ضمنی انتخابات اور حلقے کی سیاست

تحریک انصاف سے بات شروع کرتے ہیں، ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے وہ سوگ کی کیفیت میں ہے۔ عمران خان نے عام انتخابات میں 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، میانوالی اور پشاور کی نشست کو آسان سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا تھا، جبکہ راولپنڈی کی مشکل نشست اپنے پاس رکھی۔ آسان سمجھی جانے والی یہ دونوں نشستیں تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو بہاکر لے گئی ہیں۔ این اے ون پشاور سے عمران خان کے ہاتھوں شکست کھانے والے غلام احمد بلور نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو پچھاڑ دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار پی ٹی آئی کی شکست کو اس کی صوبائی حکومت کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں عوام اڑھائی ماہ بعد ہی پرویزخٹک کی حکومت سے بدظن ہوچکے ہیں۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ پشاور کی شکست نے پی ٹی آئی کو سیاسی میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن اس شکست کو حکومت پر عدم اعتماد سے تعبیر کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ این اے ون بلور خاندان کی آبائی نشست ہے۔ اس حلقے سے بے نظیر بھٹو تک غلام احمد بلور کے ہاتھوں شکست کھاچکی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو پہلی بار ساڑھے تین ماہ پہلے اس حلقے میں انٹری ڈالی تھی۔ اب اگر دوبارہ بلور جیت گئے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیں، عمران خان نے بلور کو 66 ہزار 32 ووٹوں سے شکست دی تھی اور بلور نے پی ٹی آئی کے کمزور اور غیرمعروف امیدوار کو محض 5ہزار 475ووٹوں سے ہرایا ہے۔ عام انتخابات میں اس حلقے سے جے یو آئی نے 4ہزار 738، پی پی پی 7ہزار121 اور مسلم لیگ (ن) نے 4ہزار 232 ووٹ لیے تھے۔ اس بار یہ تمام جماعتیں اے این پی کے ساتھ تھیں اس کے باوجود بلور صرف 34ہزار 386 ووٹ حاصل کرپائے۔ عام انتخابات میں انہوں نے 24ہزار 468 ووٹ لیے تھے، یعنی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار ہونے کے باوجود ان کے ووٹوں میں محض 10ہزار کا اضافہ ہوا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ووٹروں نے تحریک انصاف کو چھوڑکر کسی اور پر بھی اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے ہی نہیں نکلے۔ بلور کی فتح پی ٹی آئی کے غلط تنظیمی فیصلوں کی مرہون منت ہے۔ اسے صوبائی حکومت کی ناکامی قرار دینا جلدبازی ہے۔

میانوالی کی سیٹ پر ناکامی تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ عمران خان اس نشست کو دوسروں کے لیے ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا وہ کھمبے کو بھی امیدوار نامزد کردیں تو لوگ اسے ووٹ دیں گے۔ ضمنی انتخابات میں کپتان کا تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ پہلے انہوں نے عائلہ ملک کو ٹکٹ دیا، وہ جعلی ڈگری پر نااہل قرا رپائیں تو ٹکٹ سردار صاحب کو تھمادیا۔ ن لیگ نے سابقہ امیدوار ہی برقراررکھا۔ اس حلقے میں زبردست مقابلہ دیکھنے میں آیا، ڈیڑھ لاکھ سے زائد ووٹ ڈالے گئے، نتیجہ ن لیگ کے حق میں آیا۔ پی ٹی آئی دھاندلی کے الزامات لگارہی ہے لیکن سب نے دیکھا کہ یہاں چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑکر مجموعی طور پر انتخاب شفاف رہا۔ تحریک انصاف کو کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے مخالفین پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے اپنی ہی صفوں میں اپنے دشمن تلاش کرنے چاہئیں۔
