خوشبو میں نہاتے رنگ

 مصنف:عطاالرحمٰن قاضی ،رباعیات کا مجموعہ ’’خوشبو میں نہاتے رنگ ‘‘نیلی بار پبلی کیشنز عارف والا ،اشاعت دوم ،2013،صفحات 135،قیمت :200روپے ،سٹاکسٹ :نگارشات ،لاہور

تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان

پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں کے لیے عطا الرحمٰن قاضی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ 12۔جنوری 1979کو عارف وال کے ایک ممتاز علمی و ادبی گھرانے میں طلوع ہونے والے اس تابندہ ستارے نے کم عمری ہی میں اپنی ذہانت کی چکا چوند سے گرد و نواح کے علاقوں کو منور کر دیا۔ان کے خاندان میں چار پشتوں سے شعر و ادب کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے ۔ادبی ذوق انھیں ورثے میں ملا ۔سکول اور کالج کی ادبی محفلوں کی وہ روح رواں رہے اور زمانہ طالب علمی میں متعدد انعامات حاصل کیے ۔ کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات میں شرکت کے لیے اس نو جوان طالب علم نے وطن عزیز کے طول و عرض کا سفر کیااور ہر جگہ اپنی کامرانی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔کالج کے بعد وہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایم ۔اے اردو میں داخل ہوئے اور یہاں بھی طلائی تمغہ حاصل کر کے اپنی فقید المثال کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ایک فعال ،مستعد ،زیرک ،مخلص اور انسانیت نواز ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کیا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور انسانیت سے والہانہ پیار اور قلبی وابستگی ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔ وہ گزشتہ دو عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں ۔انھوں نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ہے لیکن شاعری میں ان کے جوہر خوب کھلتے ہیں ۔ان کے دو شعری مجموعے جن میں نظموں کا مجموعہ ’’دعائیں سوکھ چکی ہیں ‘‘اور غزلوں کا مجموعہ ’’خواب بھر روشنی ‘‘شامل ہیں زیر طبع ہیں ۔حال ہی میں ان کی رباعیات پر مشتمل مجموعے ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘کادوسر ایڈیشن شائع ہوا ہے ۔رباعیات کا یہ مجموعہ پہلی بار 1910میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا ۔مطالعہ ء ادب کی موجودہ غیر امید افزا صورت حال میں ایک شعری مجموعے کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت بلا شبہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ان کی شاعری لہو بن کر سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں میں بھی رواں ہو جاتی ہے اور اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتی ہے ۔ہمارے دور کا لرزہ خیز ،اعصاب شکن المیہ یہ ہے آج کے تخلیق کار کو سسکتی ہوئی انسانیت کے مسائل جامد و ساکت پتھروں ،صحراؤں ،ریگستانوں اور دشت و جبل کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں ۔ اس کے با وجود پر عزم اور جری تخلیق کار یاس و ہراس کے عالم اور ہوائے جورو ستم میں رخ وفا اور آس کا دیپ بجھنے نہیں دیتے ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ در کسریٰ پر صدا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اس لیے کہ ان کھنڈرات میں حنوط شدہ لاشیں اور بے حس مجسمے کسی صورت میں بھی بے بس انسانیت اور مظلوم طبقے کی داد رسی پر تیار نہ ہو ں گے ۔
تھا محو کلام خود سے اندر کا سکوت
آواز میں ڈھل رہا تھا منظر کا سکوت
اک چیخ سے کانپ اٹھے،سب دشت و جبل
دیکھا نہ گیا مجھ سے پتھر کا سکوت

عطا الرحمٰن قاضی کو پاکستان کی تہذیبی و ثقافی اقدار و روایات دل و جاں سے عزیز ہیں ۔ان کی رباعیات میں معاشرتی زندگی کی متعدد علامات اس انداز میں سامنے آتی ہیں کہ ان کی مسحو ر کن جاذبیت کا کرشمہ
دامن دل کھینچتا ہے ۔اپنی اصلیت کے اعتبارسے یہ تما م علامات ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں جن کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت اور قوت و فعالیت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے عطا الرحمٰن قاضی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب تند و تیز ہوائیں اور بگولے ہی شمع ہستی کے بارے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کریں گے ۔صرف وہی شمع ہی اپنی ضو فشانی کا سلسلہ جاری رکھ سکے گی جو ان تیز ہواؤں کا سامنا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی ۔زندگی کی برق رفتاریوں نے اقدار و روایات کی کا یا پلٹ دی ہے ۔زندگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کی ایک شکل ہے ۔ بھنبھیری کے مانند ہوا کے تیز جھونکوں کے ساتھ گھومنا ہی اقتضائے وقت ہے ۔چلنے والے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں جب کہ ٹھہرنے والے ہوا کے طوفانی جھونکوں کی زد میں آ کر خس و خاشاک کے مانند اڑ جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی ے چینی کا سبب ظلم اور شقاوت آمیز نا انصافی ہے ۔انھوں نے ایک قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور جبر کو للکارا ہے کہ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی قوتوں کو اپنے انجام سے غافل نہیں ہنا چاہیے ۔انھیں اپنی فرد عمل کا حساب دینا ہو گا۔ ان کی رباعیات میں زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ قاری کو چونکا دیتی ہے ۔
ہر لمحہ فزوں شوق ،تغیری نے کیا
بے چین ہمیں جب بھی اسیری نے کیا
ذرے ذرے سے زندگی پھوٹ بہی
یوں رقص ،سر عام بھنبھیری نے کیا
پھولوں کو کانٹوں میں پرونے والو
دیوار و در میں ظلم بونے والو
ہاتھوں سے یہ سرخی نہیں جانے والی
دھبے اپنے گنہ کے دھونے والو

زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر کامل عبورکا اس سے بڑ ھ کر اور ثبوت کیا ہو گا کہ عطا الرحمٰن قاضی نے گلدستہء معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے اور اک پھو ل کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔انھوں نے رباعی کے تمام اوزان میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنے اشہب قلم کی خوب جو لانیاں دکھائی ہیں ۔اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو جس فنی مہارت ،خلوص اور درد مندی کے ساتھ انھوں نے الفاظ کے قالب میں قالب میں ڈھالا ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام پر فائز کرتا ہے ۔خوشبو میں نہاتے رنگ میں شامل تمام رباعیات ایک زیرک تخلیق کار کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اردو رباعی کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے اس صنف شعر کے مقام سے آگاہی حاصل ہو گی ۔
قلی قطب شاہ (پیدائش :1565،وفات :11۔جنوری 1612)سے لے کر لمحہء موجود تک اردو رباعی نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب اردو شاعری میں رباعی نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے ۔اردو شاعر کے افق پر رباعی کی کہکشاں میں میر ببر علی انیس (پیدائش :1802،وفات 1874)ا ور مرزا سلامت علی دبیر(پیدائش :1803وفات :1875) کو مثل آفتاب سمجھنا چاہیے جنھوں نے رباعی کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا ۔ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا ۔ان کے علاوہ دیگر تابندہ ستاروں میں اکبر الہ آبادی ،فانی بدایونی ،جوش ملیح آبادی ،فراق گورکھ پوری ،جگت موہن لال راون ،یاس یگانہ چنگیزی ،اثر صہبائی ،سیماب اکبر آبادی ،ماہر القادری،تلوک چند محروم ،اور امجد حیدر آبادی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان مشاہیر ادب نے اپنے خون جگر سے رباعی کی صنف کو پروان چڑھایا۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اردو رباعی کے فروغ میں انیس اور دبیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔علامہ شبلی نعمانی کی معرکہ آرا تصنیف ’’موازنہ انیس و دبیر ‘‘جب 1906میں منظر عام پر آئی تو یہ تاثر عام ہو گیا کہ انیس کو دبیر پر برتری حاصل ہے ۔اس کا سبب یہ تھا کہ شبلی نعمانی نے اپنا سارا استدلال انیس کو برتر ثابت کرنے پر صرف کر دیا ۔1975میں جب انیس کی صد سالہ برسی کی تقریبات کا آغاز ہوا تو ناقدین ادب نے شبلی نعمانی کی تصنیف کے مندرجات کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے دبیر کے بارے میں ان کی رائے سے اختلاف کیا او ر موازنہ انیس و دبیر میں انیس کی برتری کے بارے میں شبلی نعمانی کے سخت فیصلے پر گرفت کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔پروفیسر کرار حسین نے ماہ نو کے دبیر نمبر (مطبوعہ ستمبر ۔اکتوبر 1975)میں اس جانب توجہ دلائی کہ دبیر کے ادبی مقام کے بارے میں شبلی نعمانی کی رائے کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ بادی ا النظر میں بھی شبلی نعمانی کی رائے یک طرفہ ہے اس پر بغیر سوچے سمجھے یقین نہیں کیا جا سکتا ۔ادبی مسائل کے بارے میں جانب دارانہ انداز فکر گمراہ کن ثابت ہوتا ہے جو ادبی صداقتوں اور تنقید کے مسلمہ معائر سے شپرانہ چشم پوشی کے مترادف ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دبیر کے بارے میں ادبی حلقوں اور ناقدین کی رائے میں تبدیلی آنے لگی اور یہ بات شدت سے محسوس کی جانے لگی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دبیر کے ادبی مقام کو حقیقی تناظر میں دیکھا جائے ۔

اردو رباعی کی تاریخ اور ارتقامیں دلچسپی لینے والوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ثابت ہوئی جب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے دبیر پر اپنی تحقیق کو مکمل کیا ۔ان کی تالیف ’’رباعیات دبیر ‘‘کی اشاعت سے دبیر کے ادبی کام پر پڑ جانے الی ابلق ایام کے سموں کی گرد صاف ہو گئی ۔یہ تحقیقی کتاب جو چھے سو صفحات پر مشتمل ہے اس میں دبیر کی 1323رباعیات شامل ہیں ان میں چالیس رباعیات فارسی زبان میں ہیں۔اسی عہد میں شاہ غمگین نے اٹھارہ سو رباعیات لکھیں جو اردو میں رباعیات کی سب سے بڑی تعداد ہے ۔رباعیوں کی تعداد کے لحاظ سے دبیر کا دوسرا نمبر ہے ۔سید تقی عابدی کی تالیف کی اشاعت کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی کہ دبیر کا مقام کسی صور ت میں بھی انیس سے کم نہیں ۔

