دہشت گردی کا حل

کراچی میں بدامنی کی لہرتو بہت پہلے ہی شروع ہو گی تھی لیکن اب یکایک اس میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے، کبھی ٹارگٹ کلنگ کے نام پر کبھی بھتہ خوری کے نام پر اور کبھی مسلکی بنیاد پر اس دہشت گردی میں آئے روز قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے،اس دہشت گردی میں جتنے بھی قوانین بنے بدقسمتی سے کوئی بھی موثر نہ ہو سکا،حکومتی رٹ کو آئے روز چیلنج کیا جا رہا ہے،انتظامیہ کے بلند و بانگ دعوے بھی جا ری ہیں ،کارگردگی صفر ہے،دہشت گرد جہاں چاہیں جس وقت چاہیں آگ لگا دیتے ہیں، منٹوں میں کراچی جیسا شہر اسلحہ کے زور پر بند کروا دیا جاتا ہے،پولیس رینجر ز کو اتنے اختیارات سونپے جاتے ہیں مگر معاملہ جوں کا توں ہے،گرفتاریں بھی ہوتی ہیں تو صرف نام کی، انتظامیہ اچھے طریقے سے جانتی ہے کہ امن وامان کا ماحول کس نے خراب کر رکھا ہے،مسلح ونگ کس تنظیم کے ہیں ،مگر سیاسی اثررسوخ اتنا زیادہ ہے کہ کہیں بھی ہاتھ ڈالنے سے پہلے انتظامیہ کو سوچنا پڑتا ہے،اور اب تو فوج بلانے کی باتیں ہو رہی ہیں ، عوام میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے،لوگ بھتہ دیتے دیتے تنگ ا ٓگئے ہیں ،اب تو چپ چاپ بھتہ دے دیا جاتا ہے،کوئی رپور ٹ کرانے کی زحمت بھی نہیں کرتا ،اس بھتے کے بل بوتے دہشت گرد مالی طور پر مظبوط تر ہوتے جا رہے ہیں،یعنی پیسہ بھی عوام کا اور خون بھی عوام کا ہی جاتا ہے،دہشت گردوں نے بھتہ لینے کے لیے اپنے اپنے علاقے مقرر کر رکھے ہیں، کوئی کسی کے علاقے میں مداخلت نہیں کر سکتا،بلکہ شنید ہے کہ بعض قانون کے رکھوالوں کا پورا پورا حصہ الگ رکھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے بھتہ لینے میں اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے،جان بچانے کے لیے بہت بڑی بھاری قیمت چکائی جا رہی ہے، کبھی یکا یک مذہبی حلقوں میں انتشار کی لہر پیدا کر کے ٹارگٹ کیاجاتا ہے،عدم برداشت بہت ہو گی ہے ، ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے،اگر حکومت ان مذہبی حلقوں کے لیے خلوص نیت کے ساتھ قوانین بنائے تو ان کی روک تھام ممکن ہے ،خود مذہبی رہنماؤں کا بار بار یہی مطالبہ رہا ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو مت چھیڑا جائے ،اس پر قانون بنایا جائے ،اپنے جائز مسلک کا پرچار کرنا ہر کسی کا حق ہے مگر اس کی آڑ میں دوسرے مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانا ہی دہشت گردی کا سبب بنتاہے،جب ایک مذہب کے لوگ اپنے مذہب سے محبت کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب اس کے خلاف کوئی بھی غلط بات کرے گا اور حکومت وقت بھی اس کے لیے کوئی موثر قانون نہیں بنائے گی تو پھر وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو گا اور اسی سے آگے چل کر دہشت گردی پیدا ہوتی ہے پھر اس کی آڑ میں اسلام اور ملک دشمن لوگ بھی فائدہ اٹھانے لگتے ہیں،جو اس کی انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ ذرہ سی جنگاری لگ جائے بس،وہ پھر اس موقعے سے بھر پور فائد اٹھایا جاتا ہے، اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ اس پہلو پر توجہ دیں،موثر قانون بنائے جائیں،اور پھر امن پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے،تب جا کر دہشت گردی کی اس لہر کو کم کیا جا سکتا ہے، ورنہ نہیں۔
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 66371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.