ن لیگ کی کارکردگی تو اچھی رہی ہے لیکن کئی مقامات پر اسے بھی دھچکا لگا ہے۔ قومی اسمبلی کی اپنی ہی خالی کردہ ساری نشستیں جیتنے کے علاوہ میانوالی کی نشست بھی اسے مل گئی ہے، البتہ صوبائی اسمبلی کی 3 نشستیں اس نے گنوادی ہیں۔ شہبازشریف اور سردار ذوالفقارکھوسہ کی چھوڑی ہوئی دونوں نشستیں تحریک انصاف لے اڑی۔ کھوسہ کی نشست پر تو ان کے دونوں بیٹے مدمقابل تھے، تیسرے امیدوار پی ٹی آئی کے تھے، انہوں نے اختلافات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ راجن پور میں بھی ن لیگ اختلافات کا شکار رہی۔ اوکاڑہ میں منظور وٹو کے بیٹے نے ن لیگ کے امیدوار کو ہراکر سیٹ پر دوبارہ قبضہ جمالیا۔ یہ نشست عام انتخابات میں وٹوخاندان کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ ن لیگ اسلام آباد کی نشست پر بھی مقابلے کی پوزیشن میں تھی مگر ٹکٹ کی باربار تبدیلی سے پی ٹی آئی کے امیدوار اسدعمر کو فائدہ پہنچا۔ لاہور کے حلقے پی پی 150 میں گھمسان کا رن پڑا، یہاں سے ن لیگ کا امیدوار پی ٹی آئی کو محض 67 ووٹوں سے شکست دے سکا۔ وفاق اور صوبے میں حکومت ہونے کے باوجود پنجاب میں لیگی امیدواروں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹ ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی سب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے۔ پنجاب سے اسے 2صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔ مظفرگڑھ کی نشست جمشید دستی نے خالی کی تھی۔ ان سے شکست کھانے والے غلام ربانی کھر (حناربانی کے والد) نے ضمنی انتخاب میں جمشید دستی کے بھائی کو ہراکر مقابلہ برابر کردیا۔ کھر پی پی کے امیدوار تھے جبکہ دستی کو ن لیگ کی حمایت حاصل تھی۔ پیپلزپارٹی کی شازیہ مری نے سانگھڑ سے پیرپگارا کے چھوٹے بھائی پیر صدرالدین راشدی کی خالی کردہ نشست پر فنکشنل لیگ کے امیدوار کو حیران کن طور پر چت کردیا۔ اس سے بھی دلچسپ مقابلہ ٹھٹہ میں دیکھنے کو ملا، جہاں پیپلزپارٹی کی خاتون امیدوار نے علاقے کا کنگ سمجھے جانے والے اعجازشاہ شیرازی کو بھاری مارجن سے شکست دے دی۔ شکار پور کی صوبائی نشست بھی سخت مقابلے کے بعد پی پی کے نام رہی۔ پیپلزپارٹی کی کامیابی پر مایوس اور بددل جیالوں میں دوبارہ جان پڑگئی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں کامیابی کو پی پی کی سیاسی میدان میں واپسی قرار دیا جارہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 3نشستوں پر فتح حاصل کی تھی۔ انہوں نے ڈیرہ کم ٹانک اور لکی مروت کی نشستیں خالی کی تھیں۔ ٹانک کی نشست پر ان کے صاحبزادے امیدوار تھے لیکن وہاں اچانک انتخابات ملتوی کردیے گئے۔ لکی مروت میں مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن جو پرانے پارلیمنٹرین ہیں، کا تحریک انصاف سے مقابلہ تھا، الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر نوشہرہ اور لکی مروت کے حلقوں کے نتائج روک لیے ہیں۔ ان حلقوں کے 9 ، 9 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ ہوگی۔ نجی ٹی وی چینلوں کے مطابق ان دونوں حلقوں سے تحریک انصاف کے امیدوار جیت چکے ہیں، اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اسے جے یو آئی کے لیے بڑا دھچکا سمجھا جائے گا۔ ہار اور جیت تو ہوتی رہتی ہے لیکن انتخابات سے قبل پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں جو سخت تناؤ کی کیفیت تھی، اس میں جے یو آئی کے قدآور امیدوار کی پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست زبانوں کو مزید بے لگام کردے گی۔
اگر ہم بطور مجموعی ضمنی انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ووٹروں نے نظریات اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی بجائے مقامی سیاست کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ اگر لوگ پی ٹی آئی کے حامی ہیں تو اسے پشاور اور میانوالی میں کیوں شکست ہوئی؟ مخالف ہیں تو وہ نوشہرہ، صوابی، لکی مروت، اسلام آباد اور جنوبی پنجاب میں کیوں جیتی؟ اسی طرح کے سوالات ن لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کے بارے میں بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ 2ماہ قبل لوگ دستی کو دعائیں دے رہے تھے آج وہ کھر زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔ شہبازشریف سیلاب کے دوران بھی راجن پور کے عوام کے ساتھ کھڑے رہے لیکن ووٹ دریشک کو ملے، حلقے کی سیاست کے یہی رنگ ہوتے ہیں۔ ضمنی انتخابات نے حلقے کی سیاست کو مزید مضبوط کیا ہے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102565 views i am a working journalist ,.. View More