ہر دم حا ضر سستی بجلی ـ قسط ۲

بجلی سستی بھی ہو ـ ہر دم حا ضر بھی ہو ـ مگر کیسے حاضر ہو ہر دم سستی بجلی؟

گزشتہ مضمون میں ہم نے تجزیہ کیا تھا کہ بجلی کی سپلا ئی کو عمومی معاشیات کے طلب و رسد (Demand and Supply) کے نظام سے الگ ہٹ کر پیداوار اور کھپت کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت کنٹرول کر نا ہوگا ـ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ـ آج اس بات پر مزید گفتگو کر تے ہیں ـ

فرض کریں کہ ہم بہت سارے ڈیم بنا لیتے ہیں اور ملکی ضرورت سے بہت زیا دہ، خوب زیادہ، بجلی پیدا کر لیتے ہیں اور بجلی کی سپلائی کا کام پرا ئیوٹ کمپنیوں کو دے دیتے ہیں . تو کیا پھر ہم بجلی سستی قیمت پر فراہم کر سکیں گے؟

سرمایہ دارانہ نظام کے سر خیل امریکہ اور دیگر مغر بی ممالک میں بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام حکومتی اداروں کی زیر نگرانی ہوتا ہےـ نہ جانے کس برزجمہر نے ہماری حکومتوں کو یہ سمجھادیا ہے کہ بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام پرائیوٹ سیکٹر کو دے دینا چا ہئے ـ پرائیوٹ سیکٹر کے سرمایہ دار صرف اپنے مفادات اور منافع میں دلچسپی رکھتے ہیں، سستی بجلی سپلائی کرنا ان کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتا ـ دنیا میں جہاں بھی بجلی اور پانی کی پیداوار، سپلائی اور تقسیم کا کام پرائیوٹ سیکٹر کو دیا گیا ہےوہاں عوام کی زندگی مشکل ہی ہوئی ہےـ کیا کرا چی میں کے ای ایس سی کو ایک غیر ملکی کمپنی کے حوالے کر نے سے عوام کی مشکلات میں کوئی کمی آئی ہے؟ کیا کراچی میں بجلی کی قیمتیں باقی ملک سے زیادہ نہیں؟ افسوس یہ ہے کی کراچی سے ووٹ لے کر جیتنے والی جماعتوں نے کے ای ایس سی کی فروخت کی بھر پور حمایت کی اور عوام کے معاشی قتل کے منصوبے میں اپنا اپنا حصہ وصول کیا ـ سوائے جماعت اسلامی کے کسی پارٹی نے اس پر احتجاج نہں کیا اور آج کراچی کے عوام کیلئے بجلی مہنگی بھی ہے اور غائب بھی ـ

اگر عوام کو سستی بجلی مہیا کرنی ہے تو ملک کے بجلی پیدا اور تقسیم کر نے والے ادارے اونے پونے بیچنے کی بجائے ان کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں ـ اگر برادرانِ اقتدار نے واپڈا بھی بیچ دی تو بجلی اتنی مہنگی ہو جائیگی کہ سندھ اور پنجاب کا کسان اپنے ٹیوب ویل عجائب خانوں میں رکھوانے پر مجبور ہو جا ئیگا ـ

سستی اور ہر دم بجلی کی فراہمی کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کر نا ہو گا ـ بجلی کی چوری اور زیاں (waste) کو روکنا عوام کی زمہ داری ہےـ جب تک عوام خود بجلی کی چوری اور زیاں کے خلاف ایک ما حول نہیں بنائیں گے، ہر دم سستی بجلی نہیں مل سکے گی ـ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو بھی عوام کی تر بیت کرنا ہوگی اور بجلی کی چوری اور زیاں کے خلاف جہاد کر نا ہوگا ـ افسوس یہ ہے کے ہمارے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین خود بھی بجلی کی چوری اور زیاں کے گناہگار ہیں ـ عوام بھی ان ہی لو گوں کو ووٹ دیتے ہں جو بجلی اور پانی کی چوری میں عوام کی مدد کر تے ہیں ـ پھر کیوں اور کیسے ملے گی ہر دم سستی بجلی؟

