت مٹا دیے گئے۔ چوں کہ اس وقت ملک میں مسلم لیگ ق کی حکومت تھی اور پرویزمشرف پاکستان کے صدر تھے۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا غصہ ان دونوں کے خلاف تھا۔ اس کے ردعمل میں پیپلزپارٹی کو عوام نے دیگر سیاسی پارٹیوں سے زیادہ ووٹ دیے۔ جس سے وہ مرکز میں اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ آصف علی زرادری کی سربراہی میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ دوستانہ ماحول میں انتخابات میں حصہ لیا جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس کو نوازشریف کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آصف علی زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد ہی مفاہمت کی سیاست کا آغاز کردیا تھا جوانہوں نے اب تک جاری رکھا ہوا ہے۔ سب سے پہلے ان کی مفاہمت ملک کے ساتھ تھی کہ پاکستان کے خلاف نعرے لگانے سے روک دیا۔ اس کے بعد ان کی مفاہمت سیاست ، جمہوریت اور نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ تھی کہ ان کو انتخابات کا بائیکاٹ ختم کرکے اس میں حصہ لینے پرآمادہ کیا۔ پیپلز پارٹی جیت گئی۔ حکومت بنانے کا مرحلہ آیا تو آصف علی زرادری نے اشارہ دیا کہ وزیراعظم جنوبی پنجاب سے ہوگا۔ اس اشارہ کے ملتے ہی وہاں کے بہت سے سیاستدانوں کے بارے میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ کون وزیراعظم ہوسکتا ہے۔ قرعہ فال سید یوسف رضا گیلانی کے نام نکلا۔ انہوں نے آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی سے فائدہ اٹھایا اور متفقہ وزیراعظم منتخب ہونے کااعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے بطور وزیراعظم اپنے پہلے خطاب میں ہی عدلیہ کے معزز ججزکی نظر بندی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ جس سے عدلیہ بحالی تحریک پھر سے چل پڑی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کے بعد سب سے پہلا کام پرویز مشرف کو ہٹانے کا تھا۔ اکثر سیاسی جماعتیں نہیں چاہتی تھیں کہ اب پرویزمشرف ملک کا صدر رہے۔ کیوں کہ ان کی موجودگی میں نہ تو عدلیہ بحال ہوسکتی تھی اور نہ ہی کوئی اور کام ۔ آصف علی زرداری نے مشرف کو ان شرائط پر کرسی صدارت سے اتار لیا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور انہیں باہرجانے دیا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ مشرف نے جب کرسی صدارت چھوڑی تو اس کے کچھ ہی مدت کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے۔آصف علی زرادری یہ ڈپلومیسی اختیار نہ کرتے تو مشرف کو صدارت سے ہٹانا آسان نہ تھا۔ اس کے بعد صدارتی انتخابات ہوئے تو آصف علی زرداری نے مفاہمت کی پالیسی کے تحت سب سے زیادہ ووٹ لے کر ملک کا منتخب صدر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ نواز شریف سے انہوں نے وعدہ کررکھا تھا کہ حکومت بننے کے بعد ہی عدلیہ کو بحال کر دیا جائے گا۔ ایسا ہی ایک معاہدہ ان کے درمیان بھوربن کے مقام پر بھی ہوا۔ جس کو معاہدہ بھوربن کا نام دیا گیا۔ انہوں نے اس وعدہ پر بھی عمل نہیں کیا۔ کسی نے ان سے ان وعدوں کے متعلق سوال کیا تو جوجواب آیا اس کا خوب چرچا ہوا جواب یہ تھا کہ وعدے تھے کوئی قرآن وحدیث تو نہیں تھے جو پورے کیے جاتے۔ اس کے بعد نواز شریف اور صدرآصف علی زرداری کی سیاسی راہیں جدا ہونے لگیں۔ نوازشریف کو عدلیہ کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کرنا پڑا۔ جو ابھی راستے میں ہی تھا کہ عدلیہ بحال کر دی گئی۔ مسلم لیگ ن حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی۔ اس نے کابینہ سے بھی علیحدگی اختیارکرلی اور اپوزیشن بینچوں پر آگئی۔قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن کمزور ہوئی تو مسلم لیگ ق کی اہمیت بڑھ گئی۔ کل تک جس کو پیپلزپارٹی کے کارکن قاتل لیگ کہا کرتے تھے ۔ اب اس کو حکومت میں شامل کرلیا۔ پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنا دیا گیا۔ چوہدری شجاعت حسین ایک ماہ کیلئے وزیراعظم بنے رہے۔ یہ سب کچھ اقتدار بچانے کے لیے تھا یا جمہوریت بچانے کے لیے ۔ اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملائے رکھا ۔ جس نے ایک ضدی بچے کی طرح روٹھنے اور اپنے مطالبات منوانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے سب سے زیادہ غیر ملکی دورے کیے۔ ان کے ان دوروں کی وجہ سے کہا گیا کہ وہ پاکستان میں دورے پر آتے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ غیرملکی دورے پر گئے توپاکستان میں ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا گیا۔ اور یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ وہ اب پاکستان میں واپس نہیں آئیں گے۔ وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی والے وضاحتین کرتے رہ گئے کہ وہ علاج کے لیے گئے ہیں۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین نے عوام میں ایسا تاثر چھوڑاکہ وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ وہ واپس آگئے تو سب کے منہ بند ہوگئے۔ ان کے سربراہی میں چلنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت کے جانے کی تاریخیں ہر تین ماہ بعد دی جاتی رہیں۔ جب بھی کوئی ایسا ویسا واقعہ ہوجاتا تو اس کے ساتھ یہ کہا جاتا رہا کہ اب حکومت گئی۔ سب تاریخیں اور ڈیڈ لائنیں غلط ثابت ہوئیں۔ ان کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی۔ این آر اوعملدرآمد کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا۔ جس میں عدلیہ نے باربار حکومت کو تاکید کی کہ سوئس حکام کو خط لکھا جائے کہ وہ سوئس کیس بحال کرے۔ اس کیس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں چند سیکنڈ کی سزا ہوئی جس کی وجہ سے وہ نااہل ہوگئے۔ اس کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے تو انہوں نے خط لکھنے پر آمادگی ظاہر کردی اور خط لکھ بھی دیا۔ صدرآصف علی زرداری کے طرزِ سیاست نے سیاستدانوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ ایک موقع پر جاوید ہاشمی کو کہنا پڑاکہ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ایک کالم نگار نے لکھا کہ جاوید ہاشمی تو کہتے ہیں کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ اب تو وہ بھی کم پڑگئی ہے۔ ان کا اشارہ ایک اور واقعہ کی طرف تھا۔ شہبازشریف کو صدرآصف علی زرداری سے خصوصی محبت تھی۔ وہ اپنے پچھلے دورحکومت میں صدر زرداری کا نام پیار سے علی بابا اور ان کی ٹیم کو وہ چالیس چور کہا کرتے تھے۔ کسی نے اس کا جواب دیا تو انہوں نے پیارسے نام تبدیل کرکے زربابا کہنا شروع کردیا۔ ان کو صدرزرداری سے اتنی محبت تھی کہ اپنے ہر جلسہ میں علی بابا کے بعد زربابا ضرورکہتے تھے۔ وہ جوش محبت میں گو زرداری گو کے نعرے بھی لگواتے تھے۔

صدر آصف علی زرداری نے اپنی سربراہی میں کام کرنے والی حکومت میں بہت سی پیچیدگیوں کو حل کیا۔ دیرینہ آئینی مسائل حل کرائے۔ انیس سو تہتر کاآئین اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پارلیمانی نظام قائم کیا۔ اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیے۔ اپنے اختیارات کم کرنا اور کسی اور کے حوالے کر دینا نہ تو آسان کام ہے اور نہ ہی ہر کسی کا۔ انہوں نے کنکرلسٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو صوبائی خودمختیاری دی۔ این ایف سی ایوارڈ کا تنازع ختم کرایا۔ ان کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی تو انہوں نے عام انتخابات کرائے۔ اس سے پہلے ان کے خلاف دوعہدوں کا کیس بھی زیرسماعت رہا۔ جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ یاتو صدارت چھوڑدیں یا پارٹی کی سربراہی چھوڑدیں۔ انہوں نے اپنی پیپلزپارٹی میں شریک چیئر مین کا عہدہ ہی ختم کردیا۔ ان کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیاگیا۔ جس کی وجہ سے وہ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم نہ چلا سکے۔ان کو عام انتخابات میں شکست ہوئی تو انہوں نے اس شکست کو کھلے دل سے قبول کرلیا۔ الیکشن میں ن جتنے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کا پورا پورا موقع دیا ۔ اس میں کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ انہوں نے دھاندلی کا شورنہ مچایا بلکہ اپنی پارٹی کی شکست کی وجوہات جاننے کے لیے ایک کمیٹی بنادی۔ اس کمیٹی نے اب تک کوئی رپورٹ دی ہے یا نہیں۔ اگر اس کمیٹی نے کوئی رپورٹ دی ہے تو اس نے اس میں کیا وجوہات بتائی ہیں۔ اس بارے ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو صدر آصف علی زرداری نے واضح الفاظ میں اس میں حصہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اکثریتی پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا صدر لے آئے۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پہلے ہم اورنوازشریف ایک ساتھ تھے۔ پھر الگ ہوگئے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں یہ سیاست ہے۔ انہوں نے ایک اور موقع پر کہا کہ ملک میں جمہوریت کا پودا پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ جو مسائل آرہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب پودا پروان چڑھ رہا ہوتا ہے۔ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو وہ جھولنے لگتا ہے۔ جب وہ تناور درخت بن جاتا ہے تو تیز ہواؤں سے اس کا تنا نہیں جھولتا اپنی جگہ مضبوطی سے قائم رہتا ہے۔ اسی طرح ایک دن جمہوریت کا پودا بھی تناور درخت بن جائے گا۔ ان کے خلاف جو محاذ کھڑے کیے گئے کوئی اور ہوتا تو وہ کب کا استعفیٰ دے کر سیاست سے توبہ کر چکا ہوتا۔ ملک میں سیاستدانوں اور میڈیا کی طرف سے ان پر جتنی بھی تنقید ہوئی۔ انہوں نے اس کو کھلے دل سے برداشت کیا۔ ان کے خلاف جتنی بھی باتیں ہوئی ہیں۔ ان کے خلاف جتنے بھی پروپیگنڈے کیے گئے۔ افواہوں کے بازار گرم کیے گئے۔ صدر آصف علی زرداری نے ان میں سے کسی بھی سازش، کسی بھی بات، کسی بھی پروپیگنڈے کا جواب از خود کبھی نہیں دیا۔ ان کے خلاف جب بھی کوئی بات ہوئی تو اس کا جواب ان کی پارٹی کے کسی اور رہنما نے دیا۔ انہوں نے مفاہمت کی پالیسی کا اعلان کیا تھا ۔ اپنی مدت صدارت تک وہ اس پر قائم رہے۔ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنے دور ِ صدارت میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ صدرپاکستان کی حیثیت سے روس کا دورہ کرکے پاکستان روس تعلقات کا آغازکیا۔ اسی دورہ روس کی شکل میں امریکہ کو خاموش پیغام دیا کہ اب پاکستان نے اس پر انحصار کم کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے ہر دباؤ اور لالچ کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کر ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا۔ امریکہ اس معاہدہ کے آگے رکاوٹ بنا ہوا تھا ۔ صدر زرادری نے اس کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ معاہدہ کرکے پاکستان کی اہم ضرورت کو پورا کرنے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا جب تک میں صدر ہوں کسی کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائے گی۔ وہی ہوا ان کی مدت صدارت میں کسی مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ اب نواز شریف کی حکومت نے سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو سزا دینے کا پروگرام بنایا تو انہوں نے ان کو کہہ دیا کہ جب تک میں صدارت کے منصب پر فائز ہوں اس وقت تک کسی کو سزائے موت نہ دی جائے۔ نواز شریف نے ان کی یہ خواہش قبول کرتے ہوئے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا۔ مشرف ان کے دور صدارت میں ملک سے چلے گئے تھے پھر واپس بھی آگئے ۔ان کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی جاری ہے۔ ان کے دور صدارت میں ان کے خلاف کرپشن سمیت کوئی سیکنڈل سامنے نہیں آیا۔ مہر فضل حسین سمرا کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کی چھتری تلے جو کرپشن ہوتی رہی ہے اس کا ذمہ دار اخلاقی اور سیاسی طور رپر ان کو ضرور ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ صدرزرداری نے اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک کے پہلے صدر ہیں جو عزت سے جارہے ہیں۔ اختیارات تو انہوں نے پارلیمنٹ کو دے دیے تھے تاہم عملاً ان کا ہی حکم چلتا رہا۔ ان کو مدت صدارت ختم ہونے کے بعد ملک سے باہر جانے سے روکنے کے لیے درخواست بھی سماعت کے لیے منظور ہوچکی ہے۔ان کے اعزاز میں الوداعی ضیافتیں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے موجودہ حکومت سے تعاون کرنے اور غلطیوں پر تنقید کرنے کا اعلان بھی کررکھا ہے۔ تاہم ان کی توجہ پیپلزپارٹی کی ساکھ بحال کرنے پر ہوگی۔

ان کے عہد صدارت کو پاکستان کی جمہوری روایات کا خوبصورت آغاز کہا جا سکتا ہے۔ ان کے اس دور صدارت کو پاکستان کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اچھے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ اس کا کریڈٹ صرف صدر زرداری کو ہی نہیں جاتا بلکہ ان تما م شخصیات اور اداروں کو جاتا ہے جنہوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا یا ان کے خلاف سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اس منصب سے جدا ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کی کمان سنبھالیں گے۔ پارٹی کو ایک بار پھر نئی زندگی دینے کی کوشش کریں گے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 306737 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.