اردو شاعری کی اصناف کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اردو شاعری میں رباعی کو اس قدر مقبولیت نہیں مل سکی جتنی دوسری اصناف کو ملی ۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس صنف شعر میں تخلیق فن کے لمحوں میں سخت ریاضت اور جگر کاوی درکار ہے ۔صرف چار مصرعوں میں ایک بھر پور مضمون کا احاطہ کرنا بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہے ۔رباعی کے چوتھے مصرعے میں شاعر اپنا مطمح نظر بیان کرتا ہے اور اسی مصرعے کا حاصل کلام سمجھا جاتا ہے ۔اردو میں جوش ملیح آبادی نے اپنی رباعیات کے مجموعے ’’جنون و حکمت‘‘ میں اپنے کمال فن کا ثبوت دیا ہے ۔فراق گورکھ پوری کی رباعیات کا مجموعہ ’’روپ ‘‘نئے تجربات کا آئینہ دار ہے ۔ارد و شاعری میں سنسکرت الفا ظ کو شامل کر کے فراق نے ایک انوکھا تجربہ کیا ہے ۔عالمی ادب میں رباعی کو متعارف کرانے کے سلسلے میں فٹز جیرالڈ (Fitz Gerald)کا نام اہم ہے جس نے عمر خیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔فٹز جیرالڈ (پیدائش :31 مارچ 1809,وفات :14جون 1883 )ایک ممتاز برطانوی ادیب تھا جس نے یورپ میں مشرقی ادبیات کے فروغ کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔

عطاالرحمٰن قاضی کی رباعیات کا مجموعہ ’’خوشبو میں نہاتے رنگ ‘‘اسی روایت کا تسلسل ہے جسے اردو رباعی نے صدیوں کے سفر کے بعد استحکام بخشا ہے ۔وہ افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہان تازہ تک رسائی کو یقینی بنانے کی سعی کرتے ہیں ۔ان کی شاعری میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کی مسحور کن کیفیت قاری کے لیے مسرت اور انبساط کے فراواں مواقع سامنے لاتی ہے ۔نادر تشبیہات ،استعارات ،علامات اور مرکبات کے بر محل استعمال سے انھوں نے اپنی رباعیات کو دھنک رنگ منظر نامے کی صورت میں پیش کیا ہے ۔آئیے دھنک کے ان رنگوں کا مشاہدہ کریں :
ہر سمت وہ خوشبو میں نہاتے ہوئے رنگ
اترے ہیں فلک سے جھلملاتے ہوئے رنگ
پھر موج ہوا میگھ سندیسہ لائی
پھر نکلے زمیں سے مسکراتے ہوئے رنگ

ان رباعیات میں حسن و رومان اور پیمان وفا کی جو کیفیت ہے وہ قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے ۔ایک رہ نورد شوق کی حیثیت سے شاعر نے اقلیم محبت میں اپنی آمد کے بارے میں لکھا ہے :
اقلیم محبت میں جہاں دیکھتے ہیں
اپنے ہی قدموں کے نشاں دیکھتے ہیں
گزرے ہیں ستارہ وار ،شہر جاں سے
ہملوگ کہاں سود و زیاں دیکھتے ہیں

ایک حساس اور دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے عطا الرحمٰن قاضی نے صبر و استقامت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا ہے۔وہ ہر قسم کی عصبیت سے اہنا دامن بچا کر اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے آرزو مند ہیں ۔ان کا پیغام بے لوث محبت اور بے باک صداقت پر مبنی ہے ۔معاشرتی زندگی میں وہ عفو و در گزر کو شعار بنانے ہر اصرار کرتے ہیں ۔اگر فرد کو اپنی عزت و توقیر کی حفاظت کا خیال ہو تو وہ بغض و عناد اور کینہ پروری کو ترک کر کے سب کے لیے دل کشادہ رکھے ۔
اس شوخ کا جب بھی نام لینا چاہا
اک چپ نے بڑھ کر تھام لینا چاہا
اٹھتے ہوئے ہاتھ گر گئے قدموں میں
دشمن سے جو انتقام لینا چاہا

عطا الرحمٰن قاضی نے اردو غزل سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور غزل میں بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔اس کے بعد ان کی خطر پسند طبیعت نے رباعی کو پیرایہء اظہار بنایا اور بڑی خوش اسلوبی سے اس صنف شعر میں اپنی شناخت بنائی ۔اردو رباعی کی درخشاں روایت کو آگے بڑھانے ے سلسلے میں ان کی کی کوشش لائق تحسین ہے ۔مجھے یقین ہے کہ خوب سے خوب تر کی جانب ان کا سفر جاری رہے گا اور ان کے شعری تجربات اور تخلیقی کامرانیوں سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan : 277 Articles with 611431 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.