جب ہم شارجہ سے پہلی مر تبہ آسٹریلیا آئے تو ہمٰ یوں محسوس ہوا کہ آسٹریلیا میں عوام اور حکومت دونوں بجلی استعمال کرنے سے ڈرتے ہیں ـ شام کے بعد گھروں میں لوگ بمشکل ایک یا دو لا ئٹیں جلاتے نظر آتے تھے اور گھر کے باہر صرف سرکاری لا ئٹیں ہی روشن نظر آتی تھیں ـ دور دور لگے کھمبوں میں لگے ھلکےھلکے بلب کفا یت شعاری (بلکہ کنجوسی) کی چغلی کھاتے محسوس ہو تے تھے ـ بہت عر صہ بعد ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ لوگ بجلی اور پانی کے استعمال میں کفا یت شعاری سے کام نہیں لتے بلکے اپنے احساسِ زمہ داری کی وجہ سے بجلی اور پانی کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کر تے ہیں ـ کراچی اور لاہور میں ہم نے تین افراد کے گھر میں دس بارہ بلب، شام سے رات گئے تک جلتے دیکھے ہیں، کنڈے والوں کے یہاں بھی اور میٹر والوں کے گھروں میں بھی ـ ہمارے لوگ بجلی اور پانی کے استعمال میں کفا یت شعاری کر نا اپنی تو ہین سمجھتے ہیں مگر بجلی اور پانی کی چوری کو جا ئز سمجھتے ہیں ـ

دنیا کے سرد ترین ممالک میں سے ایک ملک سوئٹزرلینڈ میں ہم نے بڑی بڑی سوپر مارکیٹس کو بھی ھلکی بجلی اور تھوڑی حرارت پر گزارہ کر تے دیکھا ہے ـ مگر پاکستا ن میں ہمارے محلے کے دودھ والے کی دکان ایسے روشن ہوتی ہے جیسے اس نے دکان کی چھت پر سورج کو ٹانگ رکھا ہے ـ بر طانیہ کا تو تزکرہ کرناہی بیکا ر ہے کہ وہاں گورا ہیٹر اسی وقت چلاتا ہے جب جان پر بن جا ئے ورنہ گرم کپڑے پہن کر گزارہ کرنے میں ہی عا فیت سمجھتا ہے ـ

مکرر عر ض ہے کہ بجلی بنانے والے ساری قِسموں کے فیول (ایندھن)، خود بجلی اور پانی کو معاشیات کے طلب و رسد کے نظام (Demand and Supply Paradigm) سے الگ ہٹ کر دیکھنا اور سمجھنا ہو گا ـ اِن چیزوں کو طلب و رسد کے تحت نہیں بلکہ پیداوار اور کھپت یا خرچ کے نظام (Production and consumption Paradigm) کے تحت استعمال کر نا ہوگا ـ

پاکستان مں بہت سارے نیم حکیم کبھی ہمیں کوئلے کی کانوں سے سورج طلوع ہونے خوشخبری د یتے ہیں تو کبھی سورج کی روشنی چرا کر ہماری چھتوں پر ٹا نگتےنضر آتے ہیں ـ کو ئی ھوا سے تو کو ئی پانی سے بلب جلاتا، پنکھے گھماتا اور گاڑیاں دوڑاتا نظر آتا ہے ـ کاش ان لو گوں کو معلوم ہو تا کی کسی بھی قسم کی توانائی کو بجلی میں بدلنے پر کتنی لا گت آتی ہے اور ایسا کر نے سے ما حولیات پر کیا گزر تی ہے ـ بجلی کی پیداوار پر آئندہ مضمون میں گفتگو کا وعدہ رہا ـ

ڈاکٹر مسعود محمود خان آسٹریلیا کی کر ٹن یو نیورسٹی میں مکینیکل انجینرنگ کے لیکچرر ہیں اور توانائی سے متعلق مضامین پڑھاتے ہیں ـ

Dr. Masood Mehmood Khan
About the Author: Dr. Masood Mehmood Khan Read More Articles by Dr. Masood Mehmood Khan: 6 Articles with 17